"KDC" (space) message & send to 7575

نگران حکومت‘ مشترکہ مفادات کونسل اور مردم شماری

یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو حلقہ بندیوں کا کوئی ادراک نہیں۔ انہیں حلقہ بندیوں کی باریکیوں کے بارے میں کوئی تجربہ نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے کمپیوٹرائزڈ سسٹم، نادرا اور گوگل میپ کے ذریعے حلقہ بندیوں کو ترتیب دیا۔ میں نے روزنامہ دنیا میں 4 مارچ کو اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے قوم کو آگاہ کیا تھا کہ حلقہ بندیوں کے تانے بانے گھڑی کی سوئیوں اور اقوام متحدہ کے پروگراموں سے ملتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے حلقہ بندیوں کو ترقی یافتہ ممالک کے مطابق بنانے کے لئے اپنے ماہرین سے الیکشن کمیشن کے افسران کو تربیت دلوائی اور فنڈنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ اب حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات متنازع قرار پاتے ہیں تو اقوام متحدہ کے ادارے پر سوالیہ نشان اٹھے گا کہ اس نے منفرد منصوبہ بندی کی تھی۔
مقامی اور علاقائی سیاستدان‘ اپنی منشا اور فرمائش کے مطابق حلقہ بندیاں کروانے کے لئے ہمیشہ سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ہمیشہ تجربہ کار جمہوریتوں میں حلقہ بندیوں کے طریقہ کار کو دیکھ کر اپنے ڈھانچے کو مضبوط اور قابل قبول بنانے کا تجربہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ عالمی اصولوں سے منحرف ہو کر کوئی اصول اخذ نہیں کر سکتا لیکن اگر سوویت یونین کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی اصول پسندی کو مدنظر رکھیں تو اس کے اثرات یوں سامنے آئے کہ سوویت یونین کو جمہوریت کے ایسے اصول سکھائے گئے‘ جس سے اس کا شیرازہ ہی بکھر گیا۔ ہمارے سیاستدان اور حکومتی ادارے ان پیچیدگیوں سے واقف نہیں ہوتے، جو خود پارلیمنٹ کے ارکان نے کسی آئینی شق، رول یا ضابطے کے ذریعے پیدا کی ہوتی ہے۔ حلقہ بندیاں ریاضی کے فارمولے اور کلاک وائز فارمولے کے تحت شمال، مغرب، مشرق اور جنوب کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر کی گئی ہیں۔ مارچ 1968ء میں اس وقت کے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس فضل اکبر نے حلقہ بندیوں کے اصول و ضوابط بیان کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا ''جس حد تک ممکن ہو گا تمام حلقہ بندیاں، جغرافیائی طور پر مربوط ہوں گی، ان کے فزیکل فیچرز ایک جیسے ہوں گے، انتظامی حدود کا خیال رکھا جائے گا اور ہر حلقہ ایک الگ و منفرد حیثیت کا حامل ہو گا‘‘۔ اسی طریقہ کار کے تحت الیکشن کمیشن نے اپنے رولز مرتب کئے اور رولز بناتے وقت بھی‘ شنید ہے کہ امریکی ادارے کے پاکستان کے ماہرین سے رائے لی گئی تھی جن کا وسیع تجربہ قابل رشک رہا ہے‘ لہٰذا رولز بناتے وقت طے پایا کہ جس حد تک ممکن ہو گا آبادی میں دس فیصد سے زیادہ کا فرق نہیں ہو گا۔ یہ بھی واضح طور پر درج ہے کہ کسی غیر معمولی صورت میں اگر فرق 10 فیصد سے بڑھ گیا تو الیکشن کمیشن اس کی وجوہات کا تعین کرے گا‘ اور حلقہ بندیوں کے رابطے میں واضح طور پر درج کرے گا۔ ہمارے موجودہ قواعد و ضوابط آئین کی شقوں اور خود حلقہ بندیوں کے رولز کے قواعد و ضوابط سے متصادم ہیں۔ مثلاً حلقہ بندی کرتے وقت انتظامی تقسیم کو بچانا تو لسانی اکائی کا حصہ ہے، لسانی و مذہبی اکائی کو برقرار رکھنا اس کے دوسرے تقاضے ہیں۔ حلقہ بندی کرتے وقت یہ تقاضے متصادم ہوں تو کس کو فوقیت حاصل ہو گی‘ آئین اس بارے میں مکمل خاموش ہے کہ آبادی کے مطابق سیٹوں کا کوٹہ مقرر کرتے وقت کوئی انتظامی اکائی تقسیم ہوتی ہو تو الیکشن کمیشن کیا کرے۔ الیکشن کمیشن کے ماہرین نے آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی اور آئین کے آرٹیکل 106 کے مطابق صوبائی اسمبلی کی دفعات کا تعین کر دیا۔ الیکشن کمیشن کی حلقہ بندیوں کی ٹیم نے اعشاریہ پچاس سے اوپر کے اعداد و شمار ایک میں تبدیل کر دیئے، اور اس سے نیچے کو صفر میں۔ تمام صوبوں کو کوٹے کے مطابق نشستیں الاٹ کی گئیں۔ اعشاریہ پچاس سے کم ووٹوں پر نشست نہیں دی جا سکتی تھی؛ تاہم کئی علاقوں کے بچ جانے والے آبادی کے لوگوں کو ملا کر سیٹیں بنا دی گئیں۔ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیاں کرتے وقت انتظامی یونٹوں اور ریونیو کی اکائیوں کو حتی الوسع منظم اور غیر منظم رکھنے کی کوشش کی ہے؛ تاہم بڑے ریونیو اور بڑے یونٹوں کو بچانے کے لئے کہیں کہیں چھوٹے انتظامی یونٹوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر ضلع، تحصیل، قانون گو حلقہ یا پٹوار سرکل سیٹل ایریا ہی انتظامی اور ریونیو کی اکائیاں تصور کی جاتی ہیں۔ اسی طرح شہری علاقوں میں مردم شماری چارجز اور مردم شماری سرکل انتظامی یونٹ ہوتے ہیں، جیسا کہ غیر سیٹل ایریا میں سب ڈویژن تحصیل اور یونین کونسلوں کو عمومی طور پر انتظامی یونٹوں کے طور پر لیا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بڑی مہارت سے بڑے انتظامی یونٹوں اور مردم شماری یونٹوں کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ جہاں ناگزیر ہوا وہاں آبادی کے معیار کو پانے کے لئے پٹوار سرکل کو سیٹل ایریا اور یونین کونسلوں کو نان سیٹل ایریا میں تقسیم کرنے سے بچایا گیا ہے۔ اسی طرح صوبہ سندھ کے نئے حلقے مطلوبہ معیار پر پورا اترتے ہیں۔ بظاہر ان میں کوئی خرابی دکھائی نہیں دیتی۔
الیکشن کمیشن نے مردم شماری کی عبوری رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے حلقہ بندیاں کی ہیں، اب اگر مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی روشنی میں پانچ فیصد بلاکس پر نظر ثانی کرتے ہوئے ساڑھے اٹھارہ ہزار بلاکس میں مردم شماری کا از سر نو جائزہ لیا جاتا ہے اور ان بلاکس میں آبادی بڑھتی ہوئی نظر آتی تو پھر الیکشن کمیشن کے اعشاریہ پچاس سے اوپر کے اعداد و شمار کو ایک میں تبدیل کرنے اور اس سے نیچے کو صفر میں تبدیل کرنے کے جس فارمولے کے تحت صوبوں میں نشستیں الاٹ کی گئی ہیں، اگر مردم شماری کے ان بلاکس میں آبادی کا تنازع بڑھتا ہوا نظر آیا تو پھر الیکشن کمیشن کو از سر نو حلقہ بندیاں کرنا پڑیں گی‘ کیونکہ اعشاریہ پچاس اور صفر کا فارمولا از سر نو اٹھایا جائے گا اور نشستیں آگے پیچھے ہو جائیں گی اور اس طرح الیکشن کمیشن کا حلقہ بندیوں کا ڈھانچہ سوالیہ نشان بن جائے گا۔ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو حکومت نے نظر انداز کر دیا تو نگران حکومت کے قیام کے مطابق یہ مسئلہ اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے اٹھائے جانے کا امکان ہے۔ اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے چیف جسٹس نے حلقہ بندیوں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اس کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ نگران حکومتیں مردم شماری کے حتمی سرکاری نتائج اور ساڑھے اٹھارہ ہزار بلاکس کی از سرِ نو مردم شماری کے نتیجے میں حلقہ بندیاں کرانے کا حکم جاری کرکے آئین کے آرٹیکل 51,59 اور 224 کو مدنظر رکھیں گی۔ حلقہ بندیاں از سرِ نو مرتب کرانا ان کی آئینی ذمہ داری ہو گی، کیونکہ الیکشن کمیشن کو ووٹ کی عزت اور قدر کو بھی مدنظر رکھنا ہے اور حلقہ بندیاں آئین کے تقاضوں کے مطابق بنانا ہیں۔
حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے برعکس مردم شماری کی از سرِ نو توثیق کے لئے تیسرے فریق کا عمل روک دیا ہے اور ایک کمیٹی نے‘ تیسرے فریق کے بجائے آزاد ماہرین کو شامل کرنے کی تجویز دے کر حلقہ بندیوں کے خلاف جو طوفان اٹھائے تھے‘ ان کا ازالہ کر دیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی ٹوٹ پھوٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کراچی میں پانچ فیصد علاقے کی مردم شماری کے لئے تیسرے فریق کی خدمات کے بجائے اب محکمہ شماریات کی گزشتہ مردم شماری کی توثیق کے عمل کو ہی آگے بڑھائے گی۔ سینیٹ کی ہدایات کے نتیجہ میں شماریات ڈویژن نے اس معاملہ کو تیسری مرتبہ مشترکہ مفادات کونسل کو بھجوا دیا ہے کیونکہ سینیٹ اور مشترکہ مفادات کونسل کی طرف سے فیصلہ ایک دوسرے کے برعکس ہے‘ لہٰذا مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کے برعکس حکومت اور سینیٹ کمیٹی نے جو اقدامات کیے ہیں‘ ان کے نتیجہ میں موجودہ حلقہ بندیاں‘ جو مردم شماری کی عبوری رپورٹ کی روشنی میں مرتب کی ہیں‘ فائنل تصور کی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن کی راہ میں ہمالیہ ٹائپ رکاوٹیں ختم ہو گئی ہیں‘ اور حلقہ بندیاں اگلے ماہ حتمی گزٹ میں تبدیل ہو جائیں گی۔ اب نگران حکومت کے سامنے آئینی و قانونی بحران نہیں آئیں گے اور وقت مقررہ پر ہی الیکشن کا انعقاد ہو جائے گا۔ اس حوالے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے تمام تجزیے درست ثابت ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے کہ حلقہ بندیوں کے تنازع سے الیکشن مؤخر ہو جائیں گے۔
حلقہ بندیو ں کے خدوخال مارچ 1968ء میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس فضل اکبر نے جاری کئے تھے۔ اسی کے مطابق موجودہ حلقہ بندیوں کے رہنما اصول اپنائے گئے ہیں اور اب تک کی رپورٹ کے مطابق حلقہ بندیوں کے خلاف دو درجن سے زائد تجاویز و اعتراضات الیکشن کمیشن کو موصول ہوئے ہیں، جو الیکشن کمیشن کے لئے خوش آئند ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں