"KDC" (space) message & send to 7575

حلقہ بندیاں چیلنج ہو جائیں گی؟

ان تمام افراد کو نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں جن کو قومی مفاہمت آرڈی نینس کے تحت ریلیف ملا تھا اور جس کے نتیجے میں ستمبر 2007 ء میں 8 ہزار سے زائد مقدمات ختم کر دیئے گئے تھے۔ اس طرح مفاہمت کورٹ نے‘ جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس حامد علی مرزا تھے‘ ایک ہزار ارب روپے سے زائد مالی جرائم کے مقدمات ختم کر دیئے تھے۔ مبینہ طور پر قتل، کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور خورد برد میں ملوث 8043 افراد کے خلاف قومی احتساب بیورو میں مقدمات اپنے انجام کو نہ پہنچے اور ان کو ریلیف دے دیا گیا۔ اور میرا اندازہ یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے اسی سلسلے میں انہیں چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا تھا۔ بعد ازاں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری نے اگرچہ اس آر ڈی نینس کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا اور پارلیمنٹ نے بھی اس کو کالا قانون قرار دے کر اس کو قانون کے دائرے سے باہر کر دیا تھا۔ ملک کے ممتاز قانون دان سید فیروز شاہ گیلانی نے اس تناظر میں عدالت عظمیٰ سے کارروائی کر کے لوٹی ہوئی رقوم بازیافت کرانے کی استدعا کی تھی‘ اور اب 2018ء کے انتخابات کی مہم میں این آر او سے مستفید ہونے والی شخصیات توجہ کا مرکز بن جائیں گی۔ اسی میگا کرپشن کے معاملے میں آصف علی زرداری کو بطور صدر پاکستان آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل تھا جس کی بنا پر ان کے خلاف مقدمات نہیں کھولے گئے تھے۔ لیکن اب چیف جسٹس آف پاکستان نے این آر او کے مقدمات کا از سر نو جائزہ لینے کے لیے نوٹسز جاری کر دیئے ہیں۔
ملک انتخابی عمل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مفاد پرستی کی وجہ سے جماعتوں میں توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے۔ سب کی نظر نواز لیگ پر لگی ہوئی ہے جس کے ارکان دیگر جماعتوں کا رخ کر رہے ہیں۔ الیکشن 2018 ء کے انعقاد کی راہ میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے مگر اب تک سیاسی حلقے الیکشن کے مقررہ وقت پر انعقاد کے حوالے سے بے یقینی کا شکار نظر آتے ہیں۔ کراچی کی مردم شماری کے حوالے سے مصطفی کمال کی سپریم کورٹ میں آئینی درخواست داخل ہو چکی ہے اور اس کے دور رس نتائج نکلنے کے امکانات موجود ہیں کیونکہ نئی حلقہ بندیاں مردم شماری کی عبوری رپورٹ پر کرائی گئی ہیں اور مصطفیٰ کمال نے حلقہ بندیوں پر ضرب کاری لگائی ہے۔ اسی طرح موجودہ حکومت کے لیے بڑا چیلنج نئے مالی سال کا بجٹ منظور کرانا ہے۔ اس پر عام بحث ہو گی لیکن اصل مرحلہ مالیاتی بل کی منظوری اور اپوزیشن کی کٹوتی کی تحاریک کو مسترد کرانا ہے جس کے لئے ایوان میں حکومتی ارکان کی حاضری درکار ہو گی۔ اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ وزرا ایوان میں موجود نہیں ہوتے۔
سیاسی جماعتوں کو ادراک نہیں کہ حلقہ بندیاں انتخابات میں کتنا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ امریکہ میں حلقہ بندی پر ہی تین بار سپریم کورٹ سے تاریخی فیصلے آ چکے ہیں جن کا مقدمہ یہ ہے کہ ملک کی آبادی مساوی تقسیم ہو کر ایک فرد، ایک ووٹ کا اصول کارفرما ہو سکے۔ میرے خیال میں ساڑھے اٹھارہ ہزار بلاکس کی از سر نو مردم شماری کے بغیر حلقہ بندیاں منصفانہ نہیں ہو سکتیں۔ اس صدی کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب نظام فیل ہو جاتے ہیں تو عوام و خواص پر زمین تنگ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ انتخابات کی تیاری سے متعلق قوانین دو حصوں میں ہیں، ایک کا تعلق ووٹروں کی فہرستیں تیار کرنے سے ہے اور دوسری کا اس کی حلقہ بندی طے کرنا ہے۔ پہلے معاملے میں الیکشن کمیشن کا عملہ انتخابی فہرستیں نادرا کی معاونت سے بنانے میں کامیاب رہا‘ اب حلقہ بندیوں کے حوالے سے صرف اعتراض کنندگان کی داد رسی کرنا مقصود ہے اور میرے علم کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی حلقہ بندیوں کے مجاز افسران کو اس بارے میں ادراک نہیں تھا اور چیف الیکشن کمشنر نے دانشمندی سے اس بحران پر وقتی طور پر قابو پا لیا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ حلقہ بندیاں نگران حکومت کے دور میں سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائیں گی۔ پھر یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں ملک کے اٹھارہ سال سے زائد کے مرد و خواتین شہریوں کی تصاویر اور ان کا ذاتی ڈیٹا غیر محفوظ ہو چکا ہے اور اس ڈیٹا کے ممکنہ طور پر غلط استعمال سے دس کروڑ سے زائد ووٹرز کے خاندانی اور مالی نظام کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ میری تحقیق کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن (3)79 میں ایک واضح خامی ہے، اس کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان ریٹرننگ افسر کو ہر حلقے کے انتخابی مقامات کے مطابق حتمی انتخابی فہرستیں فراہم کرے گا۔ ریٹرننگ افسر ہر پولنگ سٹیشن کے پریزائیڈنگ افسر کو حتمی انتخابی فہرست کی نقول فراہم کرے گا جس میں متعلقہ پولنگ سٹیشن میں ووٹ ڈالنے والے ووٹروں کے نام شامل ہوں گے۔ امیدوار یا اس کے الیکشن ایجنٹ کی درخواست پر ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر یا ان کی جگہ پر کوئی مجاز افسر اس امیدوار کو یا اس کے الیکشن ایجنٹ کو شائع شدہ فہرست، ہارڈ کاپی اور کمپیوٹر پر دیکھی جانے والی ریڈایبل سافٹ کاپی، یو ایس بی میں پی ڈی ایف فائل کی صورت میں یا دوسرے کسی ناقابل ترمیم طریقے سے فراہم کرے گا جس میں ووٹر کی تصاویر شامل ہوں گی اور اس طرح یقینی بنایا جائے گا کہ یہ وہی نقل ہے جو ریٹرننگ اور پریزائیڈنگ افسران کو فراہم کی گئی تھی۔ فہرست میں دس کروڑ پچاس لاکھ ایسے ووٹروں کی معلومات شامل ہیں جو آئندہ عام انتخابات 2018ء میں ووٹ ڈالیں گے۔
سائبر سکیورٹی کے ماہرین اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے افسران کے مطابق پاکستان کے شہریوں کو ان کی تصاویر کے ساتھ شناخت کے حوالے سے دیکھا جائے تو دس کروڑ 50 لاکھ ووٹروں کا ڈیٹا پارٹی ارکان کے حوالے کرنا خاندانی تباہی کی ترکیب ہے۔ ووٹروں کے ڈیٹا سے متعلق سافٹ کاپی فائل کی با آسانی نقول بنائی جا سکتی ہیں اور انہیں ایک ہی بٹن دبا کر مختلف مقامات پر بھیجا جا سکتا ہے۔ اس سے قومی اثاثوں اور ووٹروں کے ڈیٹا بیس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا کی مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود سیاسی جماعتوں نے اپنی سہولت کے لیے انتہائی حساس ڈیٹا عام کرنے کے لیے دفعہ 79 کو قانون کا حصہ بنایا۔ باتصویر انتخابی فہرستوں کو عام کرنے سے نہ صرف پرائیویسی متاثر ہو گی بلکہ پاکستان کے جوہری سائنسدان، حساس تنصیبات پر کام کرنے والے حکام، پاک چین اقتصادی راہداری پر کام کرنے والے انجینئرز، بیرون ملک دولت مند پاکستانیوں سے متعلق انتہائی اہم معلومات، پاکستان دشمن قوتوں اور ایجنسیوں کے ہاتھ لگنے کا خدشہ پیدا ہو جائے گا۔ 
کسی بھی جمہوری ملک میں ڈالے گئے ووٹوں کی کم شرح نمائندہ حکومت کے بنیادی اصول کو کمزور کرتی ہے۔ دنیا بھر میں انتخابات کے موقع پر ہنگامہ آرائی کے خوف، ووٹ کی رجسٹریشن کے پیچیدہ عمل، امیدواروں کے بارے میں لاعلمی اور دیگر مختلف وجوہ کی بنا پر ووٹروں کی بڑی تعداد اپنے گھروں سے ووٹ دینے کے لئے نہیں نکل پاتی۔ پاکستان کی آبادی کے کچھ طبقوں‘ میں خاص طور پر خواتین میں ووٹ ڈالنے کی شرح مسلسل کم ہو رہی ہے۔ 
الیکشن کمیشن آف پاکستان 2018 ء کے انتخابات کے وقت اور انتخابی عمل میں شہریوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے مینڈیٹ کے مطابق آئندہ انتخابات کے لئے ووٹروں کی ترتیب، ووٹوں کے اندراج، خواتین کی بھرپور شرکت اور انتخابی عمل کی نگرانی جیسے امور پر اپنی توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔ 
الیکشن 2018ء پاکستان کا جمہوریت، معیشت اور کرپشن کے حوالے سے نیا رخ متعین کر دے گا۔ 2012ء کی جمشید کمیشن پورٹ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مرتب کروائی تھی۔ اس پر عمل درآمد نہ کروا کے کرپٹ سیاستدانوں کے لئے 2013ء کے انتخابات میں راستے کھول دیئے گئے جس سے پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔ اسی جمشید کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں چیف جسٹس نے بااثر افراد کی جانب سے مختلف قومی مالیاتی اداروں سے سیاسی بنیادوں پر لئے گئے 54 ارب روپے کے قرضے معاف کروانے سے متعلق گورنر سٹیٹ بینک کو رپورٹ کا خلاصہ تیار کرکے جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔ جن سیاسی شخصیات کا اس رپورٹ میں ذکر ہے وہ 2018ئکے انتخابات میں حصہ لینے سے گریز کریں گے کیونکہ کاغذات نامزدگی فارم میں اس کے کوائف درج کرنے ہوتے ہیں، غلط بیانی پر کسی وقت بھی سزا ہو سکتی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ 2017ء میں اختیارات تفویض کر دیئے گئے ہیں کہ کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپانے پر کسی وقت بھی گرفت ہو سکتی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں