"KDC" (space) message & send to 7575

کرتار پور ‘کشمیر کی آزادی کا سنگ میل

پاکستان اور بھارت کے مابین تلخیوں کی طویل داستان ہے ۔ 1947ء میں تقسیم ہند سے دو ممالک وجود میں آئے‘ لیکن ریڈ کلف ایوارڈ کے غیر منصفانہ فیصلے سے‘ ریڈ کلف کمیشن میں مسلمان ماہرین کی چشم پوشی‘ کوتاہی‘ اور عدم دلچسپی کی وجہ سے مسلمانان ہند اپنی تین تحصیلوں اور دو اضلاع سے محروم کر دئیے گئے۔ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت اور ایسا قتلِ عام ہوا کہ چشم فلک نے ایسا منظر کبھی نہ دیکھاہوگا۔کانگریس کی سازش سے مشرقی پنجاب کی سکھ کمیونٹی کو مسلمانوں پر یلغار کرنے اور ان کو قتل کرنے کا موقع دیا گیا اور بھارت نے ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے گرداسپور کو بھارت میں شامل کرا کے قادیان کو بچانے کی راہ بھی نکالی اور جموں و کشمیر کے راستے سے بھی تمام رکاوٹوں کو ختم کر دیا اور اسی زعم میں کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر کے پاکستان پر جنگ مسلط کر دی ۔ یہی دونوں ممالک کے درمیان موجودہ صورتحال کی بڑی وجہ ہے ۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حلف برداری تقریب میں نوجوت سنگھ سدھو کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی اور دونوں بغل گیر ہوئے ‘ یہ عمل بھارت کے جنونی ہندو ئو ں کو بہت ناگوار گزرا ۔ تاہم نوجوت سنگھ سدھو نے متعدد انٹر ویوز میں بتایا کہ انہوں نے کرتار پور بارڈر کے احیا کی بات کی تھی‘ جس پر جنرل باجوہ نے مثبت جواب دیا ۔دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں موجود ہندو ئوں اور سکھوںکے مقدس مقامات کی مکمل دیکھ بھال ہو رہی ہے‘ بلکہ ان مقامات کی یاترا کے لئے آنے والوں کو بھی حتی المقدور سہولیات دی جاتی ہیں ۔ پاکستان کے اس حسن سلوک کا نتیجہ یہ نکلاکہ بھارت بھی پاکستانی تجویز منظور کرتے ہوئے کرتار پور بارڈر کھولنے پر تیار ہو گیا اور وزیر اعظم عمران خان نے 28نومبر کو سنگ بنیاد بھی رکھا ۔
پاکستانی حکام کے مطابق کو ریڈور بنا کر بھارت کو بابا گرونانک کے 550ویں جنم دن پر تحفہ دینا چاہتے ہیں ۔ بھارتی دفتر خارجہ نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کو شکریہ کا خط بھی لکھاہے ۔ بھارتی حکومت کی طرف سے کرتار پور بارڈر کھولنے پر رضا مندی بلکہ اظہار تشکر اس خطے کے لئے نیک شگون ہے ۔ پاکستان ہمیشہ سے پر امن بقائے باہمی کے جذبے کے تحت مذاکرات کا حامی ہے ۔ اب پاکستان کے فراخ دلانہ اقدام سے اور جنرل باجوہ کی امن کی ڈاکٹرائن سے بھارت کے بارہ کروڑ سکھ پاکستان کے جذبے کی قدر کرتے ہوئے بھارت میںمسلمانوں کے لئے فرنٹ لائن بن جائیں گے اوربھارتی مسلمانوں کو اخلاقی اور سماجی حمایت حاصل ہو گی۔ ان سفارتی کوششوں میں پاکستان کو چاہئے کہ ہندو ئوں کی مقدس یاد گار‘ جو لسبیلا کے قرب و جوار میں واقع ہے‘ وہاں تک ہندو ئوں کو بھی رسائی دی جائے تاکہ کروڑوں ہندو اپنی مقدس یاترا پر آ سکیں ۔ ہندو ئوں کی مقدس کتاب کے مطابق لسبیلاکے مندر میں ایک مقدس پتھر نصب ہے جو آسمان سے بھگوان نے اتار اتھا ۔ان کی کتاب کے مطابق بیک وقت دو پتھر اتارے گئے ‘ ایک مکہ مکرمہ میں اور دوسرا مملکت ہند میں ۔ مجھے جب حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے دربار پر حاضری کا موقع ملا تو مجھے اجمیر ڈویژن کے سابق کمشنر نے بتایا کہ لسبیلا کے قریب جو رانی مندر ہے اس میں وہ مقدس پتھر نصب ہے۔ جب صدر پرویز مشرف نے میرانی ڈیم کی منظوری دی تھی تو خطرہ لاحق تھا کہ مندر ڈیم برد نہ ہو جائے‘ لہٰذابھارت سے راجہ کنور جونت سنگھ اور ایڈوانی پاکستان آئے ۔ صدر پرویز مشرف نے ان کی تجویز کو منظور کرتے ہوئے میرانی ڈیم کے لئے راستہ تبدیل کر کے ان کے مقدس مندر کو بچا لیا اور ہندو قوم اس حوالے سے بھی پرویز مشرف کی احسان مند ہے ۔ اگر اس مندر کی تزین و آرائش کروا کے زیارت کے لئے آنے کی راہداری دے دی جائے تو بھارت سے ہر سال لاکھوں ہندو اس مندر کی زیارت کے لئے آئیں گے اور خوشگوار تعلقات کا آغاز ہو جائے گا۔ اجمیر شریف کے اس سابق کمشنر کو بعد میں اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں بھارت کے ایوان بالا کا ممبر بنا دیا گیا تھا اور انہوں نے پاک و ہند کے مندروں کے بارے میں سنسکرت میں کتاب بھی لکھی تھی ۔انہوں نے مجھے اپنی کتاب کا وہ باب بھی پڑھ کر سنایا‘ جس میں شاہ عبد الطیف بھٹائی نے اپنے ایک کلام میں اس پتھر کا ذکر کیا ہے ۔ اسی طرح جیوانی کے قریب پاڑ میں ہندو ئوں کی مقدس جگہ پر مندر موجود ہے ‘جس میں ان کے روحانی دیوتائوں کے اربوں روپے مالیت کے نوادرات بھی موجود ہیں جو مدفون ہیں ۔اپنی کتاب میں انہوں نے اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ پاکستان کوسٹل گارڈ کے سابق ڈائریکٹر جنرل بر گیڈ یئر صادق جمال نے بھی اس یاد گار مندر کے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا ۔ انہوں نے اس قلعہ نما مندر کا معائنہ بھی کیا تھا‘ جس کی حفاظت پاکستان کوسٹل گارڈ کی ذمہ داری ہے ۔اسی طرح چکوال کے قریب ہندو ئوں کا مندر کٹاس موجود ہے‘ جس کے بارے میں ہندو ئوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے دیوتا کے آنسو سے تالاب کا وجود عمل میں آیا اور فاضل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی دلچسپی سے اس تالاب کو پانی سے بھر دیا گیا ہے اور اب ہندو ئوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ پاکستانی حکام کو‘ لیاقت نہرو معاہدہ 1951ء کے مطابق متروکہ اوقاف بورڈ کی سر براہی ہندو ئوں اور سکھوں کی معزز شخصیت کو دینی چاہئے اور ان مندروں کی تھائی لینڈ اور انڈو نیشیا کی طرز پر از سر نو تزین و آرائش کرواکے پاکستان اربوں روپے کا زر مبادلہ حاصل کر سکتاہے اور اس خیر سگالی کے جذبے کے تحت بھارت میں مقیم مسلمانوں کو بھی ریلیف ملے گا‘ جموں کشمیر جہاں حقوق کی جنگ جاری ہے وہاں بھی مسلمانوں کو اخلاقی حمایت حاصل ہو جائے گی ‘ انتہا پسندی کا عنصر کمزور ہوجائے گا اور خطے میں 1960ء تک کی سطح پر بقائے باہمی کا راستہ کھل جائے گا ۔
نوجوت سنگھ سدھو کے جنرل قمر جاوید باجوہ سے بغل گیر ہونے کا واقعہ یہ ہے کہ 18اگست کو ایوان صدر میں وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوجوت سنگھ سدھو کو ان کے بچپن کے نام'' شیری‘‘ سے پکارا تو نوجوت سنگھ سدھو فرط جذبات سے جنرل باجوہ سے لپٹ گئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تو جنرل باجوہ نے نوجوت کو بتایا کہ پاکستان کرتار پور کو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سکھوں کے لئے اوپن علاقہ قرار دے رہا ہے اور بھارتی سکھ کرتار پور کی یاترا کے لئے بغیر ویزہ اور پاسپورٹ کے دریائے راوی کے اس پار بین الاقوامی سرحد عبور کر کے آسانی سے آ سکیں گے ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوجوت سے بغل گیر ہوتے ہوئے جو اچانک فیصلہ کیا وہ امن کی آشا اربوں روپے خرچ کر کے نہ کر سکی اور بھارت کے 12کروڑ سکھ قوم کو پاکستان کا ترجمان بنا دیا ۔ 
دربار کرتار پور میں بابا جی کا مزار اور سمادھی آمنے سامنے موجود ہیں۔ گرو نانک کے بعد سکھ مذہب نے موجودہ شکل اختیار کی‘ جس کے لئے دس گروئوں نے بے مثل قربانیاں دیں‘ خاص طور پر دسویں گرو نے سکھ مذہب کو موجودہ شکل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا‘ جس کے بعد گروؤں کے تقرر کا سلسلہ ختم کر دیاگیا اور ان کی مقدس کتاب گرنتھ کو روحانیت کا درجہ دیا گیا۔ سکھوں نے راجپوتوںکے خطاب سنگھ کو اپنے مذہب کا حصہ بنا لیا اور راجپوت بھی خوشی سے اپنے خطاب سے دستبردار ہو گئے ۔ بابا گرو نانک نے شہنشاہ بابر کو سات پشتوں تک حکومت کی پیش گوئی کی تھی اور اسی طرح چھٹے گرو جو شہنشاہ اورنگ زیب کے عتاب کا شکار ہوئے ‘ انہوں نے رائے پور کے نواب کے ہاں پناہ لی تھی اور واپسی پر ان کو سونے کی گڑ وی تحفہ میں دی تھی‘ جو آج تک رائے خاندان کے چشم و چراغ رائے عزیز اللہ جو سابق ممبر قومی اسمبلی بھی رہے ‘ کے پاس موجود ہے ۔ گڑوی کے احترام میں سکھ کمیونٹی رائے عزیز اللہ کا بڑا احترام کرتی ہے‘ ان کے مطابق مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا بھی ان کے ہاں بلا تکلف آنا جانا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کر تار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ کر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے کشمیر گیٹ وے کی راہ دکھا دی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں