"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن اور آئندہ عام انتخابات

سنجیدہ فکر سیاسی قیادت اور دیانتدار بیوروکریسی کا وجود کسی بھی ملک کے استحکام، تعمیر و ترقی اور اچھی طرزِ حکمرانی کا بنیادی اور ناگزیر تقاضا ہوتا ہے۔ پاکستان میں جہاں مختلف ادوار میں ہماری سیاسی افراط و تفریط نشیب و فراز کا شکار رہی‘ وہاں ہماری بیوروکریسی بھی مجموعی طور پر عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتری‘ جس کی وجہ سے بدانتظامی، بے ضابطگی اور ناانصافی کی شکایات کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں۔ ہمای سول سروسز میں بہت اچھے معاملہ فہم، باصلاحیت، قواعد و ضوابط کے پابند منصف مزاج افسر رہے ہیں اور اب بھی ہیں‘ لیکن ایسے بھی ہیں جن کی کارکردگی اور افرادی طرزِ عمل کو شکوک و شبہات سے بالاتر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی حوالے سے سپریم کورٹ میں بتیس ہزار سرکاری افسران کی نشاندہی کی گئی ہے‘ جنہوں نے حکومتی ریکارڈ میں ذاتی معلومات کا درست اندراج نہیں کرایا، جو ان کی قانونی ہی نہیں ذاتی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے؛ چنانچہ عدالت نے دہری شہریت کے حامل 147 اور بیگمات کی دہری شہریت چھپانے والے 291 افسروں کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں‘ جبکہ 6 غیرملکی افسروں کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے صوبوں کی جانب سے معلومات نہ آنے پر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور نیب کو مزید معلومات اکٹھی کرنے کی ہدایت کی۔
تارکینِ وطن کے ووٹ دینے کے حق پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو لاکھوں تارکین وطن ملکی سیاست اور جمہوریت کے لئے کردار ادا کر سکیں گے۔ دہری شہریت چھپانے کا نوٹس بھی ایک اہم قدم ہے۔ ایسے تمام افسران کو حقائق چھپانے کے جرم میں تاحیات عمومی عہدہ کیلئے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ تمام سرکاری مراعات واپس لیتے ہوئے‘ ان کے خلاف بدعنوانی کے تحت مقدمات درج کروانے کے احکامات جاری کرنا بھی انصاف کا تقاضا ہے۔ دہری شہریت کے حامل افراد کے لئے ایک اصول بھی طے کرنا ہو گا کہ وہ کوئی بھی ہو‘ اس کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری وزارتِ خارجہ آغا شاہی اور حکیم سعید نے اپنی اپنی الوداعی تقاریب میں قوم کو آگاہ کر دیا تھا کہ پاکستان کی بیوروکریسی ملک کے مفاد میں کام نہیں کرتی۔ مرحوم آغا شاہی نے دکھ، درد اور اضطراب میں بتایا تھا کہ پاکستان کی بیوروکریسی دنیا کی بدترین بیوروکریسی ہے اور صف اول کی بیوروکریسی فرانس کی ہے۔
دہری شہریت کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ایک لاکھ ستر ہزار سے زائد افسران میں سے ایک لاکھ 45 ہزار افسران کی معلومات درست ہیں؛ تاہم تصدیق کا عمل ابھی جاری ہے۔ ملک کی بدقسمتی دیکھئے کہ یہ افسران اپنی اور اپنی بیگمات کی دہری شہریت ظاہر نہ کرکے قانون کے علاوہ اخلاقی لحاظ سے بھی گرفت میں آ رہے ہیں۔ جو افسر ریاست کے مفاد میں اتنی بھی دیانتداری کا مظاہرہ نہیں کرتا اور سچ کو چھپاتا ہے‘ اس سے اپنے فرائض کی ایمانداری سے ادائیگی کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے؟ یہ ملکی مفاد سے انحراف کے دائرے میں آتا ہے اور آئین کے آرٹیکل 5 سے روگردانی بھی ہے۔ سیاستدانوں کی دہری شہریت کا سوال اٹھایا جا سکتا ہے تو بیوروکریٹس بھی اس کی گرفت میں آئیں گے۔ دہری شہریت چھپانا بددیانتی ہے، جس شخص کی وفاداری دو یا زیادہ ممالک سے ہو‘ وہ اپنے ملک سے کس طرح مخلص ہو سکتا ہے؟ یہ ایسی خرابی ہے جس کی وجہ سے ملک میں کرپشن اور بدعنوانی کو فروغ مل رہا ہے۔
عدالت نے دہری شہریت والوں کا نوٹس لے کر حکومت کو راہ دکھائی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ اسی طرح دوسرے معاملات پر بھی کڑی نظر رکھیں تاکہ دہری شہریت کے حامل بیوروکریٹس کی عوام دشمن پالیسیوں کا ازالہ ہو سکے کیونکہ ملکی معاشی ابتری میں انہی کا عمل دخل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں بیوروکریٹس کی وجہ سے پارلیمانی نظام حکومت بار بار ناکام ہوا۔ ماضی میں اسکندر مرزا نے اپنے بیوروکریٹس کی مشاورت سے‘ ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تھا‘ اور صدر ایوب خان کو زوال پذیر کروانے میں بھی انہیں کا عمل دخل تھا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ بیوروکریٹس نے در پردہ شیخ مجیب الرحمن سے روابط بڑھائے۔ جنرل یحییٰ خان کے یہی ساتھی راولپنڈی کلب میں ملک کے خلاف سازشیں کرتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے بعض قریبی ساتھی بھی دہری شہریت کے حامل تھے جنہوں نے این آر او کا راستہ ہموار کیا۔ انہی بیوروکریٹس نے نواز شریف کے خلاف مقدمات کو التوا میں رکھا جس کی بنیاد پر چیئرمین قومی احتساب بیورو جنرل شاہد عزیز کو مستعفی ہونا پڑا۔لیکن جیسا کہ میں نے کالم کے آغاز میں عرض کیا‘ سارے بیوروکریٹس ایک جیسے نہیں۔ ان کی اچھی خاصی بڑی تعداد فرض شناس اور محبِ وطن ہے۔
میرے خیال میں ان حالات کے پیش نظر ملک کے موجودہ سسٹم کو جدید ترین خطوط پر چلانے کے لئے صدر کے اختیارات میں اضافہ ہونا چاہئے اور صدر کے انتخابات کا طریقہ کار تبدیل کر کے ان کو جامع رائے دہی کی بنیاد پر منتخب کیا جانا چاہئے اور چیف آف آرمی سٹاف، چیف الیکشن کمشنر، قومی احتساب بیورو، ایف آئی اے اور ایف بی آر میں کلیدی اسامیوں پر تقرر کے لئے ان (صدر) کی رائے کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہئے اور دوسری طرف ایسے مواقع پیدا کئے جانے چاہئیں کہ پارلیمانی سسٹم بھی اپنی جڑیں مضبوط بنا سکے۔
پاکستان میں ایک طرح سے انتخابی عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ گمان یہ ہے کہ نواز شریف اپنے بیانیہ کو آگے بڑھاتے ہوئے کنفیڈریشن کی طرز پر حکومت کا نظام لانے کے لئے درپردہ کوشش کر رہے ہیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی امریکہ کے پراسرار دورے پر تنِ تنہا گئے اور امریکی نائب صدر سے ملاقات کر کے واپس آئے۔ ان کے آتے ہی ڈالر کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہو گیا۔ سیاسی رہنماؤں، پارلیمنٹ اور ذمہ دار اداروں نے پوچھا تک نہیں کہ وہ امریکہ کس مقصد کے تحت گئے تھے۔ ان حالات میں وزیر اعظم نے چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کی۔ ہماری اطلاع کے مطابق وزیر اعظم نے چیف جسٹس کو ملک کی بگڑتی ہوئی اور مفلوج زدہ اکانومی کے بارے میں بتایا‘ اور ملک میں معاشی ایمرجنسی کے پہلوئوں پر بھی غور و خوض کیا گیا۔ ممکن ہے ملاقات میں اخلاق سے عاری وزرا کے بارے میں بھی بات ہوئی ہو‘ جن کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ 
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بیوروکریسی پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اور احد چیمہ کی حمایت میں 280 اعلیٰ بیوروکریٹس کی بغاوت اور 1400 کے لگ بھگ دہری شہریت کے حامل بیوروکریٹس اور پنجاب سندھ، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کی بیوروکریسی کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی انتخابات 2018ء عدلیہ کی نگرانی میںکروانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ صوبائی کورٹس سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، ایڈیشنل ججز کی فہرستیں طلب کر لی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے غیر جانبدارانہ انتخابات کروانے اور عدلیہ کے افسران کی خدمات مستعار لینے کے لئے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 50 اور 51 کی بالترتیب ذیلی شق 1 سی اور 1 کی روشنی میں متعلقہ رجسٹرار ہائی کورٹس کو مراسلے ارسال کر دیئے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا یہ مثبت اور خوش آئند فیصلہ ہے کیونکہ بدقسمتی سے پاکستان کی بیوروکریسی کے ایک حصے کے طرز عمل سے ان کی ساکھ مجروح ہوئی ہے‘ لہٰذا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 2013ء کے انتخابات کے تلخ تجربات کے باوجود عدلیہ کے ہی افسران کو تعینات کرنا پڑا۔ بہرحال اب ان کی براہ راست نگرانی چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے اور اس طرح ملک میں شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ مناسب ہو گا کہ سیاسی جماعتیں اب اپنے منشور کی طرف توجہ دیں‘ اور پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے لئے عملی اقدامات کریں۔ ریاست کا ڈھانچہ مضمحل ہے لہٰذا مناسب ہے کہ سپریم کورٹ اور قومی احتساب بیورو امیدواروں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال پر نظر رکھیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں