"KDC" (space) message & send to 7575

خاندانی منصوبہ بندی: انجام خوش آئند نہ تھا

حالیہ مردم شماری میں حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان چین ‘ بھارت ‘ امریکہ اور انڈونیشیا کے بعد پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن چکا ہے ۔ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20کروڑ 80لاکھ تھی ۔ اگر آزاد جموںو کشمیر اورگلگت بلتستان کی آبادی بھی شامل کی جائے تو پاکستان کی کل آبادی 22کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔ اگر آبادی کو ملکی وسائل کے تناظر میں دیکھیں تو صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے ۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے غذائی قلت ‘ تعلیم اور صحت کی سہولیات کا فقدان اور بد نظمی جیسے بے شمار مسائل ہیں‘ جو اسی بے ہنگم آبادی کا شاخسانہ ہیں ۔ حکومتوں کی جانب سے دیہی علاقوں میں سہولتیں فراہم نہ کرنے اور لوکل گورنمنٹ کا نظام تہس نہس کرنے کی وجہ سے شہروں کی طرف نقل مکانی اور شہروں کی آبادی میں اضافے نے انہیں انتہائی غیر منظم انداز میں اس قدر پھیلا دیا ہے کہ شہر ایک دوسرے میں مدغم ہونے کو ہیں ۔اسی طرح رورل ایریاز کی بھی حد بندیاں نہیں کی گئی ہیں ۔ 
پاکستان میں یہ المیہ رہا ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان مسلسل بڑھتا ہوا فرق مہنگائی میں بتدریج اضافے کا موجب بن رہاہے‘ جس کے نتیجے میں غریب طبقے کی قوت خرید کم ہوتی جا رہی ہے ۔ صدر ایوب خان کے گیارہ سالہ دور حکومت میں روز مرہ کی اشیا ایک مقام پر منجمد رہیں۔جس دن انہوں نے اقتدار سنبھالا تھا اس دن سے لے کر آخر تک گڑ اور شکر‘ جو غریب عوام کی ضرورت ہے‘ کی قیمت گیارہ سال تک 55پیسے فی سیر رہی ۔ ان دنوں کلو کا تصور نہیں آیا تھا‘ جس سے وزن ہی کم ہو گیاہے۔ جب شخصی حکومت میں قیمتیں ‘ ڈالر ‘ پائونڈ اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کا ریٹ گیارہ سال تک ایک ہی دائرے میں گھومتا رہا تو جمہوری اداروں میں غربت مٹائو تحریک کامیاب کیوں نہیں ہو رہی ہے؟ حتیٰ کہ جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت ‘میں جبکہ ملک شدید خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا مہنگائی کا دور دور تک نشان نہ تھا اور ڈالر پونے چار روپے تک ہی محدود رہا اور بر آمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا رہا ۔ جب عوامی جمہوریت کا دور آیا تو ملک میں بے ہنگم مہنگائی ‘ اقربا پروری اور امن وامان کے مسائل پیدا ہوتے چلے گئے ۔ ملکی اداروں میں رشوت کی پہلی اینٹ 1972ء میں رکھی گئی جب ملکی صنعتیں قومیانے کے بعد ان میں پارٹی ورکروں کو بڑے بڑے عہدے دئیے گئے انہوں نے ان اداروں کو ملیامیٹ کر دیا ‘اور پاکستان جو حقیقی اعتبار سے جاپان کے قریب قریب پہنچ رہا تھا‘ وہ کوریا جیسے پسما ندہ ملک سے بھی نیچے آ گیا ۔
اس معاشرتی تناظر میں ضبطِ ولادت یا خاندانی منصبوبہ بندی اور آبادی میں تشویش ناک اضافہ کی روک تھام کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار صاحب نے آبادی کنٹرول کرنے کے لئے ٹاسک فورس بنانے کی تجویز دی‘ جسے وزیر اعظم عمران خان نے انتہائی عجلت میں پاکستان کے تاریخی حوالوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بنا دیا ہے ۔ ایوب خان کے دور میں خاندانی منصوبہ بندی کا عظیم الشان ادارہ بنایا گیا‘امریکی امدادسے دیگر ممالک سے ماہرین بلائے گئے اور جامعہ الازہر مصر کے علاوہ ایران ‘ ترکی اور دیگر ممالک سے علما بھی مدعو کئے گئے اور پاکستان کو نئے سماجی ڈھانچے میں تبدیل کرنے کی باقاعدہ مہم کا آغاز کیا گیا ۔ مرکزی حکومت کا ادارہ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ‘جو وزارتِ قانون کے ما تحت تھا‘ کے سر براہ ڈاکٹر فضل الرحمان مقرر ہوئے۔انہوں نے خاندانی منصوبہ بندی ‘ ضبطِ ولادت اور نس بندی کروانے کے لئے اطوار و طریقے ایجاد کرتے ہوئے انہیں اسلامی رنگ دینے کی لطیف سی کوشش کی تو ان کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک شروع ہو گئی اور مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان ہنگامہ آرائی کی لپیٹ میں آ گئے ۔ سنگین صورتحال کو دیکھتے ہوئے صدر ایوب خان نے اپنے مرکزی وزیر قانون و انصاف ایس ایم ظفر‘ جو کہ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین بھی تھے‘ کے ذریعے ڈاکٹر فضل الرحمان کو برطرف کر دیا ۔ 1976ء کے اوائل میں میری ڈاکٹر فضل الرحمان سے ملاقات ہوئی‘ جب میری پوسٹنگ وزارت مذہبی امور میں تھی ۔ ڈاکٹر فضل الرحمان 1968ء کے اوائل میں امریکہ منتقل ہو گئے تھے ۔ میں ان کے خلاف عوامی احتجاج کا پس منظر جاننا چاہتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے چند تجاویز حکومت کو بھجوائی تھیں۔ ابتدا میں جب ضبطِ ولادت کی مہم کا آغاز ہوا تو اسے مذہب کے حوالے سے دیکھنا شروع کر دیا گیا‘ کیونکہ ان دنوں مولانا مودودی کا ایک پمفلٹ لاکھوں کی تعداد میں چھپا جس میں اسلام اور ضبط ولادت کا طویل مقالہ موجود‘ لہٰذا اس پمفلٹ کے اثر کی وجہ سے ان کے خلاف تحریک چلائی گئی ۔ ڈاکٹر فضل الرحمان انتہائی زیرک اور قابل آدمی تھے ۔ انہوں نے اسلامی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جس طرح آبیاری کی اس کے گواہ ڈاکٹر خالد مسعود اور ایس ایم ظفر ہیں ۔ اسلامی ریسرچ سینٹر کو خالص مذہبی اور دینی فکر دینے کی کوشش عبد الاحد ہالیپوتا اور عبدالقدوس ہاشمی نے کی ۔ ڈاکٹر خالد مسعود‘ جو بعد ازاں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی مقرر ہوئے اور ڈاکٹر محمود غازی آگے بڑھے ۔ ڈاکٹر محمود غازی جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے دور میں وفاقی وزیر مذہبی امور بھی رہے۔ انہوں نے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں لبرل ازم کا راستہ روکے رکھا۔ جنرل ضیا الحق نے اپنے قریبی ساتھی ڈاکٹر جالندھری کو اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا سر براہ مقرر کر دیا تھا‘ لیکن انہوں نے نظریہ پاکستان کی ایسی تشریح کر دی جس پر جناب مجید نظامی نے ان کے خلاف تند و تیز اداریہ لکھا ‘ جس کو پڑھ کر جنرل ضیا الحق آگ بگولا ہو گئے اور ان کو بر طرف کر دیا ۔ اسی طرح کا واقعہ 1976ء میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین عبد الاحد ہالیپوتا کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ ادارے کے بعض لبرل ازم کے حامی سکالروں نے مولانا کوثر نیازی ‘جو ان دنوں وزارتِ مذہبی امور کے وفاقی وزیر تھے اور یہ ادارہ ان کی ما تحتی میں دے دیا گیا تھا‘ ان کو بتایا کہ ہالیپوتا ان کے لبرل ازم کے نظریات کی راہ میں رکاوٹ ہیں‘ لہٰذا مولانا کوثر نیازی نے در پردہ کوشش کر کے ان کے خلاف اداریے شائع کروائے‘ جس طرح انہوں نے احمد فراز کوپاکستان نیشنل سینٹر سے فارغ کرانے کے لئے اداریے لکھوائے تھے ‘لہٰذاہا لیپوتا کو بھی سبکدوش کروا دیا گیا ۔ تاریخی حوالہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ تاریخ میں جن دانشوروں نے بھی خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت کی‘ ان کا انجام خوش آئند نہیں رہا ۔
1975ء اور1976ء میں وزارتِ پاپولیشن پلاننگ نے بیگم نصرت بھٹو کے ذریعے ملک بھر میں نس بندی کی مہم کی منصوبہ بندی کی ‘اور اس کے روحِ رواں وزارت پاپولیشن کے سیکر ٹری محمود تھے ۔انہوں نے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور ان کے بیٹے سنجے گاندھی سے نس بندی کا بلیو پرنٹ منگو اکے پاکستان میں اس کا آغاز کرنے کی باقاعدہ پلاننگ شروع کر دی تھی اور اس کام میں بیگم عطیہ عنایت اللہ پیش پیش تھیں۔ بیگم عطیہ عنایت اللہ کو خاندانی منصوبہ بندی اور ضبطِ ولادت کی تمام پلاننگ کا مکمل ادراک ہے ۔ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل نظام الدین نے اعتماد میں لیتے ہوئے مجھے خاندانی منصوبہ بندی پر ایک مقالہ پیش کیا ‘جس میں واضح کیا گیا تھا کہ اگر ملک میں نس بندی کی باقاعدہ مہم چلائی گئی تو ملک کے علما کرام تحریک کا آغاز کر دیں گے‘ جیسا کہ بھارت میں نس بندی کے خلاف تحریک کے باعث اندرا گاندھی کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔میں نے خطرناک مضمرات پر مبنی ڈاکٹر نظام الدین کی تحقیق کا مقالہ محترمہ نصرت بھٹو کو پیش کر دیا۔ اس مقالہ میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ خاندانی منصوبہ بندی کے لئے ناروے سے بھی طریقہ کار روشناس کروایا جائے ۔ جب میں نے محترمہ کو اس مہم کے سیاست پر ممکنہ اثرات سے آگاہ کیا تو محترمہ نے اس مقالے پر غورو خوض اور وزیر اعظم بھٹو سے مشورہ کرنے کا وعدہ کیا ۔ میں نے بتایا کہ1977ء انتخابی سال ہے‘ان کے مخالفین خاندانی منصوبہ بندی اور نس بندی کے بارے میں حکومت کے خلاف ایک ایسی مہم کا آغاز کر دیں گے کہ انتخابات میں ان کی کامیابی کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ محترمہ نصرت بھٹو فعال‘ قد آور اور متحرک خاتون تھیں اور میری تجویز جب وزیر اعظم بھٹو کو پیش کی گئی تو انہوں نے فوری طور پر وزارت پاپولیشن پلاننگ کو مہم چلانے سے روک دیا اور اخبارات میں مہم شروع ہو گئی کہ اس کو ڈراپ کر دیاگیا۔ وزیر اعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار صاحب کا مؤقف درست ہے ‘ آبادی کا مسئلہ ایک سماجی معاملہ ہے‘ جسے سادہ انداز میں دیکھنا چاہئے ‘ موجودہ حکومت کے پاس مجھے کوئی ایسی مشینری نظر نہیں آ رہی جو اس سماجی مسئلہ کو لے کر آگے بڑھے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں