"KDC" (space) message & send to 7575

اقتدار کے ساحل پر… (2)

اس فیصلے کے بعد یہ کہنا بھی بجا ہو گا کہ یہ عدلیہ کے بہترین فیصلوں میں سے ایک ہے۔ ایسے ایسے لوگوں کے مقدمات کے فیصلے ہوئے جن کے بارے میں گمان تک محال تھا۔ کسی ایک کی بات نہیں ہر شعبۂ زندگی اور ہر ادارے کے افراد کو طلب کر کے فیصلے کئے گئے۔ اس ضمن میں چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کی عدالت عظمیٰ اور ان کے ماتحت عدلیہ نہ کسی لالچ میں آئی اور نہ کسی دبائو کو خاطر میں لایا گیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دینا اس کی ایک مثال ہے‘ جس میں ان کی آف شور کمپنیوں اور بیرون ملک جائیدادوں پر‘ جن میں لندن کے علاقے مے فیئر میں واقع ایون فیلڈ فلیٹس بھی شامل ہیں‘ فیصلہ سامنے آیا ہے۔ یہ فلیٹ نواز شریف کے بچوں کے نام ہیں‘ اور جب یہ خریدے گئے اس وقت ان کے بیٹوں کی عمر 15 اور 17 سال جبکہ مریم نواز کی عمر 20 سال تھی۔ ان نا بالغ بچوں نے کروڑوں پائونڈ کی جائیدادیں کیسے خرید لیں؟ اس فیصلے کے ملکی سیاست پر بہت دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اور سیاسی موسم کافی گرم ہے۔ شہباز شریف کو ادراک ہونا چاہیے کہ جب صدر فاروق لغاری نے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ اور آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کی معاونت سے بے نظیر بھٹو کی حکومت میگا کرپشن الزامات کی بنیاد پر ختم کی تو‘ روایات کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب نے اسمبلیوں کی تحلیل پر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا۔ نگران حکومت نے غیر جانبداری کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بے نظیر حکومت کی کرپشن کے بارے میں سپریم کورٹ میں اپنا دفاع کیا۔ اخبارات میں آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کی کرپشن کے سکینڈل شائع ہوتے رہے۔ نجم سیٹھی اور ارشاد حقانی نے بے نظیر بھٹوکی کرپشن پر دستاویزی فلم تیار کروائی اور سید سجاد علی شاہ چیف جسٹس آف پاکستان نے عدالتی روایت کے برعکس سپیکر قومی اسمبلی کے ریفرنس کا فیصلہ‘ 3 فروری 1997ء کو ہونے والے قومی انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے فیصلہ سنا کر بے نظیر بھٹو کی حکومت کی بر طرفی کی توثیق کر دی تھی۔ اس کا الیکشن پر گہرا اثر ہوا اور بے نظیر قومی اسمبلی کی 207 نشستوں میں سے صرف 16 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ تاریخ کا پہیہ الٹا گھوم رہا ہے اور اب میں اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ نواز شریف جب اپیل میں جائیں گے تو عدلیہ کے رو برو احتساب بیورو کے وکلا اور وفاقی حکومت کے اٹارنی جنرل نواز شریف کی کرپشن کے بارے میں ہوش ربا ثبوت عدالت میں پیش کریں گے‘ جس کا ان کے حامیوں پر گہرا اثر پڑے گا۔ میرے اندازے کے مطابق ان حالات میں ان کی پارٹی کو نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا اور تاریخ دہراتے ہوئے‘ بے نظیر بھٹو کی طرح ہی ان کے لیے بھی پچاس سے زائد نشستیں حاصل کرنا نا ممکن ہو جائے گا۔
جو کچھ شریف خاندان کے ساتھ ہو گیا اور ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے‘ اس نے پاکستان پر پہلی بار آئین کے مکمل اور قانون کے یکساں اطلاق کی ایسی راہ نکالی ہے‘ جس پر رکاوٹیں تو کھڑی کی جا سکتی ہیں مگر اب اسے بند نہیں کیا جا سکتا۔ میرے خیال میں اب ایسی رکاوٹوں سے نجات کے لئے عمران خان کو اقتدار میں لانا بہت ضروری ہے‘ کیونکہ عمران خان خود کرپشن میں ملوث نہیں ہیں اور ان پر کرپشن کا کوئی الزام بھی نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دیانت دار ہیں اور اس ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان سے ان کی محبت پر بھی شک نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن ان کے ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے کے لئے وہی ٹیم ہے‘ جو نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ تھی۔ اب یہ عمران خان کی آزمائش ہو گی کہ اپنی ذہانت اور لیڈرشپ کی بدولت وہ ان سرکش گھوڑوں پر کیسے سواری کرتے ہیں۔ عمران خان موجودہ سیاسی ماحول میں وزیر اعظم بننے کی پوری تیاری کر چکے ہیں‘ مگر آصف علی زرداری نے اپنے کچھ دوست صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر میں عمران خان کو وزیر اعظم بننے دوں تو میں اپنی سیاسی قبر خود تیار کر رہا ہوں‘ اور میری مرضی کے بغیر عمران جتنا مرضی زور لگا لے‘ وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ آصف علی زرداری کا اشارہ یہ تھا کہ تحریک انصاف کو سادہ اکثریت نہیں ملے گی‘ اس لیے اس کی حکومت پیپلز پارٹی کی حمایت پر منحصر ہو گی۔ آصف علی زرداری ایک انتہائی زیرک سیاستدان ہیں۔ ان کی گفتگو میں وزن ہے۔ آصف علی زرداری کی ان ساری باتوں کی اگر گہرائی میں جائیں تو یہ جاننے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی کہ جتنا آسان عمران خان وزیر اعظم بننا سمجھ رہے ہیں اب بھی ان کے لیے یہ اتنا آسان نہیں ہے‘ کیونکہ آزاد امیدواروں کے ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کریں گے‘ اور پیپلز پارٹی کے سندھ سے منتخب ہونے والے ارکان قومی اسمبلی کسی صورت عمران خان کو وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہتے اور متحدہ قومی موومنٹ بھی تحریک انصاف کی حمایت کرتی نظر نہیں ا تی کیونکہ عمران خان کے قریبی ساتھیوں نے اس سے بھی محاذ آرائی کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔
ان تمام دشواریوں کے باوجود عمران خان کے وزیر اعظم بننے میں جنوبی پنجاب کے نتائج ہی سب سے بڑا کردار ادا کریں گے‘ کیونکہ تحریک انصاف وہاں سے چالیس سے زائد نشستیں حاصل کرنے کی امید کر رہی ہے۔ اگر یہ ساری سیٹیں تحریکِ انصاف کو مل جاتی ہیں تو اس عمران خان کی مشکل کسی حد تک آسانی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اگر عمران خان سادہ اکثریت نہ لے سکے اور حکومت بنانے کے لئے دیگر سیاسی جماعتوں نے اتحاد سے انکار کر دیا تو میرے خیال میں جنوبی پنجاب کے منتخب ارکان اسمبلی‘ تحریک انصاف فارورڈ گروپ بنا کر دیگر جماعتوں سے اتحاد کر کے ان کی حکومت کا حصہ بن جائیں گے‘ جس طرح نومبر2002ء میں پیپلز پارٹی کا ایک گروپ رائو سکندر اقبال اور فیصل صالح حیات کی قیادت میں سامنے آیا تھا اور انہوں نے پریس کانفرنس کر کے بے نظیر بھٹو کی پالیسیوں کی ایسی ہی بے توقیری کی تھی جس طرح اِن دنوں کچھ لوگ نواز شریف کی پالیسیوں کی کر رہے ہیں۔ اگر عمران خان سرنگوں ہو جاتے ہیں اور مصطفیٰ کمال ‘ پیر پگاڑا ‘ متحدہ قومی موومنٹ اور جیپ کے نشان کے حامل آزاد امیدواروں بشمول چوہدری نثار علی خان کے ساتھ مل کر حکومت بناتے ہیں تو ان کی حیثیت ظفر اللہ خان جمالی کی حکومت جیسی ہو جائے گی‘ اور میرا تجزیہ یہ ہے کہ چند ماہ کے بعد ان کی وزارت عظمیٰ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔
اس لیے ہم ان انتخابات کو تحریک انصاف کا سب سے بڑا امتحان قرار دیتے ہیں‘ کیونکہ وہ سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی تو بن جائے گی‘ مگر حکومت بنانے کے لیے جو جوڑ توڑ کرنا پڑے گا‘ خدانخواستہ اس میں اصولوں کی بنیاد پر سمجھوتے ہوئے تو تحریک انصاف کے لیے یہ نہایت مضر ہو گا۔ چونکہ ملک کی عوام کا بیشتر حصہ پاکستان کے مستقبل کے لیے تحریک انصاف کی طرف دیکھ رہی ہے اور دیگر سیاسی جماعتیں‘ جن کی قیادت ان دنوں بد عنوانی کے بڑے بڑے مقدمات کا سامنا کر رہی ہے‘ چاہیں گی کہ ایسے حالات پیدا کر دیں کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے ایجنڈے پر عمل نہ کر سکے‘ اور اس جماعت کو‘ جو اب تک کسی طرح کی بد عنوانی کے داغ سے بچی ہوئی ہے‘ اس کے دامن کو بھی داغدار کر دے۔ اب حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اس کا زیاددہ تر انحصار اس بات پر ہو گا کہ پولنگ کے دوران ووٹر کیا رخ اور رویہ اپناتے ہیں۔ اگر انہوں نے ہوش مندی کا مظاہرہ کیا تو بلا شبہ انہیں ایک اچھی حکومت مل جائے گی۔ (ختم)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں