"KDC" (space) message & send to 7575

کیا پرویز مشرف کی واپسی کے لئے حالات سازگار ہیں؟

سابق صدر پرویز مشرف مشکلات کے گرداب میں ہیں‘وہ پچھلے چار سال سے خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور متعدد الزامات میں انہیں مقدمات کا سامنا ہے‘ 2014ء کے مقابلے میں ان کی صحت بھی تیزی سے گر رہی ہے ۔ان کو باعزت طریقہ سے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ پرویز مشرف کو مئی 2013ء کے انتخابات کے عمل سے باہر رکھنے میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا عمل دخل تھا۔ ان کے کاغذات نامزدگی کے فارم بعض حلقوں میں منظور کئے گئے تھے‘ لیکن پشاور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس نے تا حیا ت نااہل قرار دے کر قومی اسمبلی کے دروازے ان پر بند کر دئیے ۔ در اصل پرویز مشرف کے فعال اور با اثر دوستوں نے اپنے مفادات کے تحت پاکستان مسلم لیگ (ن )میں شمولیت اختیار کر لی اور اور احساس کمتری میں انہوں نے نواز شریف کو بھی قائل نہیں کیا کہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی سے انہیں کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہو سکے گا۔ پرویز مشرف جولائی 2018ء کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے بے چین تھے اور پاکستان آنے کے لئے متواتر اپنے حامیوں سے بیانات بھی دلواتے رہے‘ لیکن ہماری اطلاعات کے مطابق ان کو طاقتور حلقوں کی طرف سے پیغامات بھجوا دئیے گئے کہ اب نواز شریف کی تا حیات نا اہلی کے بعد ان کا پاکستان آنا ان کے لئے سود مند نہیں ہوگا‘ کیونکہ عدالتیں ان کے خلاف ایکشن لینے کیلئے آئین کا سہارا لیں گی۔
عمران خان کی حکومت بر سر اقتدار ہے‘ لیکن ان کے اپنے سیاسی مسائل ہیں اور اس موقع پر ان کے لئے نرم گوشہ رکھنے سے ان کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے‘ لہٰذا انہوں نے غیر جانبداری کی راہ اپنائی اور عسکری قیادت نے بھی پرویز مشرف کے معاملے سے دور رہنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے ۔سابق صدرپرویز مشرف کو سعودی شاہ عبداللہ کی رحلت سے بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچا ۔شاہ عبداللہ نے غالبا 2010ء میں نواز شریف کو جدہ بلا کر تاکید کی تھی کہ پرویز مشرف کے خلاف بیان بازی سے گریز کریں ۔ شاہ عبداللہ نے نواز شریف کے بارے میں جو خط پرویز مشرف کو لکھا تھا اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہوا خط ان کے ذاتی دوستوں کے پاس موجود ہے ‘ جس میں شاہ عبداللہ نے نواز شریف کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ ان کے خاندانی پس منظر کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد نئی سعودی قیادت نے شاہ عبداللہ کی پالیسیوں اور ان کے اہم ساتھیوںکو سبکدوش کر دیا ‘ بلکہ ان کو کرپشن کی زد میں لائے اور گرفتار بھی کئے گئے‘ اس لیے پرویز مشرف کو اب سعودی عرب سے سیاسی امداد حاصل نہیں ہے اور متحدہ عرب امارات کی حکومت بھی ان سے گرم جوشی سے اس لئے پیش نہیں آ رہی کہ ان کی سیاسی جماعت پاکستان میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی ہے ۔ پرویز مشرف جلا وطنی کے بعد اپنی جماعت کو فعال کر سکتے تھے‘ مگر اس صورت میں کہ پاکستان سے انہیں نمایاں شخصیات کا تعاون حاصل ہوتا ۔ پرویز مشرف در اصل بنگلہ دیش کے سابق صدر جنرل ارشاد کی پیروی کرنا چاہتے تھے۔ جنرل ارشاد بنگلہ دیش کی قید میں سات سال سے سزا بھگت رہے تھے تو ان کی جماعت انتخابات میں170سے زائد نشستیں حاصل کر کے اقتدار میں شریک ہوئی ۔ جنرل مشرف اپنی پارٹی کو مضبوط تو کرنا چاہتے تھے ‘لیکن ان میں مردم شناسی کا فقدان رہا اور سیاسی خانہ بدوش ان سے کروڑوں روپے لے کر فراڈ کرتے رہے ۔جب اکتوبر 2010ء میں جنرل مشرف اپنی سیاسی جماعت بنانے کے خواہاںتھے تو انہوں نے پاکستان کی قد آور سیاسی شخصیات کو دبئی مدعو کیا تھا۔یاد پڑتا ہے کہ اہم سیاسی شخصیات نے انہیں تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی ‘ مگر جب انہوں نے آل پاکستان مسلم لیگ کی بنیا درکھی تو ان کی جماعت میں ایسی شخصیات موجود تھیں جو با آسانی قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہو جاتے ‘میڈیا نے ان کا بھرپور ساتھ بھی دیا اور ملک کی رائے عامہ میں ان کی جماعت کو نمایاں پوزیشن دی گئی ‘ لیکن بعد کے حالات میں ان کے دوستوں نے اپنی جدا گانہ راہ اختیار کر لی اور ان کے اہم دوست اس وقت عمران خان کے دست راست بنے ہوئے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف سے ان دنوں میری بھی دبئی میں ملاقات ہوئی تھی ‘میں نے انہوں مشورہ دیا کہ انہوں نے دس سال تک ملک پر حکومت کی ہے لہٰذا انہیں ایوب خان کی راہ اپنانی چا ہیے ‘صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد انہوں نے خاموشی سے بڑے اطمینان سے زندگی گزاری ۔میں نے ان کو بتایا کہ صدر ایوب خان نے مجھے 1973ء میں بتایا تھا کہ جب ذو الفقار علی بھٹوکی پالیسیوں کی وجہ سے انتشار کی فضا پید اہو رہی تھی تو مجید نظامی ‘آغا شورش کاشمیری‘ پیر پگاڑا اور ملک قاسم نے ان سے ملاقات کر کے ان کو سیاست میں آنے کا پر زور مشورہ دیا ‘بلکہ استدعاکی ۔ صدر ایوب خان نے کہا کہ وہ گیارہ سال حکومت کر چکے ہیں اور اب ان کا سیاست میں آنے کا ارادہ نہیں۔ میں نے پرویز مشرف کو یہی مشورہ دیا کہ سیاست میں وہ کوئی خاص مقام حاصل نہیں کر پائیں گے ۔ میری پیش گوئی درست ثابت ہوئی ‘ان کے مفاد پرست دوستوں نے ان سے کروڑوں روپے اکٹھے کئے اور پارٹی سمٹ کر ڈاکٹر امجد تک محدود رہ گئی ۔ 
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پرویز مشرف کی واپسی سے متعلق جو حکم نامہ جاری کیا ہے ‘ اس میں انہیں مکمل سیکورٹی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے اور ہر ممکن طبی سہولیات فراہم کرنے کا بھی کہا گیا ہے ‘غالبا ًوہ اب بھی وطن واپسی سے پہلے اپنے حتمی فیصلے سے قبل اپنے دوست اور ساتھیوں کی جانب سے مثبت اشاروں کا انتظار کر رہے ہیں ۔ پرویز مشرف اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں چیف جسٹس میاںثاقب نثار صاحب نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ انہیں ملک واپسی پر گرفتار نہیں کیا جائے گا‘ مکمل سیکورٹی فراہم کی جائے گی او ر انہیں جیل کی بجائے ان کے گھر میں رکھا جائے گا۔وزیر اعظم عمران خان کو اس کیس سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے اور نواز شریف بھی اپنے مقدمات میں گھرے ہوئے ہیں‘ انہیں بھی پرویز مشرف سے کوئی سرو کار نہیں رہا اور ماضی کے برعکس موجودہ عسکری قیادت نے بھی پرویز مشرف کے معاملات سے خود کو کافی حد تک دور کر لیا ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ دائر کرنا نواز شریف کی ذاتی انا تھی۔ اس کے پس منظر میں ان پر آئین کے آ رٹیکل 6کے تحت مقدمہ دائر کرنے پر کوئی جاندار دلائل نہیں ہیں ۔ ان کو پاکستان واپس آ کر اپنے مقدمات کی جرأت مندانہ پیروی کرنا ہوگی ۔ موجودہ حکومت کی مکمل غیر جانبداری سے ان کو مکمل استفادہ کرنا چاہیے‘ کیونکہ ان کے لئے حالات سازگار ہیں ‘مارچ کے بعد شاید حالات نیا رخ اختیار کر لیں جب چیف جسٹس جناب ثاقب نثار ریٹائر ہو جائیں گے ۔
وفاقی حکومت غیر جانبدارانہ طریقے سے آئین کے آرٹیکل 6کے حوالے سے ان کے خلاف مقدمہ چلانے میں اس لئے بھی سنجیدہ نہیں ہوگی کہ زیر سماعت بہت اہمیت کے حامل فیصلوں کا پنڈوراباکس کھل جائے گا ‘کیونکہ 3نومبر 2007ء کی ایمرجنسی وزیر اعظم شوکت عزیز کی مشاورت سے لگائی گئی اور کور کمانڈرز کانفرنس کی بھی منظوری حاصل کی گئی تھی اور بعد ازاں اس وقت کی قومی اسمبلی نے ایمرجنسی کی توثیق کر دی تھی اور اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان عبد الحمید ڈوگر کی عدالت نے بھی ایمرجنسی کے نفاذ پر اپنی مہر ثبت کر دی تھی۔ لہٰذااعلیٰ عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران تمام حقائق سامنے آئیں گے اور چوہدری شجاعت حسین بڑی جرأت اور استقلال سے اس اہم ایشوپر ان کی پشت پر کھڑے ہیں‘ لہٰذاپرویز مشرف کھلے دل کے ساتھ پاکستان آئیں اور تمام تر حقائق قوم کے سامنے رکھیں کہ آخر کیا حالات پیدا ہو گئے تھے جب انہیں 3نومبر2007ء کو ایمر جنسی لگانی پڑی اور اسی ایمرجنسی میں انہوں نے 27نومبر 2007ء کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا تھا اور اسی ایمرجنسی کے دوران جبکہ آئین کی بعض شقیں معطل تھیں‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 22نومبر 2007کو الیکشن شیڈول جاری کیا تھا‘گویا ایمرجنسی کے سائے تلے الیکشن کا شیڈول جاری کیا گیا ‘ جسے بعد میں اٹھارہویں ترمیم میں اس کو قانونی جواز میں آئینی قرار دے دیا تھا۔ اب جنرل پرویز مشرف اپنے فعال وکلا کے ساتھ سپریم کورٹ میں پیش ہوں اور اپنا مقدمہ قوم کے سامنے پیش کریں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں