"KDC" (space) message & send to 7575

اقتدار کے ساحل پر …(1)

میرا تجزیہ اور سوچ یہ ہے کہ احتسابی عمل کا کچھ اثر انتخابی عمل اور انتخابی نتائج پر بھی ہو گا اور انتخاب کے بعد بھی سیاسی منظر نامے کی تشکیل میں اہم عناصر برسر پیکار رہیں گے۔ منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی اس کی وجہ سے کمزور رہیں گے اور ان کے لئے اپنی سیاسی وفا داریاں برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ انتخابات کے بعد بھی احتسابی عمل اپنا رنگ دکھائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست دانوں کو ان کی اس دولت نے کمزور کر دیا ہے جس کو انہوں نے حاصل تو کر لیا‘ لیکن جس کے حصول کے ذرائع بتانے سے وہ قاصر ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کرپٹ سیاست دان اس قدر کمزور دکھائی دے رہے ہیں ‘ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ان کی یہ کمزوری ایک ایسے مرحلے پر سامنے آئی ہے جب پاکستان سمیت پوری دنیا میں کوئی سیاسی تحریک موجود نہیں اور پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا اپنے کارکنوں سے رشتہ بھی کمزور ہے۔ یہ رشتہ کمزور ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ برسر اقتدار آنے کے بعد لیڈر کبھی عوام کے ساتھ رابطے میں نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب وہ ووٹروں سے ووٹ مانگنے جاتے ہیں تو وہ بے دھڑک ان سے سوال کرتے ہیں کہ اقتدار کے پانچ سال وہ کہاں رہے؟ انہوں نے کیوں ان کے مسائل حل نہیں کئے اور کیوں مڑ کر ان کی خبر نہیں لی۔ اسی وجہ سے بہت سے امیدوار ووٹروں کے پاس جاتے ہوئے ڈر رہے ہیں۔ یہ اس شعور کا نتیجہ ہے جو پچھلے کچھ عرصے میں میڈیا نے عوام کو دیا‘ اور جس کی وجہ سے انہیں اچھے اور برے‘ سچے اور جھوٹے کی تمیز ہو چکی ہے۔ وہ پوری طرح جان چکے ہیں کہ کون سے رہنما عوام دوست ہیں اور کون سے محض نعروں اور زبانی دعووں اور وعدوں سے انہیں ٹرخانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
یہ بھی واضح ہے کہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران میں پاکستان میں نئی صف بندیاں ہوئیں اور طاقتور عوامی سیاسی جماعتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ اس انتخابی عمل کے دوران جو سیاسی ماحول بن گیا ہے‘ اور جس کی بنیاد پر انتخابی نتائج آ سکتے ہیں‘ ان سے ملک میں سیاسی استحکام نظر نہیں آ رہا۔ اس احتسابی عمل سے سیاسی تصادم کی فضا بن رہی ہے‘ جو انتخابات سے پہلے یا بعد میں شدت بھی اختیار کر سکتی ہے‘ کیونکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ احتساب کے اس عمل میں زرداری اور ان کے حواریوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لا کر اس عمل کو سیاسی طور پر متنازع بنا دیا گیا ہے۔ دوسری جانب کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کے بیانیہ سے تصادم کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ ان کے اس بیانیے سے ووٹرز کے مفادات کا کوئی تعلق نہیں مگر لگتا ہے کہ اس بیانیے کی آ ڑ میں نواز شریف اپنی کرپشن کے مقدمات سے ریلیف چاہ رہے ہیں۔ نواز شریف کی ملکی بیوروکریسی میں گہری جڑیں ہیں۔ صوبائی یا وفاقی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو وہ بھی اس سیاسی تصادم کی بنتی ہوئی فضاء سے متاثر ہو گی ۔ مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں سیاسی استحکام کے لئے خطرات نظر آ رہے ہیں۔ بہرحال ان لوگوں کا یہ شکوہ دور کر دیا گیا ہے‘ جس کا خیال ہے کہ زرداری اور ان کے حواریوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جا رہا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ ایف آئی اے نے اربوں روپے کی مبینہ غیر قانونی ٹرانزیکشن کے معاملے پر سابق صدر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو بیان ریکارڈ کرانے کے لئے طلب کر لیا ہے۔ دونوں کو طلبی کے نوٹس جاری کر دیئے گئے۔ آصف زرداری اور فریال تالپور کے اکاؤنٹس میں بھاری رقوم کی ٹرانزیکشن کیسے ہوئی، اس پر ایف آئی اے حکام دونوں سے تفتیش کریں گے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے حکم پر زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت 7 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے گئے تھے۔ ذرائع کے مطابق آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت 7 افراد کے نام پہلے سٹاپ لسٹ میں ڈالے گئے تھے۔ 
میرا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان میں منافقین پر مشتمل ایک مخصوص گروہ چند روایتی سیاست دانوں پر مشتمل ہے‘ جن کا کوئی ضمیر ہے اور نہ ہی انہیں ووٹ کے تقدس کا کوئی احساس ہے۔ انہیں صرف مراعات سے دلچسپی ہوتی ہے۔ جس پارٹی میں بھی انہیں اپنا مفاد نظر آ تا ہے‘ عوام کے دیئے ہوئے مینڈیٹ کو پامال کرکے وہ اسی میں شامل ہو جاتے ہیں اور اس معاملے میں کئی مرتبہ حد سے آگے گزر جاتے ہیں ۔ انہیں کسی کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ انہیں صرف اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے۔ میرے خیال میں یہی وہ سیاستدان ہیں جنہوں نے نہ صرف پورے سیاسی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے‘ بلکہ وہ پوری پارلیمنٹ کو بلیک میل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ ان ارکان کی تعداد سو سے زائد نہیں‘ اور ہر جمہوری پارٹی ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے ۔ چونکہ یہی ارکان اسمبلی حکومت بنانے اور بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ اس لئے کسی بھی سیاسی جماعت میں ان کو مسترد کرنے یا ان کی حوصلہ شکنی کی جرات نہیں؛ چنانچہ انہیں ہر جگہ قبول کر لیا جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ضمیر فروشوں نے سیاسی ورکروں کے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ اس طرح بعض جماعتوں میں جمہوری عمل جمود کا شکار نظر آتا ہے۔ 
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار احتساب کا شکنجہ حرکت میں آ چکا ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں عدالتیں بھی مکمل آزادی کے ساتھ اپنے فرائض پورے کر رہی ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا‘ اس دفعہ ووٹر کے تیور بھی بدلے ہوئے لگتے ہیں ‘ بہت سے حلقوں میں ووٹ لینے کے لئے آنے والوں کا گھیرائو ہو رہا ہے ‘ اس رویے اور انداز سے انکشاف ہوا ہے کہ اب ووٹر زیادہ با شعور اور بے باک ہو چکا ہے ۔ وہ امیدوار کا کچھ احتساب بھی کرتا ہے اور ووٹ کی عزت بھی کروانا چاہتا ہے۔ اب اس رویے میں تیزی آئے گی اور میرا اندازہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو اس کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑے گی۔ صوبہ خیبر پختو نخوا میں پرویز خٹک اور سندھ میں مراد علی شاہ کو بھی اسی سلوک کا سامنا کرنا پڑے گی ، اس طرح جوں جوں انتخابات قریب آئیں گے‘ یہ لہر پھیلتی چلی جائے گی‘ اور کرپٹ اور اپنے ووٹروں کا احساس نہ کرنے والے سیاستدانوں کے لئے شرمندگی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ سابقہ جماعتوں کے امیدواروں کے لیے نااہلی کی تلوار بھی سر پر لٹکتی نظر آ رہی ہے اور مجموعی طور پر نظام عدل کا خوف حاوی نظر آ رہا ہے‘ جو کہ ہونا بھی چاہئے کیونکہ اس طرح معاشرہ بہتری کی جانب گامزن ہو گا اور حقیقی ترقی کرے گا۔
نواز شریف نے قومی اسمبلی میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے لندن میں عظیم الشان جاگیر کہاں سے خریدی‘ کرپشن بے نظیر بھٹو کی روح میں رچ بس چکی ہے‘ صدر اسحاق فوراً احتسابی کمیشن بنا دیتے تو بے نظیر بھٹو کا بے رحمانہ احتساب روئیداد خان کروا دیتے۔ نواز شریف نے قسم کھاتے ہوئے کہا کہ احتساب کمیشن کی تشکیل اور بے نظیر بھٹو کو قوم کے سامنے جواب دہ بنانے تک وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے اور بے نظیر بھٹو پر تا حیات پابندی لگوا کر ہی دم لیں گے۔ قدرت کے الہامی اور روحانی نظام کو مد نظر رکھیے اور سوچئے کہ آج نواز شریف اور ان کا خاندان کہاں کھڑا ہے؟ احتساب عدالت نے نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 10 سال قید با مشقت اور 80 لاکھ پائونڈ جرمانہ کیا ہے۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز کو سات سال قید با مشقت اور 20 لاکھ پائونڈ جرمانہ جبکہ نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کو ایک سال قید با مشقت کی سزا سنائی ہے۔ فیصلے کے مطابق ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو بھی بحق وفاقی حکومت ضبط کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے ۔ مریم نواز اور ان کے شوہر کو انتخابات میں حصہ لینے سے بھی نا اہل قرار دے دیا گیا ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں