"KDC" (space) message & send to 7575

جناب عمران خان اورتبدیلی کا اعلامیہ

صدر ایوب خان کی حکومت کی دس سالہ کار گزاری میں عوام کی حالت بہتر نہ ہونے اور ملک میں مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری سے پیدا ہونے والی بے چینی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں عوامی فلاحی ریاست کا پہلا نعرہ ذو الفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کے نام پر بلند کیا تھا۔ وہ فرسودہ جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے بجائے ملک میں ایسا نظام لانا چاہتے تھے جو اسلام اور سوشلزم کے اصولوں کی بنیاد پر 98 فیصد غریب اور متوسط طبقے کی سماجی اور معاشی حالت تبدیل کر ڈالے ۔ مسٹر ذو الفقار علی بھٹو کے ہم رکاب دوستوں میں جے اے رحیم ‘ڈاکٹر مبشر حسن ‘حنیف رامے ‘شیخ رشید اور ملک معراج خالد جیسے دانشور اورعوام دوست فلاسفر شامل تھے۔ان کی وجہ سے ہی مزدوروں ‘ کسانوں اور دوسرے پسے ہوئے طبقے میں یہ نعرہ بہت مقبول ہوا اور ملک کے اس حصے میں جو اس وقت مغربی پاکستان کہلاتا تھا‘ 7 دسمبر 1970ئکے عام انتخابات میں عوام نے انہیں نا قابل یقین فتح سے ہمکنار کیا ۔ ذو الفقار علی بھٹو اپنے مقصد میں اس لئے کامیاب نہ ہو سکے کہ انہوں نے اقتدار میں آ کر اپنے پرانے حریفوں کو جماعت میں اعلیٰ عہدوں پر نوازا۔ اب یہ سب تاریخ کا حصہ ہے‘ لیکن ایک بات سب جانتے ہیں کہ ذو الفقار علی بھٹو کی جدو جہد کے نتیجے میں غریب اور پسماندہ طبقے کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے شعور تو ملا‘ لیکن ملک کی سیاست پر جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا غلبہ ختم نہ ہو سکا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے خاتمے اور ناحق سزائے موت کے بعد غریب عوام کا یہ ترجمان گڑھی خدا بخش میں دفن ہو گیا۔ اس کے بعد جنرل ضیا الحق کے دور حکومت اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے آنے اور جانے والی حکومتوں کے منشور میں غریب عوام اور متوسط طبقے کے لئے کشش نہیں تھی؛چنانچہ دوسری بار حقیقی معنوں میں تبدیلی کا پروگرام کرکٹ سے شہرت پانے والے سیاست دان عمران خان لے کر آئے۔ انہوں نے تبدیلی کے ذریعے خوشحال پاکستان اور ذو الفقار علی بھٹو کے 'نیا پاکستان‘ کو حقیقی معنوں میں نیا پاکستان بنانے کا جو اعلان کیا‘ کرپشن کے خاتمے اور نواز خاندان کی حکومتی ایمپائر کے خاتمے کے سوا ‘اس میں کافی ابہام موجود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح انہیں کلین سویپ نہ مل سکا‘ لیکن وہ آزاد امیدواروں اور دیگر جماعتوں کے تعاون سے اسلام آباد اور پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو ئے ۔ خیبر پختونخوا میں‘ جہاں پہلے سے ان کی حکومت قائم تھی‘ عوام نے دوبارہ ان پر اعتماد کیا۔ اس پر امن اور جمہوری انتقال اقتدار سے عمران خان صاحب کا اصل امتحان شروع ہو گیا ہے۔انہوں نے اقتدار کے پہلے سو دنوں کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جو فیصلے کئے‘ ان سے اس تبدیلی کے خدو خال نمایاں ہونے لگے ہیں۔ ملک کا متوسط طبقہ عمران خان کی سیاست کا محور ہے‘ کیونکہ عمران خان نے ہمیشہ متوسط طبقے کے لئے سیاست کی۔ یہ طبقہ علم‘ صحت اور سکیورٹی کے موجودہ نظام سے مطمئن نہیں۔ عوام نے ان سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں کیونکہ عوام کی نظروں میں عمران خان صاحب کی شخصیت خود تبدیلی کا اعلامیہ ہے۔ عمران خان صاحب کو احساس ہے کہ متوسط طبقے کی محنت سے ہی وہ اقتدار میں آئے ہیں۔ یہ ایک حساس طبقہ ہے۔ یہ کسی پر اعتماد کرتا ہے تو اس سے اپنے اور آئندہ نسلوں کے خواب وابستہ کر لیتاہے ۔ یہ جہاں عوامی فلاح و بہبود کے چھوٹے چھوٹے کاموں پر خوش ہوتا ہے‘ وہاں زود رنج بھی ہے ‘توقعات پوری نہ ہونے پر جلد مایوس بھی ہو جاتا ہے۔ اس طبقے کو مطمئن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نچلی سطح پر سب سے زیادہ اقدامات کئے جائیں‘ اسے کرپٹ عناصر اور جرائم پیشہ گروہوں سے بچایا جائے‘ جو کرپشن کے خلاف مربوط مہم اور گڈ گورننس کے بغیر ممکن نہیں ۔عمران خان کے وزرا میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے خالی نعروں سے عمران خان اور عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سابقہ حکومت کے بیورو کریٹس کے پرانے اور فرسودہ پراجیکٹس ‘سرکاری سمری اور نوٹس کا سہارا لے کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں‘ ان میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ بیورو کریسی کے منہ زور گھوڑے کو قابو میں لا سکیں۔ 
وزیر اعظم عمران خان کے ان وزر ا کی کار کردگی اور ان کی صلاحیتوں کا اندازہ ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں ان کی چرب زبانی سے نہ لگائیں کہ یہ حقیقت کے بر عکس ہے۔ عمران خان کی حکومت کو عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کے لئے عملی اور نظر آنے والے اقدامات کرنا ہوں گے۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم کا پنڈورا بکس کھلنے سے اور قبل از وقت لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کرانے سے ملک میں انتخابی شر انگیزی کا ایسا طویل سلسلہ شروع ہو جائے گا‘ کہ عمران خان صاحب کا مستقبل کا ویژن اسی افرا تفری کا شکار ہو جائے گا اور ان کے پانچ سال اسی کشمکش میں گزر جائیں گے۔ مناسب ہو گا کہ لوکل گورنمنٹ کے لئے قانون سازی کا مرحلہ ان کی معیاد پوری ہونے پر آگے بڑھایا جائے اور اگلے سال شیڈول کے مطابق انتخابات نئے قوانین کے تحت کروائے جائیں ۔ 
وزیر اعظم عمران خان شروع سے یعنی 31اکتوبر 2011سے اس خیال کے اسیر ہیں کہ نواز شریف کے خاندان اور زرداری کی مبینہ بد عنوانی سے کمائی گئی دولت واپس لانے سے خوشحالی کا راستہ کھل جائے گا۔ عوام کے جذبے و ایثار اور کفایت شعاری کی مدد سے معاشی بحران دور ہو سکے گا۔ اب 50 دن گزر چکے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان نے بیرون ملک پاکستانیوں سے فی کس ایک ہزار ڈالر مانگا تھا۔ اب اس اعلامیے کو ایک ماہ گزر جانے کے باوجود کوئی ڈالر موصول نہیں ہوئے۔ایسے نعرے انتخابی مہم میںاستعمال کئے جاتے ہیںاور عمران خان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلانے کے باوجود ان سے ایک ڈالر بھی حاصل نہیں کر سکے ۔ ان کے دعوے زمین بوس ہو چکے ہیں۔ انہوں نے ایسے بیورو کریٹس پر مبنی ٹاسک فورس بنائی ہے‘ جن کو حقیقی معنوں میں عوام کے اور ریاستی اداروں کے معاشی مفاد کا ادراک نہیں۔ وہ ٹیلی ویژن پروگراموں میں ہاتھ ہلاتے نظر آتے ہیں‘ جن کی کوئی منطق ہی نظر نہیں آتی اور اینکر پرسنز کے سوالات کا جواب دینے کی ان میں صلاحیت ہی نہیں ہے۔ ان کے ناقص بیانیے کی وجہ سے عوام کے معاشی مفاد میں تصادم پیدا ہو گیا ہے۔ طاقتور رئیل اسٹیٹ کے اداروں کی معاشی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے جو سیاسی بساط بچھائی گئی‘ اور جو سماجی منظر مرتب کیا گیا‘ اس سے ملک کے اندر غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی‘ اوربیرونی دنیا میں ہمارے دوست ممالک شک و شبہ میں مبتلاہوگئے ہیں۔ ایک مستحکم جمہوریت میں ایک اوسط درجے کی قیادت سے کام چل سکتاہے ‘ لیکن پاکستان کو غیر معمولی قیادت کی ضرورت ہے ۔غیر معمولی قیادت محض پیشہ ورانہ مہارت اور سرکاری بیورو کریٹس کی تیار کردہ سمریوںکو نمٹانے کا معاملہ نہیں‘یہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کے مسائل سمجھنے اور حل کے لئے کارفرما سیاسی بصیرت کا نام ہے۔ اگر ہم سرے سے سیاسی عمل میں یقین نہیں رکھتے اور سیاسی قیادت کو بحیثیت مجموعی نا اہل‘ بد عنوانی اور نا قابل اعتماد سمجھتے ہیں تو ملک میں غیر معمولی بصیرت کی حامل موثر قیادت نہیں ابھر سکتی۔
وزیر اعظم عمران خان درجنوں ٹاسک فورسز کے قیام اور ان سے حاصل کردہ نتائج سے متوسط طبقوں کو ریلیف نہیں دے سکیں گے‘ کیونکہ ٹاسک فورسز کے ارکان ایلیٹ گھرانوں سے ہیں ان کو عوام کے دکھ کا مداوا کرنا نہیں آتا ۔اسی طرح سعودی عرب اور چین کی جانب سے بھی پاکستان کے عوام کے معاشی دکھوں کا حل کرنے کی توقع نہیں۔ سعودی عرب گلوبل ویلیج کی پالیسی کو اپناتے ہوئے اپنے مفادات کو سامنے رکھے گا۔ اب اسے پاکستان کی ایٹمی قوت سے سرو کار نہیں ہے کیونکہ اس کے اسرائیل سے گہرے تعلقات استوار ہو چکے ہیں۔ عمران خان گھر کی چار دیواری میں روحانیت کے دائرہ کار میں داخل ہو جاتے ہیں‘لہٰذا ان کی خدمت میں استدعا ہے کہ اپنے ارد گرد ساتھیوں پر غور کریں۔ ان کے دست راست پنجاب کے سینئر صوبائی وزیر عبد العلیم خان الیکشن کمیشن کے فیصلے کی زد میں آکر کریمنل ایکٹ کی زد میں آ گئے ہیں‘ اب ان کی وزارت اور صوبائی اسمبلی کی نشست ان سے دستبرداری کا تقاضا کر رہی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں