"KDC" (space) message & send to 7575

عمران ‘ بھٹو کی 1974ء والی پالیسی اپنائیں

وزیر اعظم عمران خان کی جی ایچ کیو میں آرمی قیادت سے آٹھ گھنٹے طویل بریفنگ اورصلاح مشورے کے بعد قوم کو یہ اعتماد حاصل ہونا چاہیے کہ اب چاہے امریکہ ہو ‘بھارت ‘ افغانستان یا چین ہماری سیاسی لیڈر شپ ملکی مفاد میں ہی بات کرے گی اوراندرون ملک بھی پالیسی خلفشار نظر نہیں آئے گا ۔جی ایچ کیو کے اہم اجلاس کے متعلق آئی ایس پی آر کے پریس نوٹ کے بعدوزارت اطلاعات و نشریات کا اعلامیہ غیر ضروری نظر آرہا تھا ‘حساس معاملات کو حساسیت سے ہی دیکھنا چاہیے ۔چیف آف آرمی سٹاف نے تمام سیاسی رہنمائوں کو مدعو کر کے اچھی روایت کا آغاز کیا ہے‘ اس سے تمام سیاسی جماعتیں فوج کی پشت پر کھڑی ہو گئی ہیں ۔اس وقت وفاقی وزراء جس انداز میں پالیسی اعلامیے جاری کر رہے ہیں اس سے وفاقیت کا وجود کہیں بھی نظر نہیں آرہا ‘ہر وفاقی وزیر اپنے طور پر حکومت کی مرکزیت سے ہٹ کر ایسے ہی بیانات دے رہا ہے‘یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان پر افغانستان کی طرح مختلف کمانڈروں نے اپنے اپنے علاقے اپنے طور پر تقسیم کر کے علیحدہ علیحدہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں تشکیل دے دی ہیں۔ ملک کے وزیر اعظم عمران خان ہیں‘ان کی پالیسی کے ساتھ ہی سب وزراء کو آگے بڑھنا چاہیے اور تمام فیصلے کابینہ کے اجلاس میںطے ہونے چاہیں اور کابینہ کے فیصلے کی ہی تشہیر ہونی چاہیے۔اب تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ملک 34حصوں میں تقسیم ہو چکا اور اس سے وزیر اعظم عمران خان کے خوابوں کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔
1974-75ء میں وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو کے بعض وزراء میں جناب کوثر نیازی پیش پیش تھے‘ انہوں نے اپنی علیحدہ حکومتی رٹ تشکیل دے کر اور بڑے بڑے اخبارات کے اخبار نویسوں کو ساتھ ملا کر وزیرا عظم بھٹو کے متبادل لیڈر شپ بنانے کی سعی کی تھی ‘اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ممتاز بھٹو ‘عبد الحفیظ پیر زادہ اور چند دیگر وزرا ء نے یہی روش اختیار کر لی تھی ۔اس پر ذو الفقار علی بھٹو نے فی الفور وزیر اطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی کو برائے نام وزیر برائے مذہبی امور بنا کر ان کو اوایس ڈی بنا دیا اور اپنے خصوصی مشیر یوسف بچھ کے ذریعے وزارت کا انتظام ان کے حوالے کر دیا تھا اور اسی رات کیبنٹ ڈویژن سے احکامات جاری کروا کے تمام وفاقی وزرا ء کے گھروں اور کاروں سے جھنڈے اتارنے کا حکم دے دیا گیا اور ساتھ ہی ان سے پولیس کی مراعات بھی واپس لے لی گئیں۔ کابینہ ڈویژن نے وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو کا حکم صادر کیا کہ آئندہ کوئی وزیر پالیسی بیانات جاری کرنے کا روادار نہیں ہوگا‘ اور جو پالیسی بیانات جاری کئے جائیں گے‘ ان میں کوئی متعلقہ وزیر کا نام نہیں لے گا ‘ صرف وزارت اور محکمے کا نام شامل ہوگا ‘کسی وزیر کے نام سے کوئی بیانیہ جاری نہیں ہوگا‘ کیونکہ ان کے وزرا ء نے وزیر اعظم بھٹو کی حیثیت کو بتدریج کم کرنا شروع کر دیا تھا ۔وزیر اعظم عمران خان کو بھی چاہیے کہ 1975ء کے کابینہ ڈویژن کے ان احکامات کو آرکائیوز سے نکلوا کر پڑھیں‘ کیونکہ ایسی ہی صورتحال عمران خان کو بھی پیش آ رہی ہے۔ان کے خارجہ‘داخلہ اور دیگر اہم فیصلوں کو ان کے وزراء ہائی جیک کر کے خود نمائی کے طور پر خود کو پیش کرہے ہیں ۔
اسلام آباد کو صوبائی اسمبلی کی طرز پرنمائندگی دینے کا فیصلہ خوش آئند ہے‘اور اسلام آباد کے دائرہ کار کو بڑھاتے ہوئے راولپنڈی‘چکوال‘جہلم اور اٹک کے اضلاع کو اسلام آباد کی صوبائی اسمبلی کے دائرہ کار میں لانا ہوگا ‘یہ الگ بات ہے کہ اس سے اپوزیش کو تصادم ابھارنے کا موقع مل جائے گا ۔عمران خان بیس سال سے زائد عرصے سے عنان حکومت سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ انہیں اپنی حکومت کی شروعات میں ہی اپنی پالیسی ایسے وضح کرنا چاہیے تھی‘ جس طرح پنڈت جواہر لال نہرو نے وزیر اعظم بنتے ہی اپنی پہلی کابینہ کے اجلاس میںسادگی کے تین سنہرے اصول دیے‘ جن میں پہلا اصول یہ تھا کہ بھارت کی غریب عوام تفریح کے لئے بھارتی فلمیں دیکھنے کی شوقین ہے‘ لہٰذا سینما ٹکٹ چار آنے تک ہی رکھا جائے ۔ جواہر لال نہرو کا ایک اور اہم اصول یہ تھا کہ بھارت میں 90فیصدسے زائد لوگ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ‘ لہٰذا امرا اوراشرافیہ اپنی دولت کی نمائش کرنے سے گریز کریں ‘سادہ سوتی کپڑے استعمال کریںاور دھوتی اور کرتے کو فروغ دیں اور چھوٹی گاڑیوں کا استعمال کریں ۔اپنے دروازے غریبوں کے لئے کھول دیں ‘ ان کی داد رسی کریں۔ ان کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان کے ارکان حکومت بھی انہی میں سے ہیں ۔ ان میں احساس کمتری نہ پیدا ہونے دیں‘ کیونکہ اس سے نفرت ‘چوری‘ڈکیتی اور شدت پسندی کو فروغ ملتا ہے ۔
دنیا کے جن ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں‘ ان کی ترقی کی بنیاد مضبوط‘مربوط اور با اختیار بلدیاتی نظام ہے ۔ملکی دفاع‘اقتصادیات‘خارجہ لیسی اور اسی نوعیت کے چند اہم ریاستی ادارے صوبائی و مرکزی حکومتوں کے تحت ہوتے ہیں ۔علاوہ ازیں عدلیہ‘پولیس ‘صحت ‘تعلیم غرض کے وہ تمام شعبے بلدیاتی نمائندوں کی سر کردگی میںبہترطور پر امور سر انجام دیتے ہیں‘ جن کا تعلق عوام سے ہے۔ہمارا المیہ یہ رہا کہ ہماری حکومتوں نے بلدیاتی نظام سے ہمیشہ صرف نظر کیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھے افراد نہ تو اپنے اختیارات کسی کو دینا چاہتے تھے اور نہ ہی وہ فنڈز‘ جو ان کو ملتے ہیں۔ یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پرہونے والے انتخابات کے علاوہ تمام تر بلدیاتی انتخابات مارشل لاء دورمیں ہی ہوئے ۔موجودہ بلدیاتی ادارے بھی ابھی تک بے اختیار‘ بلکہ بے وقعت دکھائی دیتے ہیں ۔عمران حکومت نے موجودہ بلدیاتی نظام کی بجائے انتظامی و مالی اعتبار سے ایک با اختیار بلدیاتی نظام جماعتی بنیادوں پرکرانے کا عندیہ دیا ہے ۔ دنیا بھر میں ترقیاتی فنڈز بلدیاتی اداروں کے لئے ہی مختص کئے جاتے ہیں ‘جس کا اصل مقصد معیار زندگی کو بہتر بنانا ہوتا ہے ۔ اس سے عوام کو دور دراز جانے کی بجائے اپنے علاقوں میں ہی عوامی نمائندوں کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے میں مدد ملتی ہے ‘ کیونکہ ارکان پارلیمنٹ تک تو عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں ۔اگر عمران خان لندن اور سویڈن کی طرز پر بلدیاتی نظام بنانے میں کامیاب رہے ‘تو عام آدمی کی ان اداروں تک رسائی با آسانی حاصل ہوگی۔
افسوس کہ سابقہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بلدیاتی نظام کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اب عمران خان نے اس ضمن میں خوش کن فیصلہ کرتے ہوئے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو کا لعدم قرار دینے کا عزم کیا ہے ۔اب عمران حکومت نے انقلابی تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے‘ جس کے تحت بلدیاتی اداروں میں دو ہی جزو ہوں گے ‘یونین کونسل اور ضلعی کونسل۔درمیان سے تحصیل کونسل کا تصور ختم کیا جا رہا ہے اور ضلعی ناظم‘میئر اور چیئرمین کے انتخابات براہ راست ہوں گے‘ اور وہ اپنے کونسلوں کے دائرہ اختیار سے نکل جائیں گے اور ضلعی ناظمین کے ما تحت تقریباً 22 سے زائد محکمہ جات ہوں گے ۔ پولیس اور اہم ادارے ان کے ماتحت ہوں گے‘ اور ان کی اپنی آزادانہ اسمبلی ہوگی اور ترقیاتی فنڈز بھی ان کو وفاق سے وصول ہوں گے‘ جو کہ پاکستان میں صدارتی نظام کی طرف پیش رفت ہے ۔
پنجاب اورخیبر پختونخوا کے ناظم‘ میئر براہ راست انتخابات کے ذریعے منتخب ہوں گے‘ تو وہ وزیر اعلیٰ کے ماتحت نہیں ہوں گے اور ضلع کے تمام ارکان قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلی بھی ناظم کے ما تحت ہوں گے۔ تمام ترقیاتی سکیمیں ناظم کے ذریعے مکمل ہوں گی اور ارکان پارلیمنٹ لارڈ میئر کے سامنے ہی جواب دہ ہوں گے ۔اس پس منظر میں ملک صدارتی نظام حکومت کی طرف مائل ہوگاا ور فیڈریشن مضبوط ہوگی۔اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے مفادات کے تحت اس نظام کی شدید مخالفت کرے گی ۔ عمران خان کو مشورہ ہے کہ عجلت میں بلدیاتی ادارے کالعدم قرار نہ دیں ‘ایک سال کا انتظار کر لیں اور اس دوران قانون سازی اور نئے بلدیاتی نظام کے بارے میں پنجاب کے گورنر چوہدری سرور سے مشاورت کر کے لندن کے میئر کی طرز پر انتخابات کرانے کے لئے خدو خال درست کریں۔میں نے لندن‘واشنگٹن‘جکارتہ‘فلپائن‘نیدر لینڈ‘سری لنکا‘ بھارت ‘نیپال اور ڈھاکہ کے بلدیاتی نظام کا عملی مطالعہ کیا ہے ‘ اس نظام میں بہترین نظام سویڈن اور برطانیہ کا ہے‘ اور برطانوی وزیر اعظم بھی میئر لندن کے سامنے جوابدہ ہے ۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں