"KDC" (space) message & send to 7575

شریف برادران کا سیاسی سورج غروب ہو چکا

ماضی میں با اختیار رہنے والی حکومتی شخصیات کے گرد گھیرا تنگ ہو چکا ہے‘ اس کا اندازہ ان کی سراسیمگی سے کیا جا سکتا ہے۔ان شخصیات کو خود بھی پوری طرح اندازہ بلکہ ادراک ہے کہ انہوں نے جس انداز سے حکومتی اختیارات کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے جو غیر قانونی ‘غیر آئینی حتیٰ کہ غیر اخلاقی حربے استعمال کئے‘ وہ کچھ تو منظر عام پر آ چکے ہیں اور کچھ آنے والے ہیں ۔ در اصل ان شخصیات کے بارے میں تحقیقات کا عمل ریاستی اداروں نے کئی سال قبل شروع کر دیا تھا‘ جس کے حیران کن اور ناقابل تردید شواہد کی فراہمی میں خود ان شخصیات کے رفقا ‘ جنہیں یہ اپنا انتہائی قابل اعتماد سمجھتے تھے‘ نے وعدہ معاف گواہ کی حیثیت سے اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے ایان علی‘ عزیر بلوچ اور پنجاب کے اہم بیو رو کریٹس یا پھر اس وقت عمران حکومت میں شامل بعض شخصیات قابل ذکر ہیں۔ پاکستان کے قیام میں سائوتھ ایشیا کی غیر معمولی سکیورٹی کو مد نظر رکھاگیاتھا اور سوویت یونین کی اشتراکی یلغار کو روکنے کے لئے متحدہ انڈیاکو تقسیم کر نے کا بھی اہم مقصد تھا تاکہ چین کو لداخ اورتبت کے لئے آگے بڑھنے سے روک دیا جائے اور درمیان میں ایسی مسلم ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جو اشتراکیت کے سامنے آہنی دیوار کی حیثیت اختیار کر ے اور اشتراکی لہر کو طورخم سے آگے بڑھنے نہ دیا جائے‘ لہٰذا پاکستان کی قسمت کا فیصلہ ان بڑی طاقتوں کی مرہون منت ہے‘ جنہوں نے قیام پاکستان کے لئے برطانوی حکومت پر شدید دبائو ڈالا تھا کہ مسلم ریاست کا قیام بین الاقوامی امن کے لئے بہت ضروری ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کے جو حکمران اقتدار میں آئے‘ ان کی پشت پر انہی بڑی طاقتوں کا سایہ رہا اور ملک میں انتشار‘خلفشار ‘اضطراب اور نفرت پھیلانے کی منصوبہ بندی بھی انہی پوشیدہ ہاتھو ں کے ذریعے جاری و ساری ہے ۔
تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام بنانے میں بیورو کریسی کا اہم کردار کھل کر سامنے آ رہاہے اور ابتدا وفاقی وزیر اعظم سواتی کے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام سے ہو چکی ہے۔ ان کے مالی معاملات اور اثاثوں کی چھان بین بھی شروع ہو چکی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک ‘جو وزیر اعظم عمران خان کے بہت ہی قریبی ساتھی ہیں‘ کے خلاف بھی تحقیقات شروع ہو گئی ہیں۔ اسی تناظر میں چونکہ صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو پر اعتماد استحکام حاصل نہیں‘ لہٰذا وہاں تحریک انصاف کے کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی موخر کی جا رہی ہے‘ لیکن سیاسی لوگ‘ خواہ وہ حکومت میں شامل ہیں یا حکومت سے باہر‘ ان کے خلاف کارروائی لازمی ہونا ہے ۔ قومی احتساب بیورو نے 25سے زائد ہائی پروفائل کیسز کی فہرست شائع کر دی ہے‘ جس میں کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں کے ان راہنمائوں کے نام شامل ہیں جن کے خلاف قومی احتساب بیورو تحقیقات کروا رہا ہے اور ان میں وہ سرکاری حکام بھی شامل ہیں جنہیں اعلیٰ شخصیات کی سر پرستی حاصل رہی ۔ 
تحریک انصاف میں اندرونی اختلافات کاظہور شروع ہو چکا ہے اور چوہدری پرویز الٰہی کی اقامت گاہ پر ملاقات کی جو ویڈیو لیک ہوئی اس کے گہرے اثرات سامنے آنے والے ہیں ‘کیونکہ مارچ کے بعد پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کی تبدیلی کے امکانات پائے جاتے ہیں ۔ اس وقت تک شریف برادران کی ' پارٹی ‘کا مکمل صفایا ہو جائے گا‘ مسلم لیگ ن کی قد آور شخصیات احتساب کی زد میں آچکی ہوں گی اور باقی ماندہ ارکان اپنے صحیح حقیقی ویژن کی طرف لوٹ جائیں گے‘ یعنی پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لیں گے اور قانونی طور پر پاکستان مسلم لیگ ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہے‘ جس کے سر براہ چوہدری شجاعت حسین ہیں۔ یوں چوہدری شجاعت حسین ہی مسلم لیگ ن کے ارکان کے لئے برگد کا سایہ دار شجر ثابت ہوں گے اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ کی حکومت ہو گی۔ آئینی اور قانونی طور پر ان پر آئین کے آرٹیکل 63(۱) کی قدغن بھی نہیں ہو گی اور الیکشن ایکٹ 2015ء کے تحت دونوں سیاسی جماعتوں کا اتحاد قائم ہو جائے گا جس کی آڑ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پار لیمنٹیرین فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک پرچم تلے اکٹھے ہو گئی ہیں۔ آئندہ چند مہینوں میں پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت نظر نہیں آ رہی ہے اور چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے آئندہ وزیر اعلیٰ نظر آ رہے ہیں ۔ اس جانب پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں کہ بین الاقوامی تناظر میں یہی منصوبہ بندی ہماری غیر مرئی طاقتوں نے 2018ء کے انتخابات کے لئے مرتب کی تھی اور الیکشن کمیشن اور نادرا کا تیار کردہ رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم بھی اسی لئے بحران کا شکار ہوا ‘ جس کی ڈور نادرا کے کنٹرول روم سے ہلتی رہی ہے اور پارلیمانی الیکشن کمیشن کو وسیع تر اختیارات تفویض کئے گئے تو بین الاقوامی منصوبہ بندی کا شکار کھل کر سامنے آ جائے گا۔ اگر پنجاب میں مسلم لیگ کا منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر تحریک انصاف کے پنجاب اسمبلی کے ارکان کا جنوبی پنجاب کا گروپ بھی علیحدہ ہو جائے گا ‘ وفاق میں بھی تحریک انصاف کو حکومت کرنا مشکل جائے ہو گا اور دسمبر 2018ء کے آخری ہفتے میں ملک میں اعلیٰ سطح کے اہم فیصلوں کے امکانات موجود ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی بیورو کریسی سے بھی ناچاقی شروع ہو چکی ہے ‘ اہم مشاورت کا سلسلہ بھی عنقا ہے اور ان کے سازشی لمحات سے آگاہ کرنے کے لئے بھی ان کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں اور ان کو ایک طرح سے ایوان وزیر اعظم میں یر غمال بنا دیا گیا ہے ۔ 
عمران خان کو سیاسی کنویں سے باہر آنے کے لئے ماہرین کی آر ا سے فائدہ اٹھا کر قابل اعتماد اور باصلاحیت افراد سے استفادہ کرتے ہوئے خود اپنی ٹیم کی راہنمائی کرنا ہوگی ‘کیونکہ مشورے اور گہری سوچ کے بغیر اہم فیصلے کرنا نا پختگی ہے اور اس سے زیادہ ناپختگی یہ ہے کہ فیصلوں کا قبل از وقت اعلان کر دیا جائے۔ یہ فرمودات ایڈمنسٹریشن اور گڈ گورننس کے اصولوں کے خلاف ہی نہیںبلکہ فیصلہ سازی اور مشاوت کے اصول کے بھی خلاف ہے ۔ہر معاملے پر اعلانیہ اظہارِ خیال اس حکومت کا طرز عمل اور معمول کا حصہ بنتا جا رہا ہے ‘ ڈپلو میسی خاموشی کا نام ہے۔ بھارتی جارحیت کے مقابلے میں چین کی فوجی امداد کی ضرورت آن پڑی تھی تو صدر ایوب خان نے 10 دسمبر 1965ء کو چین کا خفیہ دورہ کیاتھا مگر برسوں تک صدر ایوب خان کے اس دورے کا کسی کو علم نہ ہو سکا۔اس خفیہ دورے کا انکشاف ان کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد ہوا تھا۔ ڈپلو میسی کے لئے صدر ٹرمپ کی ناکام حکمتِ عملی کے تحت ٹویٹر کا طریقہ کار نہ اپنایا جائے ۔
وزیر اعظم عمران خان کے سو دنوں میں احتساب کے بارے میں پالیسی خوش آئند ہے اور انہوں نے احتساب کو ووٹروں کی عزت افزائی کے طور پر اپنانے کا جرأت مندانہ اعلامیہ جاری کیا ہے کہ احتساب سے انحراف ووٹروں سے غداری کے مترادف ہے۔ ان کی ٹیم کی نا پختگی کے باوجود عوام ان کے نعرے کی پشت پر کھڑے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کے ان تمام اندرونی خدشات اور پنجاب حکومت کو محفوظ راستے پر لانے کے لئے ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی کہ تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت بر قرار رہے‘ لیکن اگر ابر آلود دھند کے پردے کے پیچھے جھانک کر دیکھاجائے تو شریف برادران کا سورج غروب ہو چکا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں