"KDC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم عدالتی ریمارکس پرتوجہ دیں

انڈین لابسٹ پر مبنی چند میڈیا پرسنز کو ہنستی مسکراتی قوم اچھی نہیں لگتی اور قوم کے چہرے پر اداسی اور مایوسی کا جال پھیلانا ان کا مشن ہے‘ جیسا کہ کسی وقت میں سوویت یونین کے فلسفے کو اجاگر کر رہے تھے۔ یہ کام ان کے دانشور 1950ء سے کیا کرتے تھے اور یہی وطیرہ ان کی اصل کامیابی تھا۔ سوویت یونین کے سقوط کے بعد یہی دانشور امریکی کیمپ میں چلے گئے اور امریکہ اور بعض یورپی ایجنسیوں کا حصہ بننے کے لئے میڈیا ہائوسز اور غیر ملکی این جی اوز کا حصہ بن گئے ۔ انہیں سی آئی اے جیسے ادارے فنڈز دیتے اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور خاص مو اقع پر ان اداروں کو سی آئی اے جیسی طاقتور ایجنسیاں مخصوص نکتہ نظر پھیلانے یا پاکستانی عوام کے حوصلے پست کرنے کے لئے استعمال بھی کرتی ہیں ۔ اسی تناظر میں وفاقی حکومت نے سینکڑوں غیر ملکی این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ کر رکھی ہے اور اس کا کریڈٹ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو جاتا ہے اور موجودہ حکومت نے بھی اسی پالیسی کو برقرار رکھا ہے ۔ ہمارے سو ویت یونین کے مراعات یافتہ دانشوروں نے بھی ملک کی اساس کو متنازعہ بنانے کی سعی کی اور یہ سلسلہ 1985ء تک جاری رہا۔ اب سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کوچھ ارب ڈالر کی امداد ملنے سے پاکستان معاشی گرداب سے نکل رہا ہے‘ تو یہی میڈیا ہائوسز عوام میں بے دلی پھیلانے کے لئے قوم کو یقین دلا رہے ہیں کہ سعودی حکومت نے پاکستان سے ان دیکھے مطالبات کئے ہوں گے اور ہمیں سعودی حکومت کے اس امدادکی قیمت بلوچستان کی معدنی ذخائر سے دستبرداری کی صورت میں چکانا پڑے گی ۔ پاکستان اپنی تاریخ کے جس بڑے معاشی بحران سے دوچار ہے ‘اس میں سعودی عرب کی طرف سے توازن ادائیگی میں مدد دینے کے لئے تین ارب ڈالر سٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کرانے‘ تیل کی در آمد کے لئے تین ارب ڈالر کی ایک سال کے لئے مؤخر ادائیگی کی سہولت دینے اور اس کے تین سال تک جاری رہنے پر رضا مندی کا اظہار بہت بڑی رعایت ہے‘ جس کے بعد دیوالیہ پن کا خطرہ نہ صرف بڑی حد تک ٹل گیا ہے‘ بلکہ ترقی کی طرف بڑھنے کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کے ویژن کو گہنانے میں ان کے وزرا ہی کافی ہیں‘ ان کی موجودگی میں اپوزیشن کو زیادہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں‘ جبکہ جمہوری نظام والے ممالک میں حکمران اپنی پالیسیوں اور اقدامات پر عوام کو اعتماد میں لینے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور حکومت کی تعمیری اور ترقی پسندانہ پالیسی کو عوام کی نظروں میں مشکوک بنانے میں حکومتی مشیران کا بڑا دخل رہا ہے ۔ صدر ایوب خان کے زوال میں وزارت اطلا عات و نشریات و قومی ورثہ کا بڑ اعمل دخل رہا اور ان کے با اثر سیکر ٹری اطلاعات و نشریات الطاف گوہر اپوزیشن کی شدید تنقید کی زد میں رہے ۔ 
امریکہ میں صد ر کا ہفتہ وار ریڈیو خطاب ایک معمول ہے‘ پاکستان میں صدر ایوب خان اور ان کے گورنروں نے ماہانہ خطاب کی روایت طویل عرصے بر قرار رکھی ‘پارلیمانی جمہوری ملکوں میں وزیر اعظم کی پارلیمان میں موجودگی کو جمہوری روایات کے استحکام کی علامت کے طور پر دیکھاجا تا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ وہ براہ راست خطاب کی صورت میں قوم کو حالات ِحاضرہ اور حکومتی اقدامات کے بارے میں آگا ہ کرتے رہیں اورریڈیو پاکستان اور اس کی شاخوں کو فعال کریں‘ جو ملک کی 90فیصد آبادی تک مؤثر پیغام پہنچانے کا ذریعہ ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان یمن میں حوثی باغیوں اور سعودی عرب کی زیر قیادت بین الاقوامی قومی اتحاد کے درمیان جاری جنگ میں ثالث بننے سے گریز کریں‘ کیونکہ موجودہ قیادت میں ذو الفقار علی بھٹو جیسی متحرک اور کرشماتی شخصیت کا فقدان ہے اور وزیر اعظم عمران خان تاریخ سے زیادہ ادراک نہیں رکھتے اور جمال عبد الناصر ‘یاسر عرفات ‘شاہ حسین آف اردن ‘ شاہ فیصل ‘کرنل قذافی ‘صدر ایوب خان اور صدر صدام جیسے قائد بھی زمین بوس ہو چکے ہیں اور عرب قیادت نوجوان پرنس سلمان کے ہاتھو ں میں چلی گئی ہے اور پرنس آف سعودیہ اس وقت خاندان کی سیاست میں شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو احساس ہونا چاہئے کہ یمن کے باغیوں کی لڑائی اس لئے حساس ہے کہ ان کی پشت پر ایران ہے اور دوسری طرف سعودی عرب‘ اور دونوں ہی مشکل میں ہمارے ساتھی رہے ہیں ۔ قرائن سے لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ثالثی کا جو عندیہ دیا ہے‘ اس سے قبل سعودی عرب کی قیادت کو اعتماد میں لیا ہوگا۔ خوش قسمتی سے اگر عمران خان ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ تو اس سے مسلم دنیا کا اتحاد مضبوط ہوگا۔ بظاہر یہ کام مشکل نظر آتا ہے ‘لیکن اگر عمران خان دیگر ممالک سے رابطوں کے ذریعے اس مشن میں کامیاب رہے تو یہ عالم اسلام کی ایک غیر معمولی خدمت ہوگی ۔اس عظیم مقصد کے لئے عمران خان کو اپنی کچن کیبنٹ میں اس سوچ کے حامی دوستوں کو آگے لانا ہوگا ۔
حکومت کے بیشتر وزرا ‘ بیورو کریٹس اور مشیر قومی احتساب بیورو کے ریڈار پر ہیں ۔ان کو فارغ کرنا ہوگا‘ تاکہ اپوزیشن کے لئے بھرپور جواب مل سکے۔ ملک اس وقت جس بد ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے‘ اس پر قابو پانے کے لئے وزیر اعظم عمران خان اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود ان موجودہ ٹیم سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر پائیں گے‘ کیونکہ ان کے وزرا ‘مشیر اور کلیدی عہدوں پر فائز بیورو کریسی نیب میں ابتدائی انکوائری کی زد میں ہے‘ جس سے نفسیاتی طور پر یہ وزر ا اور بیورو کریٹس قابل قدر خدمات انجام دینے کے لئے اہل نہیں رہے اور ان کا ما تحت عملہ ان سے تعاون کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہا ہے ۔ سیاسی اُتار چڑھائو پر وزیر اعظم عمران خان کی توجہ ان امور پر نہیں گئی ۔حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی میں ایم کیو ایم کی سیاسی بالا دستی کو کسی حد تک قائم کر دیاہے ۔کراچی کے عوام کو ایم کیو ایم کا سیاسی متبادل مل گیاہے‘ سیاسی تناظر میں ایم کیو ایم کو اپنی بقا کے لئے اس وقت سب سے بڑ اخطرہ تحریک انصاف سے ہے ۔عام فہم سیاسی ذہن رکھنے والے کو بھی ادراک ہے کہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کا اتحاد ایم کیو ایم کے لئے زہر قاتل اور تحریک انصاف کے لئے جمہوری زندگی ہے ۔ایم کیو ایم خود تو زہر پی رہی ہے اور تحریک انصاف کو زندگی بخش رہی ہے اور اقتدار کا لالچ انہیں اپنی موت کی طرف لے جا رہاہے ۔ ڈاکٹر فاروق ستاراپنی سیاسی قوت سے محروم ہو چکے ہیں‘ عامر لیاقت کی نشست پر بھی خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے‘مگر موجودہ حالات میں ڈاکٹر فروغ نسیم عمران خان کے لئے آئینی ‘ قانونی اور سیاسی طور پر ایک سرمایہ ہیں ۔ ان کی خدمات بر قرار رہیں گی۔ ڈاکٹر فروغ نسیم ان دنوں اہم آئینی امور پر کام کر رہے ہیں ۔
آصف علی زر داری کرپشن کے مقدمات سے گھبر اکر عمران خان کے سامنے سرنگوں ہوگئے ہیں۔ ان کی پارٹی میں تقریبا 35کے لگ بھگ ارکان قومی اسمبلی آصف علی زر داری سے علیحدگی اختیار کر کے اپنا گروپ تشکیل دے رہے ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق آصف علی زرداری ہی پیپلز پارٹی پارلیمنیئر ین کے چیئرمین ہیں ‘جبکہ بلاول بھٹو ا ن کی پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کا پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں کوئی وجود نہیں ہے ۔الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 203(3) کے تحت بلاول بطور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کے پاکستان پارلیمنٹیئرین پارٹی کے رکن بننے کے اہل نہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کواس ابہام کے ازالے کے لئے وضاحت کرنی چاہئے‘ اس اہم قانونی نکتے کی وضاحت کے لئے سید اقتدار حیدر قریباً چار سال سے عدالتوں کے چکر لگارہے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی ان کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا ۔ سید اقتدار حید‘ امریکی شہری ہیں اور پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے مدو جزر پر ان کی بڑی نگاہ ہے۔ انہوں نے مریم نواز کے ٹائٹل کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور اس کے بعد سرکاری طور پر بھی اور عدالتی فیصلوں کے بعد بھی مریم صفدر کاہی نام لکھا گیا اور نام کی درستگی بھی سید اقتدار حیدر نے ہی کرائی تھی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں