"KDC" (space) message & send to 7575

نیا بلدیاتی نظام اور موروثی سیاست

جمہوری اصولوں کے مطابق حقیقی ثمرات عوام تک اس وقت پہنچتے ہیں جب آئین کے آرٹیکل 142اے کے تحت نچلی سطح پر منتخب اداروں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور با اختیار بنایا جائے۔مغربی ملکو ں میں یہی اصول اپنایا جاتا ہے‘یہی وجہ ہے کہ وہاں لوگوں کو تعلیم ‘صحت و صفائی سمیت زندگی کی بنیادی سہولتوں کے لئے پسماندہ اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کے عوام کی طرح خوار نہیں ہونا پڑتا ۔ قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں انگریزوں کا وضح کردہ بلدیاتی نظام اختیار کیا گیا ‘جو نتائج کے اعتبار سے غنیمت تھا ‘مگر جلد ہی یہ جاگیر دارانہ سیاست کی نذر ہونے لگا ۔ صدر ایوب خان کے دور میں بنیادی جمہوریتوں کے نام سے جو بلدیاتی نظام نافذ کیا گیا‘ اس کا مقصد سیاسی خلا کو پر کرنا تھا ‘ مگر بلدیاتی اداروں کو الیکٹورل کالج بنانے سے ان کے مثبت منصوبے گرہن زدہ ہو گئے ۔ بعد کے ادوار میں یا تو بلدیاتی انتخابات کروائے ہی نہیں گئے یا کرائے گئے تو ان کے نتیجے میں قائم ہونے والے بلدیاتی اداروںکو اتنا بے اختیار بنا دیا گیا کہ عوام کو ان سے کوئی فائدہ نہیںپہنچا۔2016ء کے بلدیاتی انتخابات نے بلدیاتی اداروں پر اعتماد ہی ختم کر دیا اور سپریم کورٹ کے حکم کے تحت بلدیاتی اداروں کے انتخابات محض خانہ پوری تھی ‘اگرچہ کسی حد تک عمران خان نے خیبر پختونخوا میں اس نظام کو درست سمت کی طرف چلایا ۔اسی پس منظر میں موجودہ حکومت کا ایک مثبت فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب کے لئے نئے بلدیاتی نظام کی منظوری دی اور حتمی شکل دینے کا حکم جاری کیا ۔ پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان کی جانب سے نئے بلدیاتی نظام پر بریفنگ کے دوران پرانے نظام کی خامیاں دور کرانے کے لئے وزیر اعظم نے نئے نظام کے ضمن میں تین بنیا دی اصول متعین کئے ہیں ۔پہلا یہ کے یہ نظام سادہ ہو ‘ دوسرا یہ کہ انتخا بات براہ راست ہوں اور آخری یہ کہ منتخب نمائندوں کو پوری طرح با اختیار بنایا جائے ‘تاکہ وہ نچلی سطح پر عوام کی حقیقی معنو ں میں خدمت کر سکیں ۔ وزیر اعظم نے پنجاب کے لئے جس نظام کی منظوری دی ہے اس کے تحت ضلع اور تحصیل کی سطح پر میئر کا الیکشن براہ راست ہوگا۔نئے نظام کا مقصد موجودہ سسٹم کو ختم کر کے ایسا طریقہ کار رائج کرنا ہے‘ جس کے تحت منتخب نمائندوں کو کسی بھی سطح پر بلیک میل نہیں کیا جا سکے گا اور وہ اپنی تمام تر توجہ عوام کی فلا ح و بہبودپر مرکوز کر سکیں گے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ نئے نظام کی بنیاد جمہوری اقدار پر مبنی ہوگی‘ جس کی رو سے گڈ گورننس اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا اور اس سے ترکی اور ایران کی طر ز پر نئی لیڈر شپ کو اوپر آنے میں مدد ملے گی۔نئے بلدیاتی نظام میں یونین کونسلوں کے سائز کا دوبارہ تعین کیا جائے گا۔مگر نئے نظام میں محاسبہ پر سب سے زیادہ توجہ ہونی چاہیے جس کا مطلب سخت آڈٹ اور جواب دہی ہے اورتحصیل اور ضلع کی سطح پر منصوبہ بندی کے نقائص بھی دور ہونے چاہئیں اور غیر ضروری سیاسی مداخلت کا راستہ بند ہونا چاہیے۔ صوبائی حکومتیں اگر نچلی سطح کی مقامی حکومتوں کے کام میں مداخلت نہیں کریں گی اور انہیں عوام کی بہتری کے لئے آزادانہ کام کرنے دیں گے تو یہ عمران خان کی حکمت عملی اور وژن کے عین مطابق ہوگی ۔ 
عمران خان کے نئے بلدیاتی نظام میں ارکان اسمبلی کے رشتہ داروں کو پارٹی ٹکٹ دینے سے گریز کرنا پڑے گا۔ بلدیاتی ٹیم کی سلیکشن موروثی بنیادوں سے ہٹ کی جائے گی ‘اس سے ضلع‘ تحصیل ‘ قصبوں چھوٹے شہروں اور دیہاتوں کی سطح پر سیاسی کارکنوں کی حوصلہ افزائی ہو گی ۔وزیر اعظم عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کے ہزاروں نوجوان ایسے ہیں جو بلدیاتی سسٹم میں کامیاب ہو کر بہت عمدہ سیاست دان بن سکتے ہیں ۔بلدیاتی اداروں کو کامیاب کرانے کے لئے اہم مشن یہ ہونا چاہیے کہ بلدیاتی اداروں کے لئے لیڈرشپ خویش نوازی کی بجائے صلاحیت کی بنیاد پر سامنے آئے ۔ہمارے ملک میں سیاسی ٹیلنٹ بہت ہے‘ مگر فطری صلاحیت رکھنے والے بہت سے نوجوانوں کی رسائی ان سیاسی راہنمائوں تک نہیں ہے‘ جن کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے ۔ عمران خان کی حکومت آنے کے بعد ان کے وزرا اور اسمبلی ارکان نے ملک کی بیورو کریسی میں مداخلت کرنا شروع کر دی ہے‘ جس سے بیورو کریسی میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے اور انہوں نے خفیہ حکمت عملی کے تحت وزیر اعظم کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے مخصوص انداز میں اپنا سنڈیکیٹ بنا لیاہے‘ جہاں پر روزانہ اپنے اپنے نوٹس کا تبادلہ کیا جاتا ہے کہ کس بیورو کریٹ نے اپنے کسی وزیر کو میڈیا میں نیچا دکھایا ہے اور وزیر اعظم کی بریفنگ کے دوران ان کے وزر ا کی قابلیت کا پول کھل رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی اعتراف کیا ہے کہ بیورو کریسی ارکان اسمبلی کی بات سننے کی بھی روادار نہیں ہے۔ بیورو کریسی ان کی نا اہلی سے فائدہ اٹھا رہی ہے‘ ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہونے سے الیکشن کمیشن کی ساکھ متاثر ہوگی‘ کیونکہ ضلعی اورتحصیل میئر کے براہ راست انتخابات سے ملک میں انتخابات کی ایسی لہر اٹھ کھڑی ہوگی جس کی دھند میں انتخابا ت میں دھاندلی ‘بے ضابطگی اور بے قاعدگیاں فطری عمل ہوگا ‘اور اگر بلدیاتی انتخا بات کو اپوزیشن نے مسترد کر دیا تو ملک میں افرا تفری پیدا ہونے کا امکان بھی ہے۔ الیکشن کمیشن کی پوری تیاری اور حکمت عملی اسی طرح سوالیہ نشان بن جائے گی جیسا کہ 25جولائی کو دیکھنے کو ملا‘ جب بین الاقوامی ادارے سے نادرا کا تیار کردہ آر ٹی ایس فلاپ ہو گیا اور ملک کے انتخا بات تنقید کی زد میں آ گئے اور اب 24رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینا پڑی جو انتخابات کا از سر نو جائزہ لے گی ۔ انتخابی بے قاعدگیو ں کی تحقیقاتی کمیٹی کو یہ جائزہ لینا ہوگا کہ فارم 45پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط نہیں ہیں ‘یہ الیکشن ایکٹ2017ء سے انحراف کے زمرے میں آتا ہے اور پارلیمانی کمیٹی کو دیکھنا ہوگا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے ۔بنیادی ذمہ داری تو الیکشن کمیشن کے تقرر کردہ پریزا ئڈنگ افسران کی تھی‘ جن کی تربیت پر یو این ڈی پی کے کروڑوں روپے خرچ ہوئے اور پریزائڈنگ افسران کے ارسال کردہ فارم 45 پر جب پولنگ ایجنٹوں کے دستخط نہیں تھے تو ریٹرننگ افسران نے پولنگ سٹاف سے باز پرس کیوں نہیں کی اور غیر مستند دستاویزات کی بنیاد پر حتمی رزلٹ کیسے جاری کر دیا ؟ الیکشن کمیشن کو بھی اس بے قاعدگی کا نوٹس لینا چاہیے تھا۔کمیٹی میں حکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی برابر کی گئی ہے لہٰذا پارلیمانی کمیٹی بڑے غو رو خوض کے بعد ہی اپنی رپورٹ مرتب کرے گی‘ کیونکہ صاف شفاف غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کی آئینی و قانونی ذمہ داری‘ نگران حکومت کی تھی لہٰذاپارلیمانی کمیٹی کو نگران حکومت کے وزرائے اعلیٰ اور نگران وزیر داخلہ کو بھی طلب کر کے ان کے بیانات ریکارڈ کرانے ہوں گے۔ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ اپنے کسی انٹرویو میں 25جولائی کے انتخابات پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیںان کو بھی پارلیمانی کمیٹی طلب کر کے ان کا بیان ریکارڈ کرائے ۔وزیر اعظم عمران خان کو ایسے وقت میں پارلیمانی کمیٹی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب پنجاب میں کمزور حکومت اور وفاقی حکومت کی کوئی پالیسی نہ ہونالمحۂ فکریہ ہے ۔انتظامی طور پر صوبہ پنجاب وفاقی حکومت کے ہاتھ سے نکل چکاہے ‘بیورو کریسی پر کسی کی کوئی گرفت نہیں ہے اوربیورو کریسی وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کا مذاق اڑا رہی ہے۔ ان حالات میں جب پارلیمانی کمیٹی پریزائڈنگ افسران کو طلب کرے گی تو الیکشن کے عملہ نے حیرت انگیز انکشافات کرنے ہیں۔مجھے الیکشن کمیشن کے ذمہ دار افسران نے بتایا کہ ایسے انکشافات سامنے آئیں گے‘ جس سے الیکشن کمیشن اور نادراکی کمزوریوں کے پول کھل جائیں گے اور الیکشن متنازعہ ہونے کے خدشات پیدا ہو جائیںگے ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں