"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری‘ تاخیری حربے اور کاغذاتِ نامزدگی

قومی انتخابات 25جولائی کو کرانے کا شیڈول جاری ہو چکا ہے، لیکن سیاسی حلقوں میں تاحال غیر یقینی کی صورتحال ہے ۔ نگران وزیر اعظم کے حلف اٹھانے کے بعد عوامی سطح پر جہاں عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور شفافیت کے حوالہ سے ابہام بڑھا وہاں آئینی نوعیت کی اہم رکاوٹیں بھی سامنے آتی محسوس ہو رہی ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ معاملا ت مخالف سمت میں جا رہے ہیں ۔اسلام آباد ہائی کورٹ ، سندھ ہائی کورٹ ،لاہور ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ میں حلقہ بندیوں کو کا لعدم قرار دیا جا رہا ہے جس کے بعد نئی حلقہ بندیوں اور اس کے بعد کے آئینی تقاضوں کے لئے درکار وقت کو انتخابی شیڈول میں شامل کرنے کے حوالے سے بعض مشکلات پر قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ معاملہ ابھی رکا نہیں ،حلقہ بندیوں پر دائر اعتراضات کے کئی مزید مقدمات کے فیصلے بھی جلد سامنے آنے کی توقعات ظاہر کی جا رہی ہیں ،اور حلقہ بندیوں با لخصوص پنجاب کے حوالے سے اہم انکشاف سامنے آ یا ہے کہ صوبے کی ایک اہم شخصیت کی ایما ء پر الیکشن کمیشن پنجاب نے حلقہ بندیوں میں رولز کی خلاف ورزی کی اور شنید ہے کہ الیکشن کمیشن اور حساس ادارے اس کی انکوائری کر رہے ہیں ۔ اگر یہ ثابت ہو گیا تو پنجاب کی حلقہ بندیاں متاثر ہوں گی ۔
یکم جون کو لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے پارلیمنٹ کے تیار کردہ کاغذات نامزدگی کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس میں آرٹیکل 62 اور 63کے تقاضے شامل کرنے اورپرانے کاغذات نامزدگی بحال کرنے کا حکم دیا‘ جس کے بعد الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسران کو دو جون کو کاغذات نامزدگی جاری کرنے اور وصول کرنے سے روک دیا تھا ۔ الیکشن کمیشن کے حکام لاہور ہوئی کورٹ کے فیصلے کو مئی 2017ء میں پارلیمنٹ کی سب کمیٹی میں پیش کئے گئے الیکشن کمیشن پاکستان کے اس موقف کی توثیق کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں جس میں واضح کیا گیاتھا کہ کاغذات نامزدگی فارم کے معاملات الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بنائے ہوئے قواعد اور کمیشن کے دائرہ اختیار کا حصہ ہیںکیونکہ مارچ 2013ء میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے تیار کردہ کاغذاتِ نامزدگی کو آئین کے مطابق قرار دیتے ہوئے نشان دہی کی تھی کہ اپنی نمائندگی کرنے والے امید وار کے بارے میں بعض تفصیلات کا جاننا رائے دہندگان کا حق ہے ۔
الیکشن کمیشن کو جس صورتحال کا سامنا ہے اس میں محدود وقت کے دوران عدلیہ کے احکامات کی بجا آوری کے ساتھ شفاف انتخابات کے تمام تقاضے پورے کرنا بلا شبہ ایک امتحان ہے۔ جہاں تک قومی انتخابات کے التو اء کے جواز کی بات ہے ، بلوچستان اسمبلی نے اپنی 30مئی 2018ء کی قرار داد میں ٹھوس جواز پیش کیا ۔ اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ جولائی میں بلوچستان کے اکثر علاقوں میں شدید گرمی پڑتی ہے جس کی وجہ سے ووٹرز کا انتخابی عمل میں حصہ لینا تقریبا نا ممکن ہو جاتا ہے ، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پولنگ سٹاف کا پولنگ سٹیشن پر بیٹھنا محال ہو جاتا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی اس قرار داد میں صرف بلوچستان کا ذکر کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اکثر میدانی علاقوں بشمول پنجاب ،سندھ اور خیبر پختون خوا، میں جولائی میں شدید گرمی پڑتی ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ یہ سیلاب اور بارشوں کا بھی موسم ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی ایسے موسم میں انتخابات نہیں ہوئے۔یہاں اکتوبر سے مارچ تک کے مہینے موزوں قرار دیئے جاتے ہیں ۔دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں عام انتخابات کے لئے کوئی ایک ماہ اور اس کی تاریخ ہوتی ہے۔ پاکستان کو بھی اسی نظام پر آنا ہوگا ۔
خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ کا یہ مطالبہ بھی قابل توجہ ہے کہ خیبر پختون خوا میں ضم ہونے والے فاٹا کے علاقوں میں بھی صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ کروائے جائیں ۔ صوبے میں عمو ماً اتحادی حکومتیں بنتی ہیں، فاٹا کے 21حلقوں میں ایک سال بعد پولنگ سے صوبے میں غیر یقینی صورتحال پید اہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مصطفیٰ کمال اور متحدہ قومی موومنٹ حلقہ بندیوں اور مردم شماری کے نتائج کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر چکے ہیں ۔جو سیاسی جماعتیں انتخابات کے التو اء کی مخالفت کر رہی ہیں وہ در اصل اس صورتحال کی ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے ہی مردم شماری میں تاخیر کی ۔ جولائی 2014ء میںقائم مقام چیف الیکشن کمشنر نے وزیر اعظم نواز شریف کو باور کرایا تھا کہ ملک میں مردم شماری فوری طور پر کرائی جائے‘ قواعد و ضوابط کی روشنی میں مردم شماری اگست 2015ئتک مکمل ہو جائے گی ‘ نئی مردم شماری کے حتمی نوٹی فکیشن کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان 2016ء کے اوائل تک نئی حلقہ بندیوں کا عمل مکمل کرلے گا اور2017ئتک الیکشن کمیشن تمام دشواریوں کو عبور کر کے الیکشن کے لئے تیار ہو گا ۔وزیر اعظم نواز شریف نے الیکشن کمیشن کی سفارشات کو اصولی طور پر منظور کر کے معاملہ اسحاق ڈار کو ریفر کر دیا۔اسحاق ڈار انتخابی اصلاحات کمیٹی ،محکمہ مردم شماری اور دیگر 60کمپنیوں کے چیئرمین تھے۔ انہوں نے ان احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو رازدانہ طور پر بتایا کہ اگر الیکشن کمیشن تمام دشواریوں کو عبور کرکے الیکشن کرانے کے لئے تیار ہو گیا تو اپوزیشن جماعتیں‘ با لخصوص عمران خان جو قبل از انتخابات کی مہم چلا رہے ہیں، کو تقویت مل جائے گی ، لہٰذا ان کے مطالبے کہ راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے مردم شماری کرانے کے معاملا ت کو التو امیں ڈالا جائے، اس طرح جب بھی قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ زور پکڑے گا تو مردم شماری دیوار بن جائے گی کیونکہ 2002ء کی حلقہ بندیوں پر انتخابات غیر آئینی ہوں گے اور سپریم کورٹ ان انتخابات کو کا لعدم قرار دے دے گی۔چنانچہ حکومت نے بد نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مردم شماری کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور سپریم کورٹ آف پاکستان کو حکومت کی بد نیتی کا احساس ہوا تو اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے از خود نوٹس لیتے ہوئے مردم شماری 17مارچ 2017ء سے شروع کرانے کا حکم صادر کر دیا جس کے نتیجہ میں شماریات ڈویژن نے نیم دلی سے مردم شماری کا آغاز کیا ۔
الیکشن کمیشن مردم شماری میں تاخیر پر وزیر اعظم کو کئی مرتبہ خبر دار کر چکاتھا کہ اس تاخیر کی وجہ سے حلقہ بندیاں مکمل نہیں ہو سکیں گی یا مکمل ہوئیں تو متنازعہ بن جائیں گی۔ اسی وجہ سے ان کے خلاف کیس عدالتوںمیں ہیں ۔انہی سیاسی جماعتوں نے انتخابی اصلاحات کے بِل کے مسودے کو حتمی شکل دینے میں غیر ضروری طور پر 42دنوں کی تاخیر کی تھی ،اس کی وجہ سے بھی حلقہ بندیوں میں تاخیر ہو ئی۔ انہی سیاسی جماعتوں نے فاٹا اصلاحات کی منظوری میں تاخیر کی اور خیبر پختون خوا میں ضم ہونے والے فاٹا کے علاقوں میں ایک سال بعد صوبائی حلقوں کی پولنگ کا فیصلہ از خود انتخابات کے التو ا کا قانونی جواز پیداکرنا ہے ۔ کوئی ایسا لیڈر نہیں جو ملک کے ہر حصے میں یکساں طور پر مقبول ہو ،اس لئے علاقائی قیادتیںابھر رہی ہیں۔ اس الیکشن کے نتیجے میں بھی کسی قومی قیادت کے سامنے آنے کا یقین نہیں، لیکن قومی قیادت اس ملک کو ایک سمت میں لے جانے کے لئے ضروری ہے۔ نگران وزیر اعظم کے ہاتھ میں فیڈریشن کی کامیابی کی چابی ہے ،دیکھنا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان اپنے عہدے کو کس طرح بروئے کار لاتے ہیں۔ 
چیف جسٹس آف پاکستان نے گزشتہ اتوار کو سپیکر قومی اسمبلی کی آئینی درخواست پرجو احکامات جاری کئے ان پر ہر حالت میں عمل درآمد کیا جانا چاہیے؛ تاہم حکمرانوں نے جس طرح کاغذات نامزدگی تبدیل کرنے کی کوشش کی اس سے قوم میں مایوسی پھیل گئی ہے ۔اب موجودہ فارم پر قومی مجرم ، غدار وطن ، جرائم پیشہ اور غیر ملکی شہریت والے افراد با آسانی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں اور ووٹرز کو معلوم ہی نہیں ہو سکے گا کہ وہ جس کو ووٹ دینے جا رہے ہیںوہ کیا آدمی ہے۔ صادق اور امین ہے بھی یا نہیں۔ لہٰذا الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت اپنے اختیارات کو بروئے کار لائے ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں