"KDC" (space) message & send to 7575

پاکستان مسلم لیگ جیپ گروپ

امریکہ میں ٹرمپ جیسے شعبدہ باز کے صدر منتخب ہو جانے کے بعد جمہوریت کے بارے میں شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا ہے۔ چرچل سے منسوب اس مقولے کو ذہن میں رکھئے کہ جمہوریت بد ترین نظام حکومت ہے لیکن کوئی اور نظام اس سے بہترین بھی نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام جمہوری سفر میں جس منزل پر ہیں‘ اسے ہم جمہوریت کے حصول کے لئے انتخابات کا فیصلہ کن معرکہ کہہ سکتے ہیں ۔ ان انتخابات کی نوعیت ایک جنگ کی سی ہے اور ہم میدان جنگ میں بھٹک رہے ہیں کہ جہاں پیش قدمی اور مراجعت کے سمجھ میں نہ آنے والے نعروں کے شور و غل میں نا سمجھ قوتیں برسر پیکار ہیں۔ یہ میتھیو آرنلڈ کی ایک نظم کے تین مصرے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے حالیہ انتخابات کے بارے میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ رات کی تاریکی میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ انتخابات جوں جوں نزدیک آ رہے ہیں انتخابی مہم میں بے تحاشہ اخراجات کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جا رہا ہے اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن کے وضع کردہ قوانین اور ضوابط کسی کو دکھائی نہیں دے رہے۔ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو اخراجات کے حوالے سے جامع قانونی شقوں پر مشتمل ضابطہ اخلاق صوبوں کے چیف سیکرٹری صاحبان کو بھجوایا لیکن کمزور وزرائے اعلیٰ کے لیے اس پر عمل در آمد کرانا نا ممکن ہے۔ نواز شریف کے مراعات یافتہ بیوروکریٹس ان احکامات کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اپر کلاس کے مراعات یافتہ طبقے کو ہی اقتدار میں لایا جاتا ہے۔ ہماری سیاست کا محور سیاسی جماعتوں کا منشور نہیں بلکہ شخصیت پرستی ہے۔ ہماری سیاست آج بھی نصف صدی قبل کی نفرت انگیز نعرے باز سیاست کا ہی پرتو ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی نہیں تو اور کیا ہے کہ اب جبکہ انتخابات میں تین ہفتے سے بھی کم وقت باقی ہے‘ سوائے ایک دو جماعتوں کے کسی سیاسی جماعت نے اپنا منشور پیش کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ منشور کسی بھی جماعت کی سوچ‘ عزائم اور اہداف کی دستاویز ہوتا ہے جس سے عوام کو کسی جماعت کے بارے میں فیصلہ کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ مغربی ممالک میں اس لئے بھی منشور پر زیادہ سوچ بچار کی جاتی ہے کہ کامیابی کی صورت میں اس پر عمل در آمد نہ کرنے کی صورت میں ہر وقت عوامی احتساب کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ اسی پس منظر میں کاغذات نامزدگی کے حلفیہ فارم میں عوامی مفاد کے کالم کا اضافہ کیا گیا تھا کہ امیدوار‘ جو سابقہ نظام میں ارکان اسمبلی منتخب ہوتے رہے‘ اس کا تفصیلی نقشہ پیش کر سکیں۔
نواز شریف اپنے بیانیہ میں 1971ء جیسا کھیل کھیلے جانے کا تذکرہ بلا جواز کر رہے ہیں۔ 1970ء میں شیخ مجیب الرحمان نے 6 نکات پر انتخابی مہم کا آغاز کیا تھا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے پر مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا اور مشرقی پاکستان جنرل یحییٰ خان کی غلط حکمت عملی اور مغربی پاکستان کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی ہوسِ اقتدار کی وجہ سے علیحدہ ہو گیا۔ 2018ء کے انتخابات کا 1970ء کے انتخابات سے موازنہ نہیں کیا جانا چاہئے اور مسلم لیگ ن کو 11 مئی 2013ء کے انتخابات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے‘ جو پاکستان کی تاریخ کے دھاندلی زدہ الیکشن تھے اور عمران خان اور آصف علی زرداری نے تو ان نتائج کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا۔ عمران خان مسلسل چار سال تک اس دھاندلی کے خلاف جدوجہد کرتے رہے اور اپنی نا عاقبت اندیش ٹیم کی وجہ سے اپنا مقدمہ سپریم کورٹ میں ہار گئے‘ جبکہ آصف علی زرداری اور دیگر سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات کو نظریہ ضرورت کے تحت تسلیم کر کے نواز حکومت کو 31 مئی 2018ء تک حکومت کرنے کے مواقع فراہم کر دیئے۔ نواز شریف اپنے آتشیں بیانات سے گریز کریں، اس وقت پاکستان میں کوئی خطرناک کھیل نہیں کھیلا جا رہا ہے‘ ووٹرز میں شعور اجاگر ہو چکا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور میڈیا کی موجودگی میں دھاندلی کرانا ممکن نہیں ہو گا۔ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ موجودہ ملکی اور عالمی حالات میں پاکستان میں شفاف انتخابات ناگزیر ہیں اور پُرامن انتخابات کی ضمانت چیف آف آرمی سٹاف بھی دے چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے بڑے قد آور اور سیاسی پس منظر رکھنے والے امیدوار میدان میں اتارے ہیں؛ لہٰذا الیکشن نتائج کا انتظار کریں اور پری پول دھاندلی کا تصور اس لئے پیش نہیں کیا جا سکتا کہ پنجاب کی نگران حکومت تو انہی کا تسلسل ہے اور وفاق میں بھی کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جو نواز شریف کی حریف ہو۔ میڈیا میں ان کے حامیوں کی تعداد ڈسٹرکٹ کی سطح تک پھیلی ہوئی ہے اور انتظامیہ ان کے مفادات کی دیکھ بھال کے لئے فوج در فوج موجود ہے ۔ انتخابی حلقوں میں بھی ان کی ٹاسک فورس موجود ہے‘ جو ان کے اشارے پر انتخابی عمل کا شیرازہ بکھیر سکتی ہے۔ نواز شریف اس حقیقت سے با خبر ہیں کہ ان کی کامیابی میں ہمسایہ ممالک کا بڑا عمل دخل رہا اور لاہور میں ان کی مثالی کامیابی میں احد چیمہ کا ہاتھ رہا، اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے انکوائری کمیشن نے الیکشن کمیشن کو چارج شیٹ کرتے ہوئے نرم فیصلہ قومی مفاد میں ہی دیا تھا۔
بد قسمتی سے وہ تمام جماعتیں جو تبدیلی ‘ سماجی انصاف اور برابری کی باتیں کرتی ہیں‘ با اثر خاندانوں کا ہاتھ تھام کر سماجی تبدیلی کے امکانات کو خاک میں ملا دینے کے عمل میں شریک ہیں۔ یہاں اس تضاد کو بھی مد نظر رکھیں کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے طفیل معاشرے میں ایک خاص نوعیت کی بیداری پیدا ہوتی ہے اور اس کا ایک اظہار ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کئی جگہوں پر عام شہری امیدواروں کا گھیرائو کرتے دکھائے جا رہے ہیں‘ لیکن پارٹی‘ خاندان‘ دولت کا زور ٹوٹا نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کئی بدنام سیاست دانوں کی قیمت کم نہیں بلکہ زیادہ ہوئی ہے۔ عمران خان نے بھی ان کا ہی سہارا لیا ہے اور ٹکٹوں کی خرید و فروخت کا ذکر اب چینلز پر بھی آ رہا ہے۔ تحریک انصاف کی معزز خواتین کو ان کے حق سے محروم کیا گیا ہے تو میرے خیال میں اس معاملے میں محترمہ بشریٰ وٹو کو مداخلت کر کے ان خواتین کے جائز مطالبات کی حمایت کرنا چاہئے تھی۔ اب یہ خواب ہی نظر آ رہا ہے کہ جمہوریت میں بھی انتخابات کیا کچھ تبدیل کر سکتے ہیں‘ اور یہ تشویش بھی موجود ہے کہ کیا انتخابات خیریت کے ساتھ منعقد ہو جائیں گے‘ اور کیا ان کے صاف اور شفاف ہونے پر اعتبار کیا جائے گا؟ عام انتخابات کا ہمارا تجربہ کچھ بہت خوش کن نہیں ہے‘ مذاق ہو رہا ہے کہ یہ دن اور آنے والے دن بے یقینی میں لپٹے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں‘ اور اس کی تمام ذمہ داری نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن پر عائد ہو گی ۔ میں ملک میں انتخابات کے بعد تیونس جیسی تحریک کا آغاز دیکھ رہا ہوں۔ فی الحال جیپ کے نشان والے امیدواروں کی تعداد 40 سے 45 کے لگ بھگ ہے اور چوہدری نثار علی خان کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی عنقریب ظاہر ہو جائے گی۔ نواز شریف اور مریم نواز نے آرمی کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے‘ عمران خان کی پارٹی میں اندرونی طور پر شدید اختلافات ہیں اور ورکرز خواتین کو نظر انداز کر کے فیشن ایبل خواتین کو قومی اسمبلی کی رکنیت کا اعزاز دینے پر اب عام خواتین گھروں سے نکلنے سے گریز کریں گی۔ دراصل ورکر خواتین نے ہی عام خواتین کو پولنگ سٹیشن تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ آزاد امیدواروں کی تعداد ملک بھر میں ایک سو دس کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ آئندہ اقتدار میں آنے کے لئے آزاد امیدواروں کا اہم کردار ہو گا‘ جبکہ چوہدری نثار علی خان پاکستان مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کی پوزیشن میں ہیں اور ان کے ہمراہ سابقہ حکمران جماعت کے کامیاب امیدوار بھی کھڑے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان پارٹی کے سربراہ ہوں گے اور شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ تازہ صورتحال یہ ہے کہ عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو دس سال قید اور بھاری جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ مریم صفدر اور ان کے شوہر محمد صفدر کو بھی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس کے آنے والے دنوں کی سیاست اور الیکشن پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ یہ جاننے کے لئے چند روز انتظار کرنا پڑے گا!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں