"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن سپریم کورٹ سے رہنمائی لے

جب ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو وفاق پاکستان کے نام سے یاد کرتے ہیںتو ہم نا دانستہ طور پر اپنی قومی شناخت کو منقسم کر دیتے ہیں۔ وفاق کی اصطلاح سوویت یونین یا یوگو سلاویہ کے لئے تو استعمال کی جا سکتی تھی‘ کیونکہ وہاں مختلف علاقوں میں مختلف قومیں آباد تھیں‘یہی وجہ ہے کہ جب وفاق کی بنیاد یوگو سلاویہ میں کمزور پڑی تو کروشیا الگ ہو گیا ‘ سربیا الگ ہو گیا اور بوسنیا الگ ہو گیا ۔ اسی صورتحال کا سامنا سوویت یونین کو بھی کرنا پڑا ۔جب سو ویت یونین اور یو گو سلاویہ کا حشر یاد آتا ہے تو لفظ وفاق‘ پاکستان کے لئے مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ پاکستان کی نظریاتی اساس پر ضرب کاری اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے لگائی گئی‘ جس میں صوبائی خود مختاری کے نام پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو چار علاقائی شناختوں میں تقسیم کر دیا گیا‘اس طرح ہم نے پاکستان کوبے حد نقصان پہنچا یا ہے۔اگر پاکستان کو ایک مخصوص انداز میں وفاق بنانا مقصود ہے تو اسے 20انتظامی یونٹوں کا وفاق بنایا جانا چاہئے‘ تاکہ اقتدار کے فوائد نچلی سطح تک پہنچ سکیں ۔
پاکستان اب تک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے 40میں سے 33 نکات پر مکمل عمل در آمد نہیں کر سکا‘ گو کہ حکومت کے دعوے مختلف ہیں مگر تمام اشارے بتا رہے ہیں کہ آئندہ سال اکتوبر میں ہم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی بلیک لسٹ میں شامل ہو سکتے ہیں‘ اس کے جو فوری نتائج بر آمد ہوں گے‘ ان میں سے پہلا یہ ہو گا کہ ہماری بر آمدات کی رفتار انتہائی سست ہو جائے گی ۔ جو اشیا ہم چند دنوں میں بیرون ملک بھیج رہے ہیں وہ چھ چھ مہینوں تک نگرانی کے عمل سے گزرنے کے بعد اپنی منزل تک پہنچ سکیں گی ۔
آصف علی زرداری اور شریف برادران کی قسمت کا فیصلہ ہونے کے بعد اور وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے نشیب و فراز دیکھنے کی جو سہولت جون 2019ء تک ملی ہوئی ہے اس کے بعد جو اثرات ملک میں دیکھنے کو ملیں گے‘ اس کے بعد ایک ایسی ہی محب وطن عظیم شخصیت کوسامنے لایا جائے گی جو پاکستان کو صفِ اول کا اسلامی ملک بنانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوگی۔ ملک کے موجودہ پارلیمانی نظام کی بساط اپنے ہی بوجھ تلے دب جائے گی اور ان سب کو وعدہ خلافی ‘فریب اور جھوٹے دعوے قومی احتساب بیورو کے کٹہرے میں کھڑا کر دیں گے اور ان سے اسی طرح حساب لیا جائے گا جیسا کہ شاہ ایران کی رخصتی کے بعد ایران کی عوامی احتساب عدالت نے شاہ کے وفا داروں سے لیا تھا۔ پاکستان کی عوام نے ہر رنگ کے سیاست دان آزمائے ہیں ۔اب اس عوام کو مزید فریبی نعروں کی زد میں نہیں رکھا جا سکتا ۔ میں ایک ایسے شخص کے اقتدار میں آنے کا منظر دیکھ رہا ہوں ‘جس کو ملک کا اقتدار سپرد کر کے تین سال تک صفائی کے لئے دئیے جائیں گے اور ملک کے پارلیمانی نظام میں اہم تبدیلیاں لانے کے لئے ان تمام سیاست دانوں کو نا اہل قرار دے دیا جائے گا جو 1985ء سے پاکستان کی عوام پر سواری کئے ہوئے ہیں ۔پارلیمانی نظام میں اہم تبدیلیاں لائی جائیں گی اور یہ پرکھا جائے گا کہ موجودہ پارلیمانی نظام کے تحت ارکانِ پارلیمنٹ نے پاکستان کو کیا دیا ؟کیا ان کی قانون سازی نے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنایا ؟ کیا پارلیمنٹ کے ارکان نے آرٹیکل تین کے تحت پاکستان کے عوام کے دکھوں کا مداوا کیا ؟ ان ارکان نے صریحا ً آئین کے آرٹیکل تین کی خلاف ورزی کی ہے ‘ ان کے خالف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمات درج کرائے جا سکتے ہیں۔ آئین عوام کی فلاح و بہبود کی ضمانت دیتا ہے ۔اس صورتحال پر نیشنل ڈیموکریٹک فائونڈیشن ریسرچ کر رہاہے کہ ارکان پارلیمنٹ جو1985ء سے اقتدار میں آتے رہے‘ انہوں نے آرٹیکل تین پر عمل در آمد کیوں نہیں کیا اور کسی پارٹی نے بھی پارلیمنٹ میں قرار داد پیش نہیں کی کہ ارکان پارلیمنٹ آرٹیکل تین پر عمل در آمد نہیں کر رہے ۔ ان حالات کے حوالے سے لندن میں بھی ایک تھنک ٹینک کام کر رہا ہے اور اسی تھنک ٹینک میں یہ قومی مسئلہ بھی زیر غور ہے کہ پاکستان میں ڈیموں کی ضروریات کو پورا کرنے کی راہ میں کس پارٹی یا حکومت نے مجرمانہ غفلت کر کے پاکستان کو صحرا بنانے کی سازش کی۔ جون 2019ء کی آمد سے پیشتر میں نے پاکستان کے مستقبل کا نقشہ اپنی معلومات کے مطابق کھینچ دیاہے اور اسی منظر نامے میں نیشنل ڈیمو کریٹک فائونڈیشن ایک انٹر نیشنل کانفرنس کی پلاننگ کر رہی ہے‘ جس میں پاکستان اور بیرون ممالک سے الیکٹورل ماہرین مدعو کئے جائیں گے جو پاکستان کو مربوط ‘ مضبوط اور صحیح معنوں میں انتخابی نظام کا پلان بنا کر قوم کے سامنے پیش کریں گے ۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے موجودہ چار میں سے تین ارکان کی تعیناتی غیر آئینی ہونے کا انکشاف ہوا ہے ‘کیونکہ آئین کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک کسی بھی عہدے پر تعیناتی پر پابندی ہے ۔ قومی ترقی کے لئے آئین و قانون کی حکمرانی کے ناگزیر ہو نے پر اگرچہ ہمارے سارے قومی رہنما اور ادارے اتفاق کرتے ہیں لیکن عملی کیفیت بیشتر حوالوں سے خاصی مختلف ہے۔ اسی ضمن میں ایک تازہ نشاندہی الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے کے ارکان کے تقرر سے متعلق ہے‘ جس کے مطابق ملک میں انتخابات کرانے کے ذمہ دار ‘اس اہم ادارے کے چار معزز ارکان میں سے تین کا تقرر آئین کے آرٹیکل 207کی شق دو کے بر خلاف عمل میں آیا ہے ۔ اس آرٹیکل کے مطابق سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا کوئی جج منصب سے فارغ ہونے کے دو سال مکمل ہونے سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رکنیت سمیت کسی منفعت بخش سرکاری عہدے پر فائز نہیں کیا جا سکتا ۔ اس میں تمام عدالتی مناصب بھی شامل ہیں ۔ الیکشن کمیشن کے مذکورہ تین ارکان میں سے ایک بلوچستان ہائی کورٹ سے مستعفی ہونے کے محض پانچ دن بعد ‘ دوسرے پشاور ہائی کورٹ سے ریٹائرہونے کے محض 45دن بعد اور تیسرے لاہور ہائی کورٹ سے فارغ ہونے کے سات ماہ بعد الیکشن کمیشن کے رکن مقرر ہو گئے۔ الیکشن کمیشن کے چوتھے رکن سابق بیورو کریٹ ہیں۔رپورٹ کے مطابق تقرر کے وقت ان کا نام دو ارب روپے کی کرپشن میں ملوث ہونے کے الزام میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں تھا ۔ اس سارے پس منظر کو بین السطور میں ملاحظہ کیا جائے تواس کے ذمہ دار حکومت اور اپوزیشن لیڈر ہیں ‘کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان کے تقرر سے پہلے ان کے ماضی کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرنا وزارت پارلیمانی امور ‘وزیر اعظم پاکستان اور صدر پاکستان کی آئینی ذمہ داری تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے معزز ارکان الیکشن کمیشن کے لئے بھی آئین کے آرٹیکل 207 کی روح کے مطابق کام کرنا فرائض منصبی میں شامل تھا ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان آئینی ادارہ ہے ۔ الیکشن کمیشن کی انتظامیہ سروس آف پاکستان کے زمرے میں آتی ہے ‘تاہم معزز ارکان کا کام عدالتی نوعیت کے فیصلے کرنا ہوتا ہے‘ وہ سروس آف پاکستان کے زمرے میں نہیں آتے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے اس مؤقف کی تردید کرتے ہیں ۔ اسی طرح نگران حکومت میں صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی مسند بھی آئین کے آرٹیکل 207کی زد میں آتی رہی اور پھر آرٹیکل 260کا سہارا لیا گیا ۔ بادی النظر میں ان کا تقرر آئین کے آرٹیکل207سے انحراف تھا اور ان کے لئے درمیانی راستہ نکالا گیا تھا ۔ میں نے نگران وزیر اعلیٰ کے تقرر کے حوالے سے نگران وزیر اعظم کی توجہ مبذول کروائی تھی ‘نگران وزیر اعظم نے چشم پوشی اختیار کئے رکھی ۔ اسی طرح نگران وزیر اعلیٰ صوبہ خیبر پختونخوا نے اپنے حلف میں تحریف کرتے ہوئے نگران وزیر اعلیٰ کا اضافہ خود اپنے قلم سے کر کے آئین کے آرٹیکل 65کی عبارت ہی تبدیل کر دی تھی ۔ان حالات میں ملک کے ایک اہم ترین آئینی ادارے میں آئین کی یہ پامالی ہمارے آئین کی بالادستی کے دعوئوں پر بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ہمارے ادارے اب بھی نظریۂ ضرورت کا سہارا لیتے ہوئے حکومت کے کاروبار کو چلا رہے ہیں ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اپنے معزز ارکان کی تقرری کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کی راہنمائی حاصل کرنے کے لئے ریفرنس دائر کر کے ان کی تقرری کو آئینی قرار دینے کے لئے عملی قدم اٹھانا چاہئے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں