"KDC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم عمران خان کو اقتصادی ایمر جنسی نافذ کرنا ہوگی

سینیٹ کی دو نشستوں پر حالیہ ا نتخابات میں تحریک انصاف کا معمولی مارجن سے کامیاب ہونا وزیر اعظم عمران خان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 191ہے ‘تحریک انصاف کے امید واروں کو تعداد سے کم ووٹ ملنا‘ پنجاب حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے‘ کیونکہ ولید اقبال اور سیمی ایزدی نے با لترتیب 183 اور 184ووٹ حاصل کئے‘ جبکہ اپوزیشن کے مسعود مجید اور سائرہ افضل تارڑ کو 176اور175ووٹ ملے ۔یہ امر بھی حیران کن ہے کہ جنرل نشست پر نوووٹ مسترد ہوئے‘ جن کا تعلق تحریک انصاف سے تھا اور ان میں زیادہ تر خواتین ارکان اسمبلی تھیں۔ووٹوں کے مسترد ہونے کو ارکان کی لا علمی یا غلطی کہنابھی درست نہیں ہے۔ان ناراض ارکانِ اسمبلی نے حکومت کو ان کے تحفظات دور کرنے کا پیغام دیا ہے ۔ حقیقی جمہوری معاشرے میں ایک سیٹ کی بر تری کی بنا پر حکومتیں معینہ مدتیں پوری کر جاتی ہیں۔ 2006ء میں کینیڈا میں ایک ووٹ کی برتری سے حکمران جماعت نے اپنی مدت پوری کی‘ جبکہ خطرے کی گھنٹی کو بھانپتے ہوئے الیکشن کمیشن آف کینیڈا نے ہنگامی طور پر الیکشن کرانے کی تیاریاں مکمل کررکھی تھیں‘ کیونکہ کینیڈا کے الیکشن ایکٹ کے تحت اسمبلی کی تحلیل کے بعد 28دنوں میں الیکشن کرانے کی آئینی ذمہ داری ہے ۔ ہمارے ہاں ابھی ایسی روایات پختہ نہیں ہو سکیں ۔چوہدری پرویز الٰہی کے انتخابات کے موقع پر اپوزیشن کے ارکان نے حکومتی امید وار کو ووٹ دیا۔ ارکان کا پارٹی کی قیادت کے رویے سے مطمئن ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ 18ویں ترمیم کے تحت ارکان پارٹی لیڈر کے فکر و فلسفے سے اختلافات کرنے پر ڈی سیٹ ہو سکتے ہیں ‘البتہ خفیہ بیلٹ میں دبک کر احتجاج ضرور ریکارڈ کرا دیتے ہیں ۔ ایسے ممبران کی تلاشی ممکن نہیں ‘لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران جماعت کی قیادت اپنے رویے میں تبدیلی لائے ۔تحریک انصاف میں کئی عقل و شعور رکھنے والے تجربہ کار سیاست دان موجود ہیں۔ ان کو بھی چاہئے کہ اپنی پارٹی‘ پارلیمان اور کابینہ میٹنگ میں اس رویے کے خاتمے پر زور دیں اور ایک منفی عوامی تاثر جو پیدا ہوا ہے اس کا زالہ بہت ضروری ہے۔
ملک کے سیاسی مدو جزر درست سمت میں نہیں جا رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں جب پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 13ارب ڈالر سے نیچے آ گئے ہیں جو دو ماہ کی ضروریات کو بھی پورا نہیں کر سکتے ‘وزیر اعظم عمران خان کے دوست ممالک کے دورے کافی حد تک ملک کی اقتصادی مشکلات دور کرنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔پہلے انہوں نے سعودی عرب کا دورہ کیا‘ جس سے تقریبا ً 3ارب ڈالر کا پیکج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے‘ اس معاملہ میں پاکستان میں سعودی سفیر سعید المالکی پیش پیش رہے‘ جن کی حسن ِکار کردگی پر شاہ سلمان نے انہیں سعودی و زیر کا مرتبہ دیاہے۔ سعودی سفیر نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی اور عوام ‘ پارلیمنٹ اور میڈیا میں سعودی معاشی امداد کے حوالے سے پیدا شدہ عدم اعتماد اور کنفیوژن کا ازالہ کر دیا ۔ بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹوں کا جائزہ لیاجائے تو محمد بن سلمان کو اگرچہ مشکلات کا سامنا ہے اور چند مہینوں تک یہ مشکلات برقرار رہ سکتی ہیں‘ مگر سعودی بادشاہت اور آل سعود کو اقتدار کا ہرگز اندیشہ نہیں ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان جب سعودی ولی عہد سے ریاض میں ملے تو پرنس محمد بن سلمان نے ذاتی محبت کے اظہار کے لئے وزیر اعظم کو chopardگھڑی تحفے میں دی‘ جس کی قیمت ایک کروڑ 65لاکھ روپے ہے ۔وزیر اعظم یہ گھڑی ذاتی تحفے کے طور پر 10فیصد ادائیگی کر کے اپنے پاس رکھ سکتے تھے‘ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا‘ بلکہ یہ سعودی شاہی تحفہ قومی خزانے میں جمع کروا دیا۔ سعودی سفیر نے جب وزیر اعظم کے اس نیک کار خیر کے بارے میں اپنی حکومت کو مطلع کیا ہوگا تو یقینا ً انہیں عمران خان کی دیانتداری اور نیک نیتی کا ادراک ہو گیاہوگا۔چین کے دورے میں بھی تجارتی خسارہ کم کرنے اور دو طرفہ تجارت میں اضافے کے سمجھوتے ہوئے ۔اگرچہ مالیاتی پیکج کا اعلان نہیں ہو ا مگر اس حوالے سے عمران خان خطیر اعانت کی توقع ظاہر کر رہے ہیں۔اسی طرح پاکستان کو اقتصادی اور مالیاتی بحران کے حل کے لئے وزیر اعطم عمران خان نے متحدہ عرب امارات کا دورہ بھی کیا جہاں ابو ظہبی کے ولی عہد اور عرب امارات کی قیادت سے ان کے جامع مذاکرات ہوئے ۔بات چیت میں جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک ہوئے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اقتصادی بحالی کی جدو جہد میں تمام ادارے برابر کے شریک ہیں۔اب تک مالی اعانت کے جو معاہدے کئے گئے ہیں‘ زمینی حقائق پر ان کے اثرات نظر نہیں آرہے ہیں ‘اب وزیر اعظم ملائیشیا کے دورے سے واپس آ چکے ہیں اور وزیر اعظم مہاتیر محمد سے مفید تجاویز لے کر آئے ہیں ۔ ملائیشیا میں پاکستان کے سفیر کو ادراک ہونا چاہئے تھا کہ ملائیشیا میں ــ '' تنکو ‘‘ اور ''دتوــ‘‘ کا معاشی‘ سیاسی‘ سماجی ‘داخلی اور خارجی امور پر بڑا گہرا اثر ہے ۔ملائیشیا کے بانی تنکو عبدالرحمان کا جھکائو ہمیشہ بھارت نوازی کی طرف ہی رہا اور ملائیشیا مسلم ممالک کا واحد ملک تھا جس نے ستمبر 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی مخالفت کی تھی اور بھارت کا اعلانیہ طور پر ساتھ دیتے ہوئے بحری ناکہ بندی کی کوشش کی تھی‘ جس کے رد عمل کے طور پر فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملائیشیا سے سفارتی تعلقات ختم کر کے ملائیشیا کا سفارت خانہ بند کر دیاتھا اور بحری ناکہ بندی کو انڈو نیشیا کے صدر سیکارنو کی بحری افواج نے ختم کر کے پاکستان کی مشکلات ختم کر اد ی تھیں۔ تنکو عبد الرحمان کی حکومت سے پاکستان کے تعلقات از سر نو 1970ء کے لگ بھگ بحال ہوئے ‘اسی طرح ملائیشیا بزنس کمیونٹی کے دوسرے بے تاج بادشاہ دتو گروپ کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ دتو اور تنکو ملائیشیا کے اعلیٰ خطاب یافتہ ہیں‘ جن کا حکومتی سطح پر بھی بڑ اعمل دخل ہے ۔اپریل 2017ء میں دتو بزنس کمیونٹی کے با اثر گروپ سے مجھے ملنے کا اتفاق ہوا ‘نیشنل ڈیمو کریٹک فائو نڈیشن نے ان کے اعزاز میں اپریل 2017ء کو عشائیہ بھی دیاتھا ‘جس میں پاکستان کی اہم سیاسی شخصیات نے بھی شرکت کی تھی۔ اس موقع پر دتو کمیونٹی کے بزنس مینوں نے پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ ملائیشیا میں اس پارٹی کے بارے میں اچھے تاثرات نہیں پائے جاتے ‘بد قسمتی سے وزارت خارجہ کے مقرر کردہ سفارتی عملے میں تحقیقی ‘سماجی روابط اور پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات کے بارے میں ایسی تحقیق کا فقدان ہے ۔ مجھے گمان ہے کہ ملائیشیامیں پاکستان کے سفیر نے دتو اور تنکو بزنس کمیونٹی کے بارے میں ایسی رپورٹ پاکستان کو نہیں بھجوائی ہوگی‘ جس سے وزیر اعظم عمران خان کو ملائیشیاکے وزیر اعظم مہاتیر محمد کو ایسے خدشات اور تحفظات دور کرنے میں مدد معاونت حاصل ہوتی۔ 
ملائیشیا کے مرد آہن وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اپنے ملک کی کرپشن کے حوالے سے جو جاندار قوانین بنائے ہیں ان سے استفادہ کرنے کے لئے عمران خان کو ملک میں اندرونی استحکام کو فروغ کی طرف توجہ دینی ہوگی ۔ عمران خان کو وزیر اعظم مہاتیر محمد جیسی مضبوط پوزیشن حاصل نہیں ہے۔نواز شریف کے قبیلہ کو سزا ہونے کے باوجود ان کی سیاسی حیثیت پر کوئی آنچ نہیں آئی۔وہ پاکستان مسلم لیگ کے چوہدری شجاعت سے الحاق کر کے اپنی پوزیشن کو 1990ء اور1997ء تک لے آئیںگے اور چوہدری شجاعت اس عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین سے بھی اشتراک کر کے تحریک انصاف کوبنی گالا تک محدود کر دیں گے‘ لہٰذا اندرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کو اپنی سیاسی‘ معاشی اور صوبائی ٹیم میں تبدیلی لانی ہوگی اور ایسے دانشوروں پر مشتمل ٹیم بنانی ہوگی جن کو پاکستا ن کے سیاسی امور پر گہرا ادراک حاصل ہو ۔ منی لانڈرنگ اور دبئی‘ لندن سے جائیدادیں واپس لانے کا خواب تب ہی پورا ہوگا‘ جب ان کی پاکستان میں سیاسی پوزیشن مضبوط ہوتی نظر آئی ۔بیو رو کریسی ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ لہٰذاعمران خان کو اقتصادی ایمرجنسی لگا کر ملک میں صاف‘ شفاف احتساب کی طرف بڑھنا ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں