"KDC" (space) message & send to 7575

فاٹا کا انضمام اور آئندہ الیکشن

آصف علی زرداری، عمران خان اور نواز شریف پاکستان کے ایسے سیاستدان ہیں، جنہیں عوامی حمایت حاصل ہے، لیکن ان کے حالیہ بیانات سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ انہیں عوامی ووٹوں پر یقین نہیں ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کو یہ باور کروا دیا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کا عمل دخل فیصلہ کن ہے۔ اس طرح کے بیانات کے بعد بہتر ہے کہ غیر جانبدارانہ شخصیت چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا کی سربراہی میں ملک کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر وسیع تر ڈائیلاگ کا انعقاد کیا جائے، جس میں ان تینوں جماعتوں کے سربراہوں کو مدعو کرکے ان کے تحفظات دور کر دیئے جائیں کہ سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت نہیں ہے۔
ان سیاسی جماعتوں کو خدشہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں آزاد امیدوار زیادہ آ گئے، تو ملک کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ تاریخ کا عمل بے رحمانہ ہوتا ہے اور تضادات کو اپنے منطقی انجام تک پہنچاتا ہے۔ میری اطلاع یہ ہے کہ پاکستان میں الیکشن 2018ء سے متعلق حساس معاملات کو مانیٹر کرنے کے لیے کچھ مخصوص این جی اوز کو متحرک کر دیا گیا ہے۔ ان این جی اوز کی تیار کردہ تجزیاتی رپورٹوں سے متعلقہ ممالک یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آئندہ کون سی جماعت حکومت بنا سکتی ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس جماعت کی مختلف امور پر کیا ممکنہ حکمت عملی ہو گی؟ مجھے یہ بھی پتا چلا ہے کہ یہ ملکی غیر سرکاری تنظیمیں مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں اور رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لئے انہوں نے بھاری معاوضہ پر بعض میڈیا ہاؤسز کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہیں، جن کے ذریعے مخصوص سیاسی جماعتوں کا امیج ،خصوص ایجنڈے کے مطابق پیش کیا جا رہا ہے۔
مغربی ممالک‘ جن میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور یورپی ممالک شامل ہیں‘ جبکہ عوامی جمہوریہ چین، جاپان، روس اور مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی پاکستان میں الیکشن 2018ء کے حوالے سے گہری دلچسپی لے رہے ہیں تاکہ وہ یہ اندازہ لگا سکیں کہ آئندہ پاکستان میں ان کے معاملات سے مطابقت رکھنے والی جماعت حکومت بنا سکتی ہے یا نہیں، تاکہ وہ خطے میں اپنے ممالک کی پالیسی کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی ترجیحات کو ممکنہ حکومت کی پالیسی لائن کے مطابق کسی حد تک بنانے کی کوشش کریں اور اندازہ ہو سکے کہ آئندہ کون سی جماعت حکومت سازی کرے گی۔ مغربی ممالک کے سفارت خانوں کے پولیٹیکل سیکشن تجزیاتی رپورٹس تیار کرتے ہیں۔ متعلقہ سفیر اس رپورٹ کو اپنے محکمہ خارجہ کو بھیجتے ہیں۔ اس تجزیاتی عمل میں سفارت کار غیر ملکی اور ملکی غیر سرکاری تنظیموں کی وساطت سے سیاسی رہنماؤں، میڈیا ہاؤسز کے با اثر اینکرز، پرنٹ میڈیا کے تجربہ کار، ایڈیٹرز، بیوروکریسی اور چیمبرز آف کامرس سے وابستہ اہم کاروباری شخصیات سے ملاقاتوں کی خصوصی نشستوں کا انتظام اسلام آباد کے پوش رہائشی گھروں میں کیا جاتا ہے، جن سے ان کو پاکستان کی سیاسی نبض شناسی میں معاونت ملتی رہتی ہے۔ ان ممالک نے پاکستان کے بااثر افراد، جن کی رائے ملکی سیاست میں گہرا اثر رکھتی ہے، سے روابط رکھے ہوئے ہیں۔
کچھ ممالک کی اپروچ محدود ہوتی ہے، لہٰذا ان کو کچھ ڈمی اخبارات نے اپنے سحر میں مبتلا کر رکھا ہے، وہ سینٹرل ایشیا‘ مشرق وسطیٰ اور بالخصوص چین کے سفارتی اہلکاروں کو تجزیاتی رپورٹ کی ترسیل کرتے ہیں‘ اور ڈمی اخبارات میں ان ممالک کے سفیر حضرات کی رنگین تصاویر شائع کرکے ان سے اشتہارات کی مد میں بھاری معاوضہ حاصل کرتے ہیں۔
فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے لیے دو سال پیشتر سرتاج عزیز رپورٹ پر عملدرآمد کرانے میں تاخیری حربے آزمائے گئے اور اس وقت نواز شریف صاحب اپنے ایسے اتحادیوں کے نرغے میں ہیں، جن کے تانے بانے کابل سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس لئے غیر سنجیدہ سیاست دانوں کے غیر سنجیدہ دعووں نے خیبر پختونخوا اور فاٹا میں وہی پالیسی اپنائی ہوئی ہے، جو میرے خیال میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے رائج کی تھی۔
وزیر اعظم نے فاٹا کے انضمام کے بارے میں یہی مژدہ سنایا کہ 31 مئی سے پہلے انضمام کا مسئلہ حل ہو جائے گا، لیکن صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے ابہام چھوڑ دیا، جس سے آئندہ الیکشن مہم میں خانہ جنگی کے آثار اس طرح سامنے آ سکتے ہیں‘ جیسے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات پر ہوا تھا۔ اس طرح مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ قارئین کو ایسی صورتحال کے اثرات کے بارے میں بتاتے ہوئے میں ان کو 1956ء کے دستور کی طرف لے جاتا ہوں۔ 1956ء کے دستور میں انتخابی نظام کے بارے میں ابہام پیدا کر دیا گیا تھا اور 1956ء کے دستور کو نافذ کرتے ہوئے ملک کے آئندہ انتخابی سسٹم کے بارے میں دستور میں کوئی آرٹیکل نہیں رکھا گیا تھا، لہٰذا مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں یہ بحث زور پکڑ گئی تھی کہ آئندہ انتخابات مخلوط ہوں گے یا جداگانہ طرز پر‘ اور اسی بحث میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دو سال ضائع کر دئیے، جس کے بعد اسکندر مرزا نے مارشل لا نافذ کر دیا۔ فاٹا کے انضمام کے بعد اس علاقے میں اگلے انتخابات خیبر پختونخوا اسمبلی کے لئے ہوں گے یا کیا راستہ اختیار کیا جائے گا اور کیسے؟ ان سوالات کا جلد جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔ حکمران جماعت اب اس خدشے میں مبتلا ہے کہ فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندیاں کرنا ہوں گی، جس پر وقت لگے گا اور اس کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں، حالانکہ حالات اس کے بر عکس ہیں۔ میرے خیال میں فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12 نشستوں پر انتخابات ہونے ہیں اور اس کے لئے تمام انتظامات الیکشن کمیشن کو کرنے ہیں۔ یہی انتظامات صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لئے بھی کام آئیں گے اور اسی کے لئے آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم کرتے ہوئے فاٹا کے لئے صوبائی اسمبلی کے ارکان کی نشستوں کا تعین کرنا ہو گا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آزادانہ طور پر صوبائی اسمبلی کی نشستوںکا کوٹہ مقرر کرنے کے لئے 25 نشستیں تفویض کرنا ہوں گی اور یہ 25 نشستیں مقرر کرنے کے لئے آئین میں فوری طور پر ترمیم کر کے اسے آئینی اور قانونی شکل دینا ہو گی۔ یہی انتظامات صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لئے کام آئیں گے، جس میں جن قبائلیوں نے اپنے اپنے حلقے میں آ کر ووٹ ڈالنا ہے، انہیں خیبر پختونخوا کی طرز پر ایک اضافی ووٹ صوبائی اسمبلی کے لئے بھی ڈالنا ہو گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان فاٹا میں صوبائی حلقوں کے لئے حلقہ بندیاں بغیر کسی تنازع کے پندرہ دنوں میں مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ فاٹا میں نئے حلقے بنائے جائیں گے اور وہاں صوبائی حلقوں پر کوئی تنازع ہی نہیں ہو گا۔ فاٹا میں جو انتشار پھیلا اس کی پشت پر کابل، دہلی اور واشنگٹن کی خفیہ ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔ سر دست نوجوانوں کو مطمئن کرنے کا کام صرف صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے یا اسی تناظر میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہونے کی صورت میں 25 نشستوں کے کوٹے میں سے جنوبی وزیرستان کو آٹھ صوبائی اسمبلی کی نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) ، عوامی نیشنل پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام اور اسی طرح دیگر جماعتوں کے پارٹی ٹکٹ کے خواہش مند نوجوانوں کو مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں پارلیمنٹ کو ہنگامی انداز میں آئین میں ترمیم کر کے فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کر لیا جائے تو بہتر ہے۔ آرمی چیف حکومت کی توجہ بار بار اس معاملے پر مرکوز کر رہے ہیں۔ فاٹا انضمام میں تاخیر سے صوبہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کسی حد تک پنجاب متاثر ہو گا کیونکہ ہنگامہ آرائی کو روکنے کیلئے فاٹا اصلاحات پر تیزی سے آئینی قانونی کام کرنا ہو گے۔ فاٹا کے ادغام سے مقبوضہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی راہ خود بخود نکل آئے گی۔
٭...٭...٭

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں