"KDC" (space) message & send to 7575

ڈالر کے اثرات

امسال 31 مئی کو اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نگران حکومتیں تشکیل دی گئیں تو قوم کی نظریں نگران وزیر اعظم کی کابینہ پر لگی ہوئی تھیں کہ وہ کیا کرتی ہے۔ نگران حکومت نے معیشت پر اثر انداز ہونے والے منفی عوامل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ بہتری کے لئے کئی حوصلہ افزا حوالے بھی دئیے۔ ان میں قوم کو حوصلہ دیا گیا تھا کہ تمام رکاوٹوں کے باو جود ملک ترقی کر رہا ہے ‘اقتصادی شرح نمو 8.5فیصد کی حد کو چھو رہی ہے ‘ صنعت ‘زراعت اور سروسز سمیت تمام شعبوں کی پیدا واری صلاحیت میں اضافہ ہو رہا ہے ‘مہنگا ئی کنٹرول میں ہے ‘ سرمایہ کاری آ رہی ہے ‘بیرونی قرضوں کا بوجھ ضرور ہے مگرقرضے اتارنے کے لئے مزید قرضے لینے یا آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکج کی ضرورت نہیں ۔لیکن گزشتہ دنوں جس تیزی سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کم ہوئی ہے‘ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کا یہ سلسلہ اسحاق ڈار کی نااہلی سے شروع ہوا تھا جس کے بعد اب تک پانچ مرتبہ اس کی قیمت کم ہوئی ہے۔ روپے کی گراوٹ میں کاروباری عوامل کے ساتھ ساتھ نگران وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک کے گورنر کی منشا بھی شامل ہے ‘جن کی تقرری کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہوئی تھی کیونکہ سیاسی جماعتوں کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر پر شدید تحفظات تھے ۔ نگران سیٹ اپ ‘میڈیا اور جن سیاسی جماعتوں کے سر براہان کی نظریں ملکی معیشت پر لگی ہوئی تھی‘ بار بار خواہشات کا اظہار کر رہے تھے کہ نگران وزیر اعظم ایسی شخصیت کو مقرر کیا جائے جو معاشی صورتحال پر گہری نظر رکھتا ہو‘ لیکن وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی‘متحدہ اپوزیشن کے لیڈر سید خورشید شاہ اور سپیکر قومی اسمبلی ‘ ایسی شخصیت کو سامنے نہیں لانا چاہتے تھے جو نگران سیٹ اپ کے دوران معاشی صورتحال پر قابو پائے۔ نگران وزیر خزانہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی گورنر رہ چکی ہیں‘ لیکن اُس وقت صدر پرویز مشرف کی فعال ٹیم موجود تھی جس کی وجہ سے ان کی نا اہلی چھپی رہی اور بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت ان کی شخصیت کو مختلف حلقوں نے اجاگر بھی کیا۔یاد رہے کہ موصوفہ نگران وزیر خزانہ بننے سے پہلے بنکاک میں ورلڈ بینک کے ایک ذیلی ادارے کی سربراہ تھیں ۔ نگران حکومت بنانے والی مخلوق نے پاکستان کی ایسی تمام شخصیات کو نظر انداز کیا جو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر معیشت ‘ پالیسی سازی اور الیکشن ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتے ہیں ۔سوائے وفاقی وزیر قانون و انصاف سید علی ظفر اور وزیر خارجہ حسین عبداللہ ہارون کے ‘عوام کسی بھی شخصیت کے بارے میںبے خبر ہیں ‘ اسی طرح پنجاب کی کابینہ میں بھی غیر معروف شخصیات ہیں ‘ اپنے معالج اور بھانجے کو وزارت کے فرائض سپرد کئے گئے ہیں اور انکی اہلیت یہی ہے کہ وہ لاہور کے جم خانہ کے ساتھی ہیں ۔
موجودہ صورتحال میں جب تک قوم پر نگران حکومت کی پالیسیوں کا بوجھ رہے گا معیشت پر بوجھ بڑھتا چلا جائے گا۔ایک امریکی ڈالر 131روپے تک گیا ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں اس کا نرخ 133روپے سے بھی زیادہ رہا ہے ‘ اس کے نتیجہ میں پاکستان پر واجب الادا غیر ملکی قرضوں میں900ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ۔ ابھی ڈالر کی قیمت مزید بڑھنے کا خدشہ ہے‘ جو پہلے ہی روپے کے مقابلے میں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے ۔ ایوب خان کے دور کے وزیر خزانہ محمد شعیب نے برطانوی پاونڈ کو دبوچ رکھا تھا ‘ بعد میں 1982ء میں وفاقی وزیر خزانہ غلام اسحاق خان نے اس امید پر روپے کو پائونڈ سے ڈی لنک کر کے ڈالر سے لنک کیا کہ اس سے ملکی معیشت مستحکم کرنے میں معاونت ملے گی کیونکہ 1982ء میں پائونڈ اور ڈالر کی قیمتوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا ‘ مگر اب ان میں 130گنا فرق آ گیا ہے ۔ روپے کی اس نا قدری کی بنیادی وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام‘ نگران حکومت کی نا اہلی ‘زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور ادائیگیوں میں عدم توازن کو سمجھاجا رہا ہے۔ سٹیٹ بینک نے ڈالر اور روپے کے درمیان ایکسچینج ریٹ میں اس تبدیلی کی حمایت کی ہے لیکن معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہاہے ۔ گورنر سٹیٹ بینک اور نگران وزیر خزانہ کی ناقص پالیسی کی وجہ سے جامع انکوائری کروائی جانی چاہیے کہ کس کی ایما پر ڈالر کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے اور 52ارب روپے کا جن کاروباری حلقوں کو فائدہ پہنچاہے‘ اس کے محرکات کیا تھے ؟ نگران وزیر اعظم اپنے عدالتی فرائض کے حوالے سے مثالی شخصیت رہے ہیں‘ لیکن ان کو معیشت کی خراب صورتحال کا ادراک نہیں ہے ۔ روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی کا طوفان آ چکا ہے‘ اس کا فائدہ نواز لیگ کو پہنچے گا کیونکہ وہ عوام کو مسلسل باور کروا رہے ہیں کہ ان کے دور میں ڈالر 110روپے کا تھا اور ان کے جاتے ہی ملک معاشی و سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو گیا ہے ۔آنے والی حکومت کو ان مسائل کے حل کے لئے اور ملک کوبحران سے نکالنے کے لئے معاشی ایمرجنسی نافذ کرنا پڑے گی ا ور اس کی آڑ میں ایسے فیصلے کئے جائیں گے جس کی وجہ سے ملکی معیشت کا جھکاؤ دیوالیہ پن کی طرف رہے گا۔ 
نگران حکومت نے محسوس کیاکہ سابق حکمران جماعت اب حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی اورمخالف جماعت کے آنے کے امکانات واضح ہیں ؛چنانچہ ایک منصوبہ بندی کے تحت اس نے ملکی معیشت کو تنزل کا شکار کرنا شروع کر دیا تاکہ آنے والی حکومت کو ملک معاشی بحران میں گھرا ہوا ملے اور نواز لیگ جماعت اپوزیشن میں بیٹھ کر نئی حکومت کی نا قص کارکردگی پر شدید تنقید کر سکے۔ اس حکمت عملی پر عمل در آمد اور ملکی معیشت پر حملے کرنے کے لئے ڈاکٹر شمشاد اختر کو نگران وزیر خزانہ بنا یا گیا اور ملکی معیشت کو شدید بحران میں مبتلاکرنے کا آغاز کر دیا گیا ‘ جس میں ملکی کرنسی کی شرح کو اچانک اور انتہائی تیزی سے گرانے کا عمل شروع ہوتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ڈالر ایک سو پندرہ روپے سے بڑھتے بڑتھے ایک سو تیس روپے سے کی حد بھی عبور کرگیا۔اس کے لئے جواز یہ پیدا کیاگیا کہ ملکی کرنسی کو مصنوعی طور پر سابقہ حکومت نے سنبھالا دے رکھا تھا ‘ آنے والی حکومت ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جائے گی اور مزید قرضہ لے گی ۔ بہرحال عمران خان ایک سخت آزمائش سے گزریں گے مگر پاکستان کے عوام اپنا اثاثہ ان کے قدموں میں نچھاور کر دیں گے‘ بشرطیکہ عمران خان میں ٹیپو سلطان جیسی صلاحیت ہوجس نے اپنی ریاست میسور کے تاوان کی ادائیگی تک اپنے بیٹوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کر دیا تھا اور جب ریاست میسور کی عوام کو احساس ہوا تو انہوں نے سب کچھ ٹیپو سلطان کو نذر کر دیا ۔ نواز شریف نے بھی قرض اتارو اور ملک سنوارو مہم کا آغاز کیا تو پوری قوم متحد ہو گئی‘ لیکن نواز شریف نے قوم کو دھوکہ دیا اور آج تک ان عطیات کا سراغ نہیں ملا ۔پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار ڈیمز بنانے کی مہم پر نکل کھڑے ہوئے ہیں ‘لیکن ڈالر کے اتار چڑھائو سے ملک کی عوام کے جذبات سرد پڑ گئے ہیں ،اور وہ جذبہ دیکھنے میں نہیں آ رہا جس کی توقع چیف جسٹس رکھتے تھے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اپنے آئینی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ڈالر کے بہائو میں اضافہ کا از خود نوٹس لیں اور وزیر خزانہ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کو طلب کریں کیونکہ شنید ہے کہ نگران وزیر خزانہ اپنی رخصتی سے جاتے جاتے اپنے دوست مبشر کو نیشنل بینک آف پاکستان کا صدر بنانا چاہتی ہیں۔ مبشر ان دنوں نیشنل بینک آف پاکستان کے جز وقتی سینئر آفیسر ہیں ‘ جبکہ وزیر خزانہ سینیئر ایگزیکٹو ارکان کو نظر انداز کر کے اپنے دوست کو نیشنل بینک آف پاکستان کا صدر بنانا چاہتی ہیں ‘ کیونکہ موجودہ صدر سعید احمد عنقریب اوایس ڈی بننے والے ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں