"KDC" (space) message & send to 7575

رقوم کہاں گئیں؟

عمران خان نے تحریک انصاف کا سب سے پہلے انتخابی منشور پیش کر دیا ہے ،اب تک دوسری جماعتیں اور ان کے راہنما مستقبل کے سیاسی پروگرام کا اجمالی خاکہ ضرور پیش کرتے رہے مگر باقاعدہ منشور کا اعلان کسی نے نہیں کیاجس سے آنے والے چند مہینوں میں ملک کا سیاسی نقشہ واضح ہوتا جا رہا ہے اور نئے نئے ،دعوے،وعدے اور بیانیے سامنے آ رہے ہیں ۔ انتخابی مہم کو اصل رنگ اس وقت ملے گا جب نگران حکومت قائم ہو جائے گی اور الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کا اعلان کرے گا ،عمران خان نے لاہور کے تاریخی جلسے میں کسی بھی راہنما کے خلاف دشنام طرازی کرنے سے پرہیز کیا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ باقی تمام پارٹیاں بھی اس وقت دشنام طرازی کی سیاست چھوڑ کر عوام کے مسائل اجاگر کریں اور اپنے انتخابی ایجنڈے میں ان کی فلاح و بہبود پر توجہ دیتے ہوئے ان کا حل پیش کریں تاکہ ووٹروں کو درست فیصلے کرنے میں مدد مل سکے ۔ سیاسی پارٹیوں کو پرامن ،منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن بنانے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معاونت سے ایک ضابطہ اخلاق کے اندر رہنا ہوگا تاکہ افرا تفری کا ماحول پید انہ ہو سکے ، عام انتخابات کو انتشار کی بجائے اتحاد اور ملک و قوم کو مزید مضبوط بنانے کا ذریعہ بنانا قومی مفاد میں ہے ، اگر کار کردگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے تو نہ صرف عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد بحال ہوگا بلکہ جمہوریت نا قابل تسخیر ہو جائے گی اور 2018کے انتخابات کے نتیجہ میں جنوبی پنجاب صوبہ بننے کے مراحل سے گزر جائے گا ،اور فاٹا کا انضمام بھی خیبر پختونخوامیں ہونے سے اسی صوبہ کا حجم پنجاب کے مد مقابل ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے ،اور پاکستان کا جمہوری چہرہ سامنے آجائے گا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار آصف علی زرداری کو قرار دے کر ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے ، اور سچ تو یہ ہے کہ قائد ملت لیاقت علی خان ، ذوالفقار علی بھٹو، ضیا ء الحق ، مرتضیٰ بھٹو ، شاہنواز بھٹو اور اکبر بگٹی کی اموات کے بارے میں بھی نتائج قانونی نظام کے نقائص کی وجہ سے ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے ۔ اس کے بر عکس آصف علی زرداری اپنے ٹیلی ویژن انٹر ویو میں بے نظیر بھٹو کے انٹرویو میں ملکی اور غیر ملکی قوتوں کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے بعض اشارے کرتے ہوئے بیت اللہ مسعود کے رابطوں کے بارے میں مبہم انداز میںذکر کر کے آگے بڑھ گئے ،تاثر یہ ملا کہ وہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں کافی جانتے ہیں لیکن ذاتی مفادات کے تحت عوام سے شیئر نہیں کرنا چاہتے ، اور اسی تناظر میں سابق صدر مشرف کے الزامات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا کیونکہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی قومی لیڈر تھیں ، گزشتہ دس سال کے دوران بے نظیر بھٹوکا قتل ایک ایسا المیہ ہے جس کی شدت اور حدت وقت کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے ، مگر اس قتل کی پر اسراریت 2007کی حد پر قائم ہے ، عوام تو اب تک یہ راز بھی جاننے سے محروم ہیں کہ وہ کیا عوامل تھے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں حالات اور حقائق جاننے کے لئے تحقیقات کی درخواست کے ساتھ اقوام متحدہ کے دروازے پرکیو ں اور کس کے لئے آواز دی اور اخراجات کے لئے 20لاکھ ڈالر بھی دئے گئے لیکن جب تین رکنی اس کمیشن نے فیکٹ فائنڈنگ کا کام شروع کیا تو اس کے کام میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ، اور حکومتی اہل کاروں نے کسی پر اسرار شخصیت کے اشارے پر کمیشن کے آزادانہ طور پر کام کرنے کے لئے کوئی راہ ہموار نہیں کی ۔
اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ بے توقیری کے ساتھ حکومت پاکستان نے رد کر کے خود اپنی جگ ہنسائی کرائی ،اس سے اس وقت پاکستان کے اقوام متحدہ کے سفیر اور کئی دیگر چشم دید گواہ ہیں ، سابق سفیر منیر اکرم اور متعدد اقوام متحدہ سے منسلک پاکستانی اس صورت حال سے واقف ہیں ،اب وقت آ گیا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے الزامات کا سامنا کیا جائے اور سابق صدر آصف علی زرداری ، بے نظیر بھٹو کی امریکیوں سے ڈیل اور جنرل پرویز مشرف سے کسی حتمی معاہدے کے بغیر امریکہ و بر طانیہ کی حکومتوں کی مدد سے پاکستان واپسی کے مضمرات پر سے بھی پردہ اٹھایا جائے ، ابہام اور الزام کے عارضی فوائد کو نظر انداز کر کے قوم اور عوام کو وہ تلخ و شیریں حقائق سے آگاہ کریں ، جو ان کے اپنے چشم دید ہیں ، اسی طرح مرتضیٰ بھٹوکے قتل کے بارے میں پاکستان کے مایہ ناز اینکر کامران خان نے جامع رپورٹ تیار کی تھی ، اور نئے نئے انکشافات کرتے ہوئے مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بارے میں چند چہروں کی نقاب کشی کی تھی اس رپورٹ کو بھی غور و غوض کرنے کے لئے ایف آئی اے کو بھجوا دی جائے اور فاطمہ بھٹو کی کتاب میں بھی مرتضیٰ بھٹو کے قتل بارے انکشافات کئے گئے ہیں ،بے نظیر بھٹو پاکستان واپسی کے لئے ستمبر 2007میں امریکیوں سے مذاکرات کرتی رہیں، انہیں چند لمحوں کے لئے تاریخ اور قوم کے سامنے امانت دار اور غیر متنازعہ انسان کے طور پر بے نظیر بھٹوکے تاریخی سیاسی قتل کے ان تمام حقائق کو بیان کر ڈالنے کی ضرورت ہے جن کا وہ علم رکھتے ہیں ،یہ ایک اچھی روایت کا آغاز ہوگا ، اقتدار کی سیاست کے تقاضے درست مگر تاریخی شخصیات کے رفیق حیات اور ہم سفر ہونے کی ذمہ داریاں عوام کے سامنے سچائی بیان کرنے کی متقاضی ہیں اور سابق صدر پرویز مشرف چونکہ صدر مملکت کے فرائض سر انجام دے رہے تھے اور نگران حکومت انتہائی کمزور دہانے پر کھڑی تھی ، اور اس وقت ، با اختیار ، طاقت ور اور فعال صدر مشرف ہی تھے ،اگر انہیں حقائق کا پتہ ہے تو وہ آگے بڑھیں، اور الیکشن سے پہلے قاتل کے محرکات کو بے نقاب کریں ۔
خواجہ آصف اپنے اقامہ کی وجہ سے تا حیات نا اہل ہو گئے ہیں اور اسی اقامے کی وجہ سے نواز شریف نا اہل ہو کر عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ، اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو احسن اقبال بھی اقامے کی زد میں کسی بھی وقت آ سکتے ہیں اور ممکن ہے کہ اپنے کاغذات نامزدگی جب الیکشن 2018کے تحت انہوں نے جمع کرانے ہیں تو اسی کی بنیاد پر ان کی جماعت کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا ،کیونکہ نواز شریف کو سزا ملنے کی صورت میں ان کے تمام موسمی پرندے مختلف پارٹیوں میں یا پھر آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے ۔ چوہدری نثار علی خان نے آزاد امید وار کی حیثیت سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کا بر وقت اعلامیہ جاری کر دیا۔
نواز شریف ،خواجہ آصف اور بعد ازاں دیگر اقامہ ہولڈرز ملکی مفاد کے بر عکس پر اسرار سر گر میوں میں ملوث رہے ہیں، سیاست دانوں کو اپنے بچائو کے لئے کسی ایسے ملک میں جو پاکستان سے زیادہ دور بھی نہ ہو رہائش رکھنے کے لئے اقامہ کی ضرورت پڑتی ہے ، یہ تو تصویر کا وہ رخ ہے جو عام دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے ،اقامہ کے ذریعے وہ شخص اس ملک میں جہاں کا اسے اقامہ ملا ہے وہاں بینک میں نیا اکائونٹ کھول سکتا ہے ، جو لوگ بیرون ملک ملازمت کے لئے جاتے ہیں ،انہیں یہ سہولت میسر ہوتی ہے۔
جنہیں پاکستان میں کسی بھی قسم کا خطرہ ہوتا ہے ، وہ سیاستدان اپنی دولت وہ چاہے جائز طریقے سے کمائی ہو یا ناجائز اسے اس ملک جہاں انہیں اقامہ حاصل کر کے بینک اکائونٹ کھولے ہوتے ہیں ، منتقل کرتے رہتے ہیں ،نواز شریف ان کی فیملی یا خواجہ آصف اور دیگر ایسے ہی سیاسی اکابرین نے جو اقامے حاصل کر رکھے ہیں وہ یونہی شوقیہ نہیں ہیں ، نواز شریف قوم کو بے وقوف بنانے کے لئے بار بار یہ نعرے لگا رہے ہیں کہ ان کو اپنے بیٹے کی کمپنی سے معاوضہ نہ لینے کے سبب نا اہل کیا گیا۔ دولت چاہے کسی بھی ذریعے سے کمائی گئی ہو اس پر قانوناً ملک کا حق بنتا ہے ،اس پر قانون کے مطابق ٹیکس ادا کر کے اسے قانونی بنایا جا سکتا ہے چونکہ وہ کمائی غیر قانونی ہوتی ہے ،اسے ظاہر نہیں کیا جاتا اور اقامے کی آڑ میں اسے بیرون ملک چھپا دیا جاتا ہے ، پاکستان میں پہلی مرتبہ اس پر چھان بین ہو رہی ہے ،ابھی شاید اہل قانون اور عدالتیں اقامہ کی پشت پر اربوں ڈالر کو تلاش نہیں کر پائی ان تمام رقوم کا کوئی نام و نشان کہیں سے دستیاب ہونا ممکن نہیں ، کیونکہ سب غیر قانونی طریقوں سے ان کی اقامہ گاہوں میں منتقل ہوتی رہی ہیں ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ رقوم اقامہ والے اکائونٹس سے کہیں سوئٹزر لینڈ، امریکہ یا کسی ملک منتقل ہو چکی ہوں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں