"KDC" (space) message & send to 7575

سسٹم کی ناکامی کے اثرات

ہائی کورٹ کا سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بارے جو عبوری فیصلہ آیا ہے‘ اس کے دور رس نتائج و اثرات سامنے آئیں گے ۔ قومی احتساب بیورو کی کورٹ کے فیصلے کا بغورجائزہ لیا جائے تو اس کی ڈرافٹنگ میں کمزوری تھی اور ابہام بھی۔ واضح طور پر لکھ دیا گیا تھا کہ مفروضوں کی بنیاد پر سزا سنائی جا رہی ہے۔ نواز شریف کے وکلا نے ان پیرا گرافس کو آڑے ہاتھو ں لیا‘ اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی نیب کے وکلا سے بار بار استفسار کیا تو وہ خاطر خواہ جواب نہ دے سکے ؛ چنانچہ امکان یہ تھا کہ عید الاضحی سے پیشتر ہی شریف خاندان کو ریلیف مل جائے گا ‘مگراسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی تعطیلات کے بعد کیس سننے کا فیصلہ کیا ۔ جسٹس اطہر من اللہ نے قومی احتساب بیورو کو کیس کی تیاری اور اس کی خامیوں کو دور کرنے کے لئے عدالتی طور پر مناسب مہلت دی‘ لیکن قومی احتساب بیورو نے کمزور دلائل دئیے اور فیس سیونگ کے لئے سپریم کورٹ میں کیس ملتوی کرنے کی اپیل دائر کر دی‘ جس سے کیس مزید کمزور ہو گیا اور سپریم کورٹ نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو پر جرمانہ عائد کر دیا۔ اسی دوران محترمہ کلثوم نواز صاحبہ رحلت فرما گئیں‘ جس پر شریف خاندان کے لئے ہمدردی کی لہر پورے پاکستان میں محسوس کی گئی اور قومی احتساب بیورو نے مفروضوں پر جو بنیاد کھڑی کی تھی وہ زمین بوس ہو گئی ۔
حکمران جماعت کو ادراک ہی نہ ہو سکا کہ کیس کی نوعیت فیصلہ کن موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے ‘ لہٰذا وہ قومی احتساب بیورو کی معاونت کے لئے آگے نہ بڑھ سکی۔ عمران خان اپنی اپوزیشن کے دوران جس میگا کرپشن کا ذکر کرتے رہے؛ چنانچہ ان کی حکومت کو چاہیے تھا کہ اپنے سرکاری ریکارڈ سے تمام دستاویزات آسانی سے قومی احتساب بیورو کو پہنچاتی۔ وزارتِ قانون و انصاف، ایف آئی اے اور دیگر تفتیشی اداروں کے پاس کرپشن اور لندن کی جائیدادوں کا پورا ریکارڈ موجود تھا۔ اگر قومی احتساب بیور وکے وکلاکی دانش دور رس نتائج حاصل نہ کر سکی تو حکمران جماعت کے پاس تو تمام دستاویزات موجود تھیں، ادارے اس کی تحویل میں تھے اور حکومتی وسائل کی بھی کمی نہ تھی۔اسی دوران محترمہ کلثوم نواز کے انتقال پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے سوگ مناتے ہوئے جاتی امر ا کی طرف رخ کیا اور نواز خاندان کی خوش قسمتی دیکھئے کہ میڈیا ان کے حق میںہمدردی کی مہم چلاتا رہا۔ نواز شریف کو غیر ملکی سفارت خانوں کے سفر ا سے ملتے ہوئے بھی دکھایا جاتا رہا۔ ترکی کے وزیر خارجہ، قطر کا شاہی وفد، ایران‘ سعودی عرب اورچین کے سفیر تعزیت کے لئے پہنچے۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے کئی سینئر ارکان بشمول گورنر، سپیکر، چیئرمین سینیٹ اور وزیر اعلیٰ جاتی امر اتعزیت کے لیے آئے ۔ 
ان حالات میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ انتہائی دانش مندی کا مظہر تھا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف، مریم نواز، صفدر ضمانت پر رہاہو چکے ہیں‘ احتساب کورٹ کے فیصلے کے خلاف حتمی مقدمہ کی روداد کے بعد فیصلہ آنے تک وہ پکی ضمانت پر ہیں ۔ یہ مقدمات ماضی کی روایات کے پیش نظر برسوں تک زیر سماعت رہ سکتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق چار سال تک حکم امتناعی کے تحت وزارت پر فائز رہے۔ الیکشن ٹربیونل نے اپریل 2014ء میں ان کے خلاف فیصلہ دیا جس میں ان کے الیکشن کو کالعدم قرار دیا گیااور ان کو پانچ سال کے لئے نا اہل قرار دیا گیا تھا ‘ لیکن وہ سپریم کورٹ سے سٹے ا ٓرڈر حاصل کر کے وزارت کے مزے لوٹتے رہے۔ اسی طرح نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر اور دیگر‘اس فیصلے کے درمیان معلق رہ سکتے ہیں ۔
ملک بھر میں11 قومی اسمبلی اور 26 صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں ضمنی انتخابات 14 اکتوبر کو ہورہے ہیں ، جہاں باد ی النظر میں بعض اہم نشستوں پر ن لیگ کی کامیابی کے امکانات ہیں کیونکہ مریم نواز جس جارحانہ انداز میں مہم چلائیں گی اس کا مقابلہ اب حکمران جماعت نہ کر پائے گی اور اتفاق دیکھئے کہ غالباً 12یا 13 اکتوبر کو محترمہ کلثوم نواز کا چہلم بھی ہے اور ملک بھر سے قافلے دعائے مغفرت کے لئے جاتی امر ا آئیں گے۔ اسی سوگ کے دوران 14اکتوبر کو ضمنی انتخابات ہوں گے‘ جن کے انتخابی نتائج پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ نواز شریف جانتے ہیں کہ عمران خان محض 5نشستوں کے بل پر ملک کے وزیر اعظم ہیں اور پانچ ارکان کا تعلق بلوچستان کے اختر مینگل سے ہے‘ اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ کے 7ارکان کا عمران خان کو تعاون حاصل ہے‘ اور ان کے ارکان کو وزارت بھی دی گئی ہے ‘لیکن متحدہ قومی موومنٹ کے 6ارکان نے الیکشن کمیشن میں عذر داری بھی جمع کروا دی ہے‘ان کی ڈبل گیم سے بھی عمران خان کو پارلیمنٹ میں خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوتی ہے۔
میری ناقص رائے کے مطابق نواز شریف کو 27 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج اور مستقبل کے چیف جسٹس نے حقائق چھپانے پر تا حیات نا اہل قرار دیا اور ان کی قسمت کا فیصلہ احتساب عدالت کے حوالے کرتے ہوئے چھ ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم صادر کیا تھا‘ جو6 جولائی 2018 ء کو اپنے منطقی نتیجے پر پہنچا اور نواز شریف کو سزا سنا دی گئی۔ امسال 17ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا فیصلہ احتساب کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہی تصور کیا جائے گا۔ اب اگر ان کی سزا معطل ہو گئی ہے تو اس کا اثر ان کی نا اہلیت پر بھی پڑے گا۔ سپریم کورٹ با ر ایسوسی ایشن کے صدر کلیم خورشید نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرا رکھی ہے کہ سترہ رکنی فل کورٹ نا اہلی کا فیصلہ کرے ‘ محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی اسی طرح کا اشارہ دے چکے ہیں۔ان حقائق کو مد نظر رکھیں تو عمران خان کی حکومت آئینی بحران کی طرف بڑھتی محسوس ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فل کورٹ کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کھل کر کرے گا‘کیونکہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں جو نا اہلی کی شق شامل کی گئی تھی‘ اسے جنرل ضیا ء الحق کے وزیر قانون اے کے بروہی،اٹارنی جنرل شریف الدین پیرزادہ اور ان کے سیاسی مشیر ظفر انصاری نے بڑے غو رو خوض کے بعد پیپلز پارٹی کے بعض اہم راہنمائوں کا راستہ روکنے کے لئے آئین میں داخل کیا تھا۔ ایک خصوصی مارشل لاء آرڈر کے تحت عوامی نمائندگی ایکٹ 76میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی سے نا اہلی کی شق شامل کر دی گئی‘ اس کا مقصد بے نظیر بھٹو اورائیر مارشل اصغر خان کو سیاست سے دور رکھنا تھا۔ میری نظر میں بعض وزرا نے عمران خان کا وزن بڑھانے کی بجائے اپناہی بے سرو پا منصوبہ پیش کر کے عمران خان کو سائیڈ لائن کر رکھاہے ۔ نریندر مودی کو دو ٹوک جواب دینے کا کریڈٹ ان کے وزرا حاصل کر رہے ہیں اور سعودی دورے کے تاثرات اپنی دانشمندی میں لپیٹ رہے ہیں‘ حالانکہ سعودی عرب نے گوادر میں دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی طرف جو اشارہ کیا ہے اس کے نتائج حاصل کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے‘کیونکہ سعودی عرب فی الحال خود گیارہ ارب ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے۔ ایک اور اہم نکتہ ابھی تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ خلیجی جنگ کے بعدسے امریکہ نے سعودی عرب پر پابندی لگا رکھی ہے کہ کسی ملک کو امداد ینے سے پہلے امریکہ سے کلیئر نس حاصل کی جائے ۔ سعودی عرب کے کھربوں ڈالر امریکی بینکوں میں پڑے ہیں‘ اور بینک پینٹا گون کی اجازت کے بغیر یہ فنڈز ریلیز نہیں کر سکیں گے۔ سعودی عرب نے پاکستان کی نئی حکومت اور سیاست پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے اور میرے خیال میں اس کی پشت پر امریکی تھنک ٹینک کام کر رہے ہیں۔ 
دوسری جانب ضمنی انتخابات میں نواز شریف کا ووٹ بینک محفوظ ہے اور مریم نواز ان انتخابات میں تحریک انصاف کی در دیوار ہلانے کی پوزیشن میں ہوں گی۔ پاکستان تحریک انصاف نے25جولائی کے انتخابات کے لئے جارحانہ مہم چلائی تھی ‘لیکن اب الیکشن کمیشن کے ضابطۂ اخلا ق کی روشنی میں حکومتی وزرا اور ارکان اسمبلی اپنے امید واروں کے حق میں مہم چلانے کی پوزیشن میں نہیں‘ جبکہ نواز شریف اور مریم نواز اس پابندی سے مبر ا ہیں۔ میرا ذاتی اندازہ ہے کہ نواز شریف الیکشن میںسسٹم کی ناکامی کا سہارا لیتے ہوئے خطرناک مہم کا آغاز کرنے کے لئے حکمت عملی تیار کر رہے ہیں ۔ میں نے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کو الیکشن سسٹم کی ناکامی کی جو وجوہ بیان کی تھیں‘ ممکن ہے ان کی نظر سے گزری ہوں‘ لیکن مجھے لگتا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو ابھی اس کا احساس نہیںہو ا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں