"KDC" (space) message & send to 7575

اقتصادی کونسل اور مزدور نمائندے

ماضی کی عمومی روایت کے بر عکس‘ ضمنی انتخابات میں پاکستان کے رائے دہندگان نے صرف حکمران جماعت کے امید واروں کو ووٹ دینے کی بجائے اپنی پسند کے نمائندوں کا انتخاب کیا اور عام انتخابات کی طرح ضمنی انتخابات میں بھی ووٹروں کا رجحان مناسب رہا۔ قومی اسمبلی میں جہاں اپوزیشن کی پارلیمانی قوت میں پانچ نشستوں کا اضافہ ہوا وہاں حکومتی پارٹی کو بھی مزید چھ نشستیں ملی ہیں اور اب تعداد 176سے بڑھ کر 182ہو چکی ہیں جبکہ اپوزیشن اتحاد کی قومی اسمبلی میں نشستیں اب 159سے بڑھ کر164ہو گئی ہیں۔ حکومتی اتحاد کو اب بھی 18نشستوں کی برتری حاصل ہے‘ جسے برقرار رکھنے کے لئے حکمران جماعت کو عوام سے کئے گئے وعدوںکو پورا کرنا ہوگا ‘ملک سے مہنگائی کا خاتمہ کرنا ہو گا اوربے روزگاروں کے لئے ملازمتیں پیدا کرنی ہوں گی۔روپے کی قدر کو مستحکم کرنے ‘ وزر اکی جانب سے غلط حقائق پر مبنی رپورٹس کے اجرا پر قدغن لگانے اور اپنے منصب پر ذمہ دارانہ بیانات دینے کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی ‘ نیز چھوٹی اتحادی پارٹیوں خصوصاً متحدہ قومی موومنٹ اور اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی سے معاہدوں کی پاسداری کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان کو اپنی کابینہ میں ایسے وزر ا کی تلاش کرنا ہوگی جو اپوزیشن کی اہم جماعت سے رابطے میں ہیں۔ایک اہم وزیر نے وزیر اعظم پاکستان کے منی لانڈرنگ کے حوالے سے اقدامات کے متعلق انفارمیشن متعلقہ فریق کو دے دی۔ وزیر اعظم عمران خان اس سازشی کردار کے اہم مہرے کو جانتے ہوںگے‘ ان کو چاہیے کہ حساس اداروں سے تحقیقات کروائیں اوراس سازشی گروہ کو قوم کے سامنے پیش کریں ‘قوم خود ہی اس کا حتساب کرے گی۔ اسی طرح ان کے بعض ساتھی‘ وزیر اعظم عمران خان کی پالیسیوں کو ناکام بنانے کے لئے میڈیا کے من پسند اینکرز کے ذریعے ان کے خلاف بد ظنی کی مہم چلا رہے ہیں۔ ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کو جو نقصان پہنچا ‘ اس کے پیچھے مہنگائی اوربے یقینی کے علاوہ کچھ سیاسی وجوہات بھی ہیں‘ جن کا اعتراف ہمایوں اختر خان اور طاہر صادق کھلے لفظوں میں کر چکے ہیں۔ حالات اسی طرح کے رہے تو عددی اعتبار سے چھوٹی سی اکثریت حکومت کے لیے کسی بھی وقت خطرے کی گھنٹی بجا سکتی ہے۔
پاکستان کی عمومی سیاست اصولوں اور نظریات سے زیادہ اقتدار کی غلام گردشوں کے گرد گھومتی ہے‘ اس لئے عوام اور اپنے اتحادیوں کو مطمئن رکھنے کے لئے حکومت کو تبدیلی کے ایجنڈے‘ گڈ گورننس‘ اقتصادی پروگرام اور چھوٹی جماعتوں کے عوامی نوعیت کے مطالبات پر سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔ عام انتخابات کے مقابلے میں ضمنی انتخا بات میں ووٹروں کا ٹرن آئوٹ بہت کم رہا یعنی 28 فیصد سے بھی کم ۔ بعض علاقوں میں خواتین نے بہت کم ووٹ ڈالے جو تشویشناک امر ہے ۔ راولپنڈی کی نشست این اے 60 میں راشد شفیق اور جہلم کی صوبائی نشست کے نتائج ووٹروں کی از سر نو گنتی کے مرحلے میں تبدیل ہو نے کے امکانات بھی ظاہر کئے گئے ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنی ٹیکنیکل ٹیم کی بدولت اوور سیز پاکستانیوں کو بھی ووٹ ڈلوانے میں کامیاب ہو گیا ہے اور چھ ہزار سے زائد بیرون ممالک پاکستانیوں نے یہ حق استعمال کیا‘ جس کے لیے دس کروڑ کے اخراجات الیکشن کمیشن کو اٹھانا پڑے۔ عام انتخابات میں ووٹروں نے کسی بھی پارٹی کو واضح مینڈیٹ نہیں دیا‘ یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعت کو حکومت سازی کے لئے آزاد ارکان اور چھوٹی پارٹیوں پر انحصار کرنا پڑا۔ وزیر اعظم عمران خان کی ایک خوبی ایسی ہے جس کی وجہ سے عوام ان پر فی الحال اعتماد کر رہے ہیں اور وہ ہے امانت داری اور نیک نیتی۔ حلقہ 131میں ہمایوں اختر خان اپنی کاوش سے پچاس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں اس لئے کامیاب ہوئے کہ وہ غریب پرور ہیں۔ انہوں نے ماضی میں ان حلقوں میں تعمیراتی پروگرام اپنے فنڈز سے کروائے لیکن حیرت اس پر ہے کہ عمران خان نے لاہور سے جن 9خواتین کو خصوصی نشستوںپر قومی اسمبلی کا رکن بنوایا ان میں سے سات کا تعلق اس حلقہ 131سے تھا۔ یہ خواتین الیکشن مہم میں گرم جوشی سے کام کرنے کی بجائے اپنی گھریلو مصروفیات میں مگن رہیں سوائے سیما انور کے ‘جنہوں نے حلقہ 131اورحلقہ 124 کے پولنگ ایجنٹس کو تربیت دینے میں رات دن صرف کئے ۔عمران خان جیسا لیڈر ایسے نا اہل کارکنوں سے کیسے آئندہ الیکشن میں کا میابی حاصل کر سکے گا ؟ عمران خان کو داخلی تضادات کا خاتمہ کرنا ہوگا ورنہ یہ مرض پھیلتاجائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان کو تاریخ کا گہرا ادراک ہے‘ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اکثر کامیاب حکمرانوں کی کامیابی کا راز حکمرانوں کی اپنی شخصیت پر بے حد اعتماد اورغیر متزلزل عزم میں مضمر ہوتا ہے ‘اور عمران خان خود بھی اس خوبی سے مالا مال ہیں۔ انہیں قوم کی لوٹی گئی دولت کو ملک میں واپس لانے کے لئے اپنے وزر ا پر بھی نگاہ رکھنا ہوگی‘ کیونکہ اپنے اقتدار کے دوام کے لئے بیرونِ ممالک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانا بہت اہم ہے اور جووزر ا اور بیو رو کریٹ اس راہ میں بھاری رکاوٹ ہیں‘ ان کو برطرف کرنا ہوگا۔ کامیاب سیاستدان اور حکمران کم بولتا ہے‘ غیر ضروری میڈیاملاقاتیں نہیں کرتا اور یوں تاثر دیتا ہے جیسے وہ ہمہ وقت کام ‘منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی تیاری میں مصروف رہتا ہے۔ وزیر اعظم صاحب لوکل گورنمنٹ سسٹم تبدیل کرنا چاہتے ہیں ‘ اور شنید ہے کہ اگلے سال کے اوائل میں پنجاب کا لوکل گورنمنٹ سسٹم تحلیل کر دیا جائے گا‘ یوں ملک میں لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کی بہار کے پھول کھلنا شروع ہو جائیں گے۔ پنجاب میں میئر ‘ ڈپٹی میئر کے انتخابات براہ راست کروانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے ‘تاہم موجودہ سیاسی محاذ آرائی کے ماحول میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات میں میئر کے انتخابات براہ راست کروانے کا فیصلہ کیا گیا تو تحریک انصاف کی حکومت موجودہ حالات میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اس طرح پنجاب کے کئی اضلاع کی میئر شپ ان کے ہاتھ سے نکل جانے کا امکان ہے‘ کیونکہ میرے خیال میں ان کے وزر ا محلاتی سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں۔
عمران خان نے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے لئے ہائوسنگ اتھارٹی بھی بنا دی ہے ۔اس منصوبے کی لاگت میں سے حکومت کچھ بھی اپنے پاس سے خرچ نہیں کرے گی بلکہ یہ ہدف نجی شعبے کے اشتراک سے حاصل کیا جائے گا ۔ نجی تعمیراتی کمپنی گھر تعمیر کرے گی اور گھر گروی رکھ کر نجی بینک قرض دیں گے‘ جس کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے 20بینکوں پر مشتمل کنسورشیم بھی بنادیا ہے ‘یوں آسان اقساط پر غریب عوام کو گھر میسر آجائیں گے۔ اس حوالے سے ترقی یافتہ ممالک میں نافذالعمل مورگیج ماڈل پیش کیا جا رہاہے‘ مگر ان ممالک میں شرح سود زیادہ سے زیادہ 4.5فیصد ہے ۔ بینک آف انگلینڈ نے گزشتہ دس سال میں دو بار شرح سود میں اضافہ کیا‘ مگر ہمارے ہاں 1998ء سے ہر دو ماہ بعد مانیٹری پالیسی تبدیل ہوتی ہے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان نے سود کی شرح 8.5فیصد مقرر کی ہے‘ جبکہ سیونگ سکیموں کا منافع ہر تیسرے ماہ کم کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف کے دورِ حکومت میں شرح منافع18 فیصد تھی‘ بعد میں ان کے مالیاتی ماہرین نے شرح منافع 12فیصد کر دی۔ وزیر اعظم شوکت عزیز نے شرح منافع چھ فیصد کر کے ریئل اسٹیٹ کو فروغ دیا اور دبئی میں پاکستانیوں کے لئے جائیدادیں خریدنے کے لئے راہ ہموار کر دی تھی ۔اس رہائشی منصوبے کے تحت ایک دو کمرے کے فلیٹ کی تعمیر میں 15لاکھ روپے خرچ آئے گا اور ڈیڑھ لاکھ ادائیگی کرناہوگی اور ساڑھے تین لاکھ بینک قرضہ دے گا‘ جس پر ماہانہ 12ہزار روپے قسط ادا کرنا ہوگی۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو غریب عوام کی حالت کا ادراک ہی نہیں ہے۔ اقتصادی کونسل کے ارکان کا تعلق پاکستان کی اعلیٰ اشرافیہ سے ہے اور گوگل سے استفادہ کرتے ہوئے منصوبہ سازی کی جا رہی ہے۔ قومی اقتصادی کونسل میں کسانوں ‘مزدوروں‘ یونیورسٹیز کے اعلیٰ پائے کے پروفیسر صاحبان ‘ریلوے یونین اور سندھ کے ہاریوں کو شامل کیا جائے‘ تاکہ وزیر اعظم عمران خان کا غریب پروری کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں