"KDC" (space) message & send to 7575

کرتار پور راہداری اور متحدہ مشرقی پنجاب کا ایشو

وزیر اعظم عمران خان کا عزم لائق ستائش ہے کہ وہ ملک کو مشکل سے نکالنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے ہیں۔ ویسے بھی ہر نو منتخب حکومت کے لئے ابتدائی چند ماہ بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ نظام کی دس سال کی خامیاں دور کرنے اور عوامی مسائل حل کرنے کے لئے اگرچہ چند ماہ ناکافی ہوتے ہیں لیکن ان میں سمت کا تعین اور لائحہ عمل ضرور طے ہو جاتا ہے کہ مسائل کیسے حل کئے جائیں۔ تاریخ میں غالباً سب سے پہلے ایسا پروگرام امریکی صدر روزویلٹ نے دیا تھا اور ابتدائی سو دنوں میں جو قانون سازی کی اسے امریکی ترقی میں تاریخی مانا گیا۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اقتدار میں آنے سے قبل سو روزہ منصوبہ پیش کیا لیکن پھر انہیں عوام کے سامنے تسلیم کرنا پڑا کہ یہ ایک نا قابل عمل ایجنڈا تھا اور وجہ یہ تھی کہ ملکی نظام کی کوئی بھی سمت سیدھی نہ تھی۔ نئی حکومت کو پاکستان بھی ابتر حالت میں ملا‘ جس کی اصلاح کے لئے تحریک انصاف نے الیکشن سے قبل سو روزہ پروگرام مہاتیر محمد کی دستاویزات سے مستعار لیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس پروگرام پر عمل در آمد کا جائزہ کچھ روز قبل اپنے خطاب میں پیش کیا۔ جائزے میں قانون سازی تو دکھائی نہیں دی؛ البتہ معاہدے اور منصوبے سامنے آئے ہیں اور ان میں سے بھی اکثر کے لئے مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ شاید اس لئے کہ بقول وزیر اعظم انہیں بھی اندازہ نہ تھا کہ ملک میں اس حد تک کرپشن کی گئی ہے۔ اگر عمران خان پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق کی ایک بجٹ تقریر کا بغور جائزہ لیتے تو انہیں صورتحال کا ادراک ہو جاتا۔ اس تقریر میں ڈاکٹر محبوب الحق نے سر کاری طور پر قومی اسمبلی میں اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں ایف بی آر اور سرکاری اداروں کی بیوروکریسی ہر روز 40 کروڑ روپے کی کرپشن کرتی ہے اس دور کے 40 کروڑ آج کے 40 ارب کے برابر ہیں۔ 
اپنی حکومت کی سو روزہ کارکردگی کے حوالے سے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اصلاحات پر عمل درآمد شروع کر کے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے‘ جبکہ میرے تجزئیے کے مطابق بیوروکریسی اور ان کی حکومت کے وزراء میں اب تک یہ شعور نہیں آیا کہ جب تک سرمایہ کار پیسہ نہیں بناتا‘ بزنس فروغ نہیں پاتا‘ یہ ہدف حاصل نہ ہو گا۔ معاشی لحاظ سے عوام مشکلات کا شکار ہیں اور تمام کوششوں کے باوجود عوام کو مطلوب ریلیف نہیں پہنچایا جا سکا۔
عمران خان کا سو روز میں بہترین کارنامہ یہ ہے کہ 28 نومبر کو انہوں نے نارووال میں کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ دیا‘ یوں تو اس راہداری کا تعلق صرف سکھ برادری سے ہے‘ لیکن بنیادی طور پر یہ پیش قدمی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی ایک تمثیل ہے۔ ان تعلقات کی صحیح سمت کا تعین بار بار کیا جاتا رہا ہے۔ یہ کہ ان دونوں ملکوں کی اکثر آبادی کا دارومدار ہی دوستی اور امن پر ہے۔ یہ دونوں ملک دوستی کی سمت جانے کا عہد بار بار کرتے ہیں‘ اور اپنا قبلہ بھی درست کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن مغربی طاقتوں کی خفیہ ریشہ دوانیوں کی وجہ سے منزل تک پہنچ نہیں پاتے۔ امریکہ اور دیگر بڑی طاقتیں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمکش اور محاذ آرائی میں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی ہیں۔ وہ یہ جانتی ہیں کہ پاک و ہند کے راہنمائوں میں فراست کا فقدان ہے۔ ہمارے راہنمائوں کی سیاسی مصلحت بھی ان کی سیاسی بصیرت کی عکاس ہے۔ جنوبی ایشیاء کئی معنوں میں دنیا کے سب سے پسماندہ اور شورش زدہ علاقوں میں سے ایک ہے اور اس کے دو بڑے ملکوں نے خود کو ہتھیاروں سے لیس کر رکھا ہے‘ جو نا قابل تصور تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ 
وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کر کے اور بنگلہ دیش بنوا کر کوئی دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ اگر بھارت کی مداخلت نہ ہوتی تو تمام تر سیاسی ابتری کے باوجود مشرقی پاکستان متحدہ پاکستان کا ہی حصہ ہوتا‘ جس سے آگے چل کر بھارت اور پاکستان کے کیبنٹ مشن پلان‘ جو 1946 میں ولبھ بھائی پٹیل کی وجہ سے ناکام ہو گیا تھا‘ پر از سر نو غور و خوض کرنے کی راہ ہموار ہو جاتی۔ جولائی 2002 میں صدر پرویز مشرف اور وزیر اعظم واجپائی خفیہ طور پر کیبنٹ مشن پلان کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اچانک صدر پرویز مشرف نے ناشتے پر انڈین صحافیوں کے رو برو مشرقی پاکستان پر بھارتی جارحیت کی شدید لفظوں میں مذمت کی‘ اور صدر پرویز مشرف کے دورۂ بھارت کی ناکامی میں بھارتی میڈیا کا اہم کردار رہا۔ اسی بریک فاسٹ کی ٹیبل پر ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر نے کارگل جنگ کے حوالے سے تابڑ توڑ حملے کر کے پرویز مشرف کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا تھا کہ اگر بھارت مشرقی پاکستان کے حوالے سے معذرت کرتا ہے تو پاکستان کارگل پر معذرت کو تیار ہے۔ لہٰذا آگرہ کانفرنس ناکام ہو گئی۔ خطرات کی چاپ سن کر مذاکرات کی میز پر بیٹھ جانے کے باوجود تب بھی خبر نہیں تھی کہ کس کی سوچ کیا ہے۔ حالانکہ معاہدہ تیار تھا لیکن اس کی نوبت نہیں آئی، دراصل یہ معاہدہ جموں و کشمیر کے بارے میں ٹھوس بنیادوں پر ایسا ہی معاہدہ ہونا تھا‘ جس کی روح کیبنٹ مشن میں پوشیدہ تھی۔ اسی طرح جنوری 2007 میں وزیر اعظم من موہن سنگھ نے تو یہ تجویز تک دے دی تھی کہ سرحدیں کھول دی جائیں۔ ان کا خواب تھا کہ کسی دن کوئی ناشتہ امرتسر میں کرے، لنچ لاہور میں اور ڈنر کابل میں ہو۔ 
کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کو دیکھ کر بھارت کے 12 کروڑ سکھوں کی امید کا چراغ روشن ہو رہا ہے کہ مستقبل میں متحدہ پنجاب کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جس میں ہریانہ اور ہماچل پردیش شامل ہوں گے۔ فی الحال اس تقریب کا جوش و خروش شاید زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا‘ کیونکہ بھارتی برہمن حکومت نے یہ خطرہ 1957 میں بھانپ لیا تھا، لہٰذا چند برسوں میں بھارتی وزیر اعظم نہرو اور پٹیل نے سکھوں کی سیاسی، معاشی قوت کو ختم کرنے کے لئے مشرقی پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا‘ اور راجپوتانہ ریاستوں کو راجستھان میں تبدیل کر کے اس کا وسیع تر علاقہ ہریانہ سٹیٹ میں شامل کر کے مشرقی پنجاب اور ہماچل پردیش صوبے بنائے گئے جبکہ پاکستان کی اس وقت کی قیادت نے مشرقی پاکستان میں دو صوبے بنانے کا سوچا نہیں تھا۔ 
چین کی عظیم راہداری کا منصوبہ جوں جوں آگے بڑھے گا بھارت تقسیم کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔ جموں و کشمیر کی قسمت کا فیصلہ بھی ہو جائے گا‘ برصغیر کی جغرافیائی حدود کا از سر نو تعین کیا جائے گا اور افغانستان، پاکستان، بھارت بتدریج من موہن سنگھ کے خوابوں کی تعبیر بنتے جائیں گے۔ اس طرح شاید سکھوں کا بھی علیحدہ ریاست کا خواب پورا ہو جائے۔ کرتار پور کی سرحد کھلنے سے اب مشرقی پنجاب علیحدہ ریاست کا روپ دھارے گا اور میرا تجزیہ یہی ہے کہ یہ سنگ میل جنوبی ایشیاء میں بھارت کی تقسیم کا سنگ بنیاد ثابت ہو گا۔ بھارت 22 کروڑ سے زائد مسلمان اور 12 کروڑ سکھوں کی مشترکہ کوششوں سے اب تقسیم کے دہانے پر کھڑا ہے اور سکھ قوم بھی اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور مشرقی پنجاب کی تقسیم کو ریفرنڈم کے ذریعے مغربی پنجاب میں شامل ہونے کی بھی تحریک شروع ہونے کے قریب ہے۔ اب سکھ 1947 کی خون ریز غلطی پر ندامت محسوس کر رہے ہیں ان کو جواہر لال نہرو نے دھوکہ دے کر خون ریز فساد کرائے تھے۔ اس کا ازالہ اس صورت میں ہو گا کہ سکھ مشرقی پنجاب کا الحاق مغربی پنجاب سے کر کے بھارت کی تقسیم کے لئے راہ کھول دیں‘ اور جموں و کشمیر کی جرات مند قوم بھی بھارت سے علیحدہ ہو کر پاکستان سے الحاق کر کے عظیم تر پاکستان کی بنیاد رکھ دیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں