"KDC" (space) message & send to 7575

پنجاب کا ووٹر اور نواز شریف

میرے خیال میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پریشانی، مایوسی اور اپنے مستقبل کے راستے بند ہو جانے پر غم کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ ملکی سلامتی کو بھی دائو پر لگا دیا۔ انہوں نے کسی تھنک ٹینک کی مشاورت سے انگریزی اخبار کے رپورٹر کو مخصوص سوچ کے تحت ملتان میں مدعو کیا۔ شاید سرل المیڈا کی ملتان آمد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا۔
سابق وزیر اعظم کی جانب سے ممبئی حملوں کے بارے میں پاکستان کے ریاستی اور قومی موقف سے ہٹ کر بیان دینے کا ملک کی عسکری قیادت‘ اپوزیشن پارٹیوں، میڈیا اور عوامی حلقوں نے حب الوطنی کے تقاضوں کے تحت سنجیدگی سے نوٹس لیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں چیئرمین جوائنٹ چیف آف آرمی سٹاف کمیٹی کے علاوہ تینوں مسلح افواج کے سربراہ‘ وزیر اعظم اور دیگر اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ اجلاس میں 12 مئی کے ڈان اخبار میں شائع ہونے والے نواز شریف کے سیاسی بیان‘ جو ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کے ساتھ انٹرویو پر مبنی تھا‘ کی شدید مذمت کی گئی اور اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں نواز شریف کے انٹرویو کو غلط اور گمراہ کن قرار دیا گیا۔ ایسے موقع پر کچھ اور اقدام بھی کئے جا سکتے تھے۔ غالباً کچھ مصلحتوں کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا۔
اسی طرح کے انٹرویو الطاف حسین نے بھی دئیے تھے جس کے بعد ان کی پارٹی کے تمام راہنمائوں نے ان سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا تھا‘ ان پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ قومی سلامتی کمیٹی نے داخلی و خارجی معاملات اور قومی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے قوم کے جذبات کی ترجمانی کی‘ لیکن اس کے بر عکس وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پریس کانفرنس میں موقف اختیار کیا کہ ان کے وزیر اعظم آج بھی نواز شریف ہیں اور ان کی پارٹی آج بھی ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ بین السطور میں یہ کہا جا رہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اور پاکستان مخالف انٹرویو سے قطع نظر وزیر اعظم کی نظر میں نواز شریف اب بھی حکومتی سر براہ ہیں، یعنی ملک و قوم کے موقف اور عدالتی فیصلوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ میری ذاتی سوچ یہ ہے کہ ان کی پریس کانفرنس کا بیانیہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے انحراف ہے جس کے تحت 22 فروی کو نواز شریف کو پارٹی کی سربراہی کے لئے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کی جانب سے سینیٹ کے لئے امیدواروں کے ٹکٹ بھی غیر قانونی قرار دے دیئے گئے تھے جو آج تک سینیٹ میں آزاد رکنیت کے حامل ہیں۔
نواز شریف کی طاقتور، فعال میڈیا ٹیم اور ان کے حاشیہ بردار جو بھی تاویلیں بیان کریں سچ یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم کا انٹرویو قومی سانحہ سے کم نہیں ہے اور اب قوی اندیشہ ہے کہ اقوام متحدہ پاکستان کو عالمی کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لئے پر تول رہا ہوگا، اور بھارتی وزارت خارجہ اقوام متحدہ کے ہنگامی اجلاس کے لئے بنیادی طور پر تیاری کر رہی ہو گی۔ نواز شریف کے بھارت نواز انٹرویو سے اقوام متحدہ کو راہ متعین کرنے میں آسانی پیدا ہو جائے گی اور چین بھی غالباً اب ویٹو کے استعمال سے گریز کرے گا کیونکہ نواز شریف نے ڈان لیکس کی بھی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ بہرحال یہ میری سوچ ہے۔ حقیقت میں کیا ہوتا ہے۔ جلد پتا چل جائے گا۔
نواز شریف کے ممبئی حملوں کے بارے میں وطن دشمن انٹرویو سے قوم کا اعتماد مجروح ہوا۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک ایسا سانحہ ہے جس کے نہ صرف بین الاقوامی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ پاکستان کا امیج بھی خراب ہو گا۔ 
میرا تجزیہ یہ ہے کہ نواز شریف وفاق پر یقین نہیں رکھتے‘ ان کی سوچ 1980ء سے پنجاب کو علیحدہ مملکت بنانے کی تھی اور ان کی ہمیشہ کوشش یہ رہی کہ وفاق کو کمزور سے کمزور تر کر دیا جائے۔ انہوں نے ماضی میں ایک تقریب‘ جو سارک کی میڈیا تنظیم نے سجائی تھی‘ میں موجود ہندوئوں کو کہا تھا کہ ہم ایک جیسا لباس زیب تن کرتے ہیں، شادی کی تقریب بھی ایک جیسی ہوتی ہیں، خوراک بھی ایک جیسی کھاتے ہیں، پھر یہ درمیان میں لکیر کہاں سے آ گئی؟ انہوں نے دو قومی نظریے کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا: جو تمہارا رب ہے وہی ہمارا رب ہے بس تم ایشور اور بھگوان کہتے ہو۔ در اصل نواز شریف مطالعے اور غور و خوض کے عادی نہیں۔ اسی لئے پرویز رشید اور چند مشیروں کے نظریات کے زیر اثر رہتے ہیں۔ جاتی امرا کے واقفان حال کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار سے محرومی کا انتقام ان قومی اداروں سے لے رہے ہیں جنہیں وہ اقتدار سے محرومی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نواز شریف مشیروں اور خوشامدیوں کے زیر اثر ہیں۔ ان کے مشیران تقسیم ہند کو محض لکیر قرار دیتے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ نیوز لیکس کا مرکزی کردار ہی اب اس انٹرویو کا سکرپٹ رائٹر ہے۔ نیوز لیکس کے پس پردہ مشیران نے ہی نواز شریف کو گھیرے میں رکھا ہے۔
نواز شریف کے اعترافی انٹرویو نے پاکستان کو مجرم بنا کر عالمی دہشت گردی کی قطار میں لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی اور خاص طور پر امریکی رویے کے باعث جس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے وہ قومی اتحاد کا تقاضا کرتے ہیں لیکن اس اعترافی انٹرویو نے قومی اتحاد کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت اب دبائو کا شکار ہے۔ وہ جانتی ہے کہ نواز شریف نے جو کچھ کہا‘ اس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی پارٹی بد نظمی کا شکار ہو چکی ہے۔ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے مسئلہ پر بھارت سے ایک ہزار سال جنگ لڑنے کا اعلان کر کے پنجاب کے عوام کی بھارت دشمنی کی بنا پر 1970ء کے الیکشن میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ اب نواز شریف نے بھارت نواز پالیسی اپناتے ہوئے اپنی پارٹی کو دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے اور نواز شریف کا بھارتی جھکائو الیکشن میں منفی نتائج کا موجب بنے گا۔ حالات خطرناک راہ پر چل نکلے ہیں کیونکہ نواز شریف کے بیان کے صرف 24 گھنٹے کے اندر ملک کی اعلیٰ اور سول فوجی قیادت نے ایک منفرد رد عمل میں نواز شریف کے بیان کو گمراہ کن قرار دے کر مکمل طور پر مسترد کر دیا‘ کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کو صادق اور امین نہ ہونے پر جھوٹا قرار دیتے ہوئے تا حیات نا اہل قرار دیا تھا، اور ان کے تمام منصوبوں کو بھی 22 فروری کے فیصلے کی روشنی میں مسترد کر دیا تھا۔ 
نواز شریف نے قومی سلامتی کونسل کے رد عمل کو افسوس ناک قرار دے کر رد کر دیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی منفرد سیاسی صورت حال جولائی 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان کے دور صدارت میں پیش آئی تھی جب وفاق اور صوبہ پنجاب میں محاذ آرائی شروع ہو کر عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی بار بار بحال اور کالعدم ہوتی رہی۔ تب گورنر پنجاب میاں اظہر نے صدارتی فرمان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور وفاق کی حکمرانی کو بچانے کے لئے جنرل وحید کاکڑ آگے بڑھے اور دونوں اشخاص سے استعفیٰ طلب کر لیا تھا۔ اب نواز شریف نے اپنی حکومت کے اعلامیہ کو مسترد کر کے ملک کو ایک بار پھر مشکل مرحلے میں داخل کر دیا ہے اور احتساب عدالت میں فیصلہ 29 مئی کو متوقع ہے کیونکہ ان کی قسمت کا فیصلہ اسی حکومت میں کرنا ملکی مفاد میں ہے۔ نگران حکومت کے دوران ان کے بارے میں فیصلہ آیا تو ان کے مضرات سے نواز شریف فائدہ اٹھائیں گے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں