"KDC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم عمران خان اور بیوروکریسی

پاکستان میں کوئی مستحکم نظام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بے روزگاری‘ غربت اور مہنگائی نے عوام کی حالت انتہائی خراب کر دی ہے۔ یہاں کا کسان تباہ حال‘ مزدور خستہ حال‘ خواندگی کی شرح نہایت کم اور معیارِ تعلیم پست ہے۔ کرپشن ‘اقربا پروری ‘چور بازاری ‘رشوت خوری‘ ذخیرہ اندوزی‘ سمگلنگ‘ ملاوٹ اور دھوکہ دہی عام ہے۔ اغوا برائے تاوان‘ ڈکیتی‘ قتل و غارت‘ فرقہ واریت اور دہشت گردی کی وجہ سے سماجی سکون ختم ہو چکا ہے اور منفی قوتوں کا دور دورہ ہے۔ 70 سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں‘ مگر عوام کی حالت نہیں بدلتی۔
وزیر اعظم عمران خان کی نگرانی میں بیوروکریٹس کے بارے میں پالیسی وضع کرنے کے لئے محمد شہزاد ارباب کو خصوصی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ وہ پاکستان کے صفِ اول کے بیوروکریٹ رہے ہیں۔ جمہوری پاکستان کی سمت کا تعین کرنے اور سیاست زدہ سول سروس میں اصلاحات کی غرض سے عمران خان کی کوششوں کو سراہا جانا چاہیے‘ کیونکہ انہوں نے ایک اعلیٰ اختیارات کی حامل کمیٹی ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں تشکیل دی ہے۔ مگر یہ کام آسان نہیں‘ کیونکہ طاقت کا مرکز قانون کی حکمرانی سے تبدیل ہو کر چند لوگوں کی حکمرانی تک محدود ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین‘ جنہیں سول سروسز میں اصلاحاتی ایجنڈے کا کام تفویض کیا گیا ہے‘ اپنے اختیارات اور غیر یقینی صورتحال کیے بارے میں بخوبی جانتے ہیں۔ لیکن پاکستانی معاشرہ غیر سیاسی ہو چکا ہے‘ وہ گروپ جنہیں غیر سیاسی ہونا چاہیے تھا‘ وہ بدستور سیاسی ہیں‘ لہٰذا نتائج تک پہنچنے سے پہلے اس معاملے کو تاریخی حوالے سے دیکھنا ضروری ہے۔ میرے خیال میں فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نظریۂ ضرورت کے تحت عمل میں لائی گئی اور نواز شریف کے بھارت سے مراسم کو آگے بڑھانے کے لیے خصوصی ایجنڈے کے تحت ابتدائی طور پر پنجاب کی حکومت ان کو طشتری میں رکھ کر دی گئی‘ حالانکہ اگر صدر آصف علی زرداری چاہتے تو پاکستان مسلم لیگ ق کے 86 ارکان کے تعاون سے پنجاب میں آسانی سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھے۔ پنجاب کے مرحوم گورنر سلمان تاثیر نے بتایا تھا کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو حکومت کسی غیر مرئی طاقت کی ایما پر نہیں لینے دی گئی‘ حالانکہ گورنر سلمان تاثیر اس مقصد کے لئے چوہدری شجاعت حسین کے گھر بھی گئے تھے اور بقول سلمان تاثیر‘ مونس الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کی پیشکش بھی کی گئی تھی۔ 
شہباز شریف چوہدری شجاعت حسین کے 86 صوبائی اسمبلی ارکان میں سے 50 کے لگ بھگ ارکان کا فارورڈ بلاک بنوا کر پنجاب میں 2013ء تک بلا خوف و خطر حکومت کرتے رہے اور ان کی پشت پناہی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کی۔ اسی دوران شہباز شریف نے اپنے من پسند بیوروکریٹس کو پروان چڑھایا اور ان کو اے زیڈ کے شیر دل‘ سعید مہدی اور دیگر ریٹائرڈ بیوروکریٹس کا بھی تعاون حاصل تھا۔ شہباز شریف نے بیوروکریسی کو سیاسی آلودگی میں الجھا دیا اور اسی بیوروکریسی کی حکمت عملی سے 2013ء کے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور اپنی بیوروکریسی کو انعام میں 56 سے زائد کمپنیوں کی بنیاد ڈال کر دی‘ اور ان کے چیئرمینوں کو قومی خزانے سے بھاری مراعات دیں‘ اور عدالت کو یہ واجبات واپس لینے کے احکامات جاری کرنے پڑے ہیں۔ شہباز شریف نے پنجاب کی بیوروکریسی کو نا قابل اعتبار‘ سیاست زدہ‘ فریب زدہ اور کرپٹ نظام میں تبدیل کر دیا۔ اس راہ پر ڈال کر کرپشن کا بازار گرم کرایا۔ اس کرپٹ بیوروکریسی میں سے مفاد عامہ کے لیے کام کرنے والی بیوروکریسی کو تلاش کرنے کا کام محمد شہزاد ارباب کو سونپا گیا ہے۔ پنجاب کی بیوروکریسی کا اندرونی منظر دیکھا جائے تو ان اداروں میں سیاسی مداخلت‘ ریشہ دوانیاں اور ملی بھگت کے نشانات آسانی سے مل جائیں گے۔
بیوروکریسی کی اصلاحات کے لیے عملی قدم اٹھاتے ہوئے صدر یحییٰ خان نے تقریباً 303 بیوروکریٹس کو برطرف کر دیا تھا‘ جن میں قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسی شخصیات بھی شامل تھیں۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو نے مارشل لاء آرڈر کے تحت مارچ 1972ء میں تیرہ سو کے لگ بھگ اعلیٰ بیوروکریٹس کو گھر بھیج دیا‘ جس کی وجہ سے بیوروکریسی میں بد نظمی پھیل گئی اور ان کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے بیوروکریسی سے سول ایوارڈ حاصل کر لیے اور ان کو ایڈمنسٹریٹو اصلاحا ت کے ذریعے ایک سروس میں مدغم کر دیا۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو نے پبلک سرونٹس کو جو آئینی تحفظ حاصل تھا‘ وہ حذف کرکے ان کو حکومت پاکستان کے تابع کر دیا اور آئینی طور پر ان کو ریاست کے تابع کرنے کی بجائے حکومتی اثر و رسوخ کے ماتحت کر دیا۔ علاوہ ازیں ان کو مزید کمزور کرنے کے لئے 19 اور اس سے زیادہ گریڈوں پر براہ راست بھرتی کرنے کی سکیم جاری کی‘ جس کے ذریعے پارٹی کے نا اہل افراد کو اہم پوزیشنوں پر تعینات کرکے بیوروکریسی کا ڈھانچہ کمزور کر دیا گیا۔ وزیر اعظم بھٹو کی اس پالیسی سے سیاسی اور انتظامی بے چینی پھیلی۔ پاکستان کے سیاسی نظام کی تبدیلی میں ان کا اہم کردار رہا اور 7 مارچ 1977ء کے انتخابات میں وزیر اعظم بھٹو کی خصوصی بیوروکریسی نے دھاندلی کروانے کا تاریخی کردار ادا کیا‘ جس کی وجہ سے ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا‘ جس کا انجام 5 جولائی 1977ء کے مار شل لاء کی صورت میں سامنے آیا۔ 
جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آنے کے چند مہینوں کے بعد سابقہ حکومت کے وہ تمام بیوروکریٹس‘ جو براہ راست بھرتی کرکے سول سروسز میں شامل کئے گئے تھے‘ کو برطرف کرکے بیوروکریسی کو سیاسی آلودگی سے شفاف کرنے کے لیے اہم قدم اٹھایا اور اپنی اسی پالیسی کے تحت انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس مشتاق حسین کے رشتے کے داماد نواب غالب رسول کو بھی بر طرف کر دیا تھا‘ جو گریڈ 19 میں سندھ کے الیکشن کمشنر تھے۔ جنرل چشتی نے جسٹس مشتاق حسین کی سفارش کو مسترد کر دیا تھا‘ جنرل ضیاء الحق کی بیوروکریسی بعد ازاں ان کے تابع ہو گئی اور ان کے 11 سال میں تمام اداروں اور سیاست کو کرپٹ کر دیا گیا۔ ان کی پالیسی کو بعد ازاں نواز شریف نے 1985ء سے اپنائے رکھا اور ایسی گندگی پھیلائی کہ آج تک بیوروکریسی ٹھیک نہیں ہو سکی۔ 
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن وقار احمد کو بے پناہ اختیار تفویض کئے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ وعدہ معاف گواہ بن گئے اور اپنے ہاتھ سے ایک سو صفحات پر مسٹر بھٹو کے سیاہ کارناموں کی طویل ترین فہرست جاری کی‘ جس کے تحت خفیہ طور پر الیکشن کمیشن کو وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے ماتحت کرنے کے عوض چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان کی ایک سال کی توسیع کر دی۔ اس طرح حلقہ بندیاں پرائم منسٹر سیکرٹریٹ میں ملک محمد حیات ٹمن کی نگرانی میں کرائی گئیں اور جب سیکرٹری الیکشن کمیشن اے زیڈ فاروقی نے اعتراض کئے تو ان کو خاموش کرانے کے لیے ان کی مرضی کے مطابق پولنگ کا وعدہ کیا۔ اے زیڈ فاروقی کا تعلق بھی لاہوری گروپ سے بتایا جاتا رہا اور انہوں نے 7 مارچ 1977ء کے انتخابات میں بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں کرانے کی منصوبہ بندی بھی لاہوری گروپ سے کروائی تھی۔ ان سب کے بارے میں بھی وقار احمد نے اپنے اعترافی بیان میں درج کیا۔
اب نواز شریف اور شہباز شریف کی تیارکردہ بیوروکریسی اپنے سابقہ آقائوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لئے پر تول رہی ہے‘ لیکن ان کو جنرل ضیاء الحق جیسی سختی کا سامنا نہیں ہے۔ ان کا سامنا ایسے سیاستدانوں سے ہے جن کو بیوروکریسی کا ادراک نہیں ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری این اے فاروقی نے ایسی حکمت عملی بنا رکھی تھی کہ ان کو صدارتی آفس تک محدود کر دیا تھا اور قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسے بیوروکریٹس بھی بے بس ہو گئے تھے۔ ایوان صدر کے نچلی سطح کے افسران کو صدر ایوب خان تک باتیں پہنچانے کے لیے اختر ایوب خان کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ این اے فاروقی نے ایوان صدر میں نوائے وقت اور ہفت روزہ چٹان بھی بند کروا دئیے تھے۔ صدر ایوب خان کا سٹاف اختر ایوب خان کے ذریعے یہ اخبارات صدر ایوب خان تک پہنچاتا تھا۔ عمران خان اپنے اردگرد ساتھیوں پر نظر رکھیں‘ جو ان کو عوام سے دور رکھنے کی پالیسیوں پر گامزن ہیں۔

 

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں