"KDC" (space) message & send to 7575

نئے صوبے‘ انتخابی بے قاعدگیاں اور تحریکِ عدم اعتماد

پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کی ایک وجہ لا محالہ کرپشن اور بیوروکریسی کا بے لگام ہونا ہے اور اسی نقطۂ نظر کو آگے بڑھاتے ہوئے سیاسی پارٹیاں ان کو اپنے مفادات میں استعمال کرتی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں نام نہاد منتخب نمائندوں کا طبقہ تخلیق ہو گیا ہے‘ جو غالب حد تک بدعنوانوں پر مشتمل ہے لیکن ان کو اپنے علاقوں میں اس قدر اثر و رسوخ حاصل ہے کہ وہ بار بار منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتیں اپنی کامیابی یقینی بنانے کے لئے ایسی ہی سیاسی شخصیات کی تلاش میں رہتی ہیں‘ جن کے پاس ووٹ بینک ہو اور بعد ازاں جن کو حکومتیں یا وزارتیں عطا کر دی جاتی ہیں۔ اگر فیڈریشن کو مضبوط کرنا اور غریب عوام تک رسائی حاصل کرنا ہے تو اس نام نہاد اشرافیہ کو نظر انداز کرنا ہو گا۔ اگر ہم موجودہ ابتر حالات سے نکلنا چاہتے ہیں تو اس آئین میں ترقی پسندانہ انداز میں اصلاحات کرنا ہوں گی‘ اور پاکستان کو انتظامی طور پر سات صوبوں میں تقسیم کرنا ہو گا۔ ملک میں جمہوریت کا مستقبل دائو پر لگ چکا ہے۔ دراصل دو بڑے خاندانوں کی آپس میں مفاہمت ہو چکی ہے‘ اور اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کو دو بڑے خاندانوں اور ان کے سربراہوں کے درمیان خفیہ مفاہمت کی ایک ایسی داستان بنا دیا گیا ہے‘ جس میں اس ملک کے غریب عوام کا کوئی کردار نہیں۔ یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فعال ہونے کے باوجود انتظامیہ کے ذریعے اس کی غیر جانبداری کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ نگران حکومت چند ہفتوںکے بعد قائم ہو جائے گی‘ اور اس کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات وہی نتائج پیش کریں گے‘ جو 2013ء کے انتخابات میں نظر آئے تھے۔ یہ وہ جمہوریت ہے جس کی ذمہ داری ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ نے اٹھا رکھی ہے۔ ذمہ دار شخصیات بار بار فرما رہی ہیں کہ انہوں نے مارشل لا کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دیئے ہیں۔ یہ دعویٰ مسٹر بھٹو‘ ان کے بعد بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے بھی کیا تھا اور اسی خوش فہمی میں نواز شریف نے جنرل جہا نگیر کرامت کو سبکدوش کروا کے جنرل پرویز مشرف کے لئے راہ ہموار کی‘ اور کارگل کی جنگ میں بھارتی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے جیل چلے گئے‘ اور وہاں سے بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت جدہ سدھار گئے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں یکم اپریل سے عوامی نمائندوں سے منسوب ترقیاتی منصوبوں اور سکیموں کا سنگ بنیاد رکھنے اور ان کی تشہیر پر بجا طور پر پابندی عائد کرتے ہوئے ہدایات جاری کی ہیں کہ انتخابات تک وزرائ، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹرز اور بلدیاتی نمائندوں سے منسوب کسی ترقیاتی منصوبے یا سکیم کا سنگ بنیاد نہیں رکھا جا سکتا اور نہ ہی اس کی تشہیر کی اجازت ہو گی۔ یقینا یہ اقدام اس لئے الیکشن کمیشن نے کیا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں عین وقت پر ترقیاتی کاموں کا سنگ بنیاد رکھنے یا تکمیل پر فیتہ کاٹنے اور ماضی کے سنگ بنیاد اپنے نام کرنے کے لئے‘ تشہیر کے ذریعے ان اقدامات کو الیکشن مہم کا حصہ بنایا جاتا رہا تھا۔ میں نے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی توجہ اس طرف مبذول کروائی تھی کہ اربوں روپے کی تشہیر حکومت کی ایما پر کی جا رہی ہے۔ انہوں نے حسب معمول اس پر توجہ نہ دی۔ اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایات پر یہ سلسلہ روکنے کے لئے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں قانون ملک میں پہلے سے موجود ہے، لیکن امیدواروں کی اکثریت یہ احکامات ہوا میں اڑاتی آئی ہے۔ 268 کھرب کے عالمی قرضوں تلے دبی قومی معیشت اس بے جا اسراف کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ویسے بھی دنیا بھر میں ترقی کے نام پر عام انتخابات میں تشہیری مہم کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور بنگلہ دیش میں ایسی تشہیری مہم چلانے پر متعلقہ امیدوار کو نااہل قرار دینے کی بھی قانونی شقیں موجود ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 40 برسوں میں 80 سے زائد ممالک اپنی انتخابی اصلاحات کی بدولت پائیدار جمہوریت اور ترقی و خوشحالی سے ہمکنار ہوئے ہیں‘ لیکن پاکستان میں 70 سال گزر جانے کے باوجود بھی جامع انتخابی اصلاحات سامنے نہیں آ سکیں‘ جس سے کئی خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ عین انتخابات کے وقت امید وار کو عوامی کام یاد آ جاتا ہے، استحقاقی فنڈز کو تعمیر و ترقی کے نام پر انتخابی مہم کا حصہ بنانے کی روایت اور بے قاعدگیاں اب ختم ہونی چاہئیں۔ یہ قاعدے اور قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان امیدواروں کو الیکشن سے نااہل کرنے کے لئے بدعنوانی ایکٹس کے تحت کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔
انتخابی عمل میں حصہ لینے والے سیاستدانوں اور جماعتوں کو یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا ہو گی کہ آنے والے انتخابات میں انتخابی قوانین اور قواعد و ضوابط ماضی کے مقابلے میں آئینی احتساب کے عمل سے گزریں گے‘ اور ریٹرننگ افسران کا ان پر نظر رکھنے اور عمل درآمد کروانے کا طریقہ کار اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ ریٹرننگ افسران اگر اپنی قانونی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے پورا کرتے ہیں تو بادی النظر میں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ حکمران جماعت کے امیدواروں کی پہلی صف انتخابی عمل سے باہر ہو جائے گی۔ میرے ذاتی خیال میں ملک میں جمہوریت کو خطرہ شریف خاندان سے ہے۔ ان کا احتساب ہونے اور سزا ملنے کی صورت میں ملک میں افراتفری اور انتشار پھیلانے کی جو کوشش ہو گی‘ اس سے الیکشن کے عمل میں وقتی رکاوٹیں کھڑی ہو سکتی ہیں‘ لیکن چیف جسٹس آف پاکستان آئین کے تحفظ کی خاطر حالات پر کنٹرول پانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 190 کے اختیارات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔
نواز شریف کو بخوبی اندازہ ہو چلا ہے کہ ان کی اگلی رہائش گاہ جیل ہے اور جلا وطنی کے امکانات خارج از امکان ہیں۔ عام انتخابات کی مہم وہ جیل میں بیٹھ کر چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان کے بیانات پر الطاف حسین کی طرز پر پابندی کے امکانات موجود ہیں‘ اور شہباز شریف نواز شریف کے بیانیہ کو لے کر آگے چلنے کی صلاحیت سے نابلد ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بیماریوں میں جکڑے ہوئے ہیں‘ نواز شریف شاہد خاقان عباسی پر اعتماد کرتے ہوئے‘ اور انہی کو آگے لانے کی حکمت عملی بنائیں گے۔
مسلم لیگ (ن) نے آئینی رکاوٹوں کے باعث نئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا منصوبہ ترک کر دیا ہے۔ حزب اختلاف کی طرف سے منتخب کروائے گئے نئے چیئرمین سینیٹ کو حکومتی جماعت تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور وہ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر غور کر رہی تھی؛ تاہم آئین کے تحت وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، چیئرمین سینیٹ یا سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد 6 ماہ تک تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جا سکتی۔ ن لیگ کو صادق سنجرانی کے خلاف کارروائی کے لئے 6 ماہ تک انتظار کرنا پڑے گا۔ چیئرمین سینیٹ بے بنیاد الزامات پر وزیر اعظم سے وضاحت بھی طلب کر سکتا ہے، پروٹوکول کے لحاظ سے بھی چیئرمین سینیٹ کا عہدہ صدر مملکت کے بعد آتا ہے؛ چنانچہ میرے خیال میں وزیر اعظم نے نہ صرف صادق سنجرانی بلکہ چیئرمین سینیٹ کے عہدے کی توہین کی ہے۔ نون لیگی ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت نے صادق سنجرانی کی عمر کی بنیاد پر ان کے خلاف عدلیہ سے رجوع کرنے پر بھی غور کیا‘ لیکن اس حوالے سے بھی پیش رفت نہ ہو سکی؛ تاہم نون لیگ ایوان بالا میں نئے چیئرمین کو ٹف ٹائم دے گی۔ بعض لیگی ارکان سے ہونے والی بات چیت کے مطابق پارٹی قیادت سینیٹ میں اکثریتی جماعت کی قیادت کو بروئے کار لاتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کے حوالے سے سخت طرز عمل اختیار کرے گی۔ ایوان کی کارروائی کے دوران واک آئوٹ اور بائیکاٹ کیا جائے گا اور کورم کی کمی کے ذریعے اجلاس ملتوی کرایا جائے گا جبکہ ایوان کے نئے سربراہ کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کیا جائے گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں