"KDC" (space) message & send to 7575

چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع ممکن ہے؟

18جنوری 2019ء کو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار ریٹائر ہو جائیں گے۔ انہوں نے ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے کام کا آغاز کر رکھا ہے اور قوم کو ان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ان کی مدت ملازمت میں آئین کے مطابق توسیع کی گنجائش نہیں ‘ لیکن عوام کی رہنمائی کے لئے ایک تاریخی واقعہ کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں ۔اپریل‘ مئی 2005ء میں اُس وقت کے چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی نے از خود نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ عدالتوں کی مدت ملازمت میںتوسیع کے لئے ایک پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا تھا‘ جس کی سربراہی غالبا ً شروع میں چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی نے کی اور ان کے بینچ کے ارکان میں جسٹس تصدق حسین جیلانی اورجسٹس افتخار چوہدری بھی شامل تھے ۔اس بینچ نے اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے 8اکتوبر 2002ء کے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا‘ جس کے تحت صدر پرویز مشرف نے اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع کر دی تھی ‘جس کے تحت بلوچستان ‘ سندھ ‘ پنجاب اور صوبہ سرحد کے جج صاحبان نے فائدہ اٹھایا اور سپریم کورٹ کے بعض سینئر ججز بھی فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے ۔ جب جنوری 2005ء میں صدر پرویز مشرف نے ریفرنڈم کے ذریعے اپنے صدارتی انتخاب کو آئینی جواز کے مطابق اپنانا چاہا تومتحدہ مجلس ِعمل کے مولانا فضل الرحمان اور قاضی حسین احمد نے ججز کی مدت ملازمت منسوخ کرانے کا مطالبہ پیش کر دیا ۔ آئینی راہ ہموار کرنے کی ذمہ داری سینیٹر ایس ایم ظفر کو سونپی گئی تھی‘ لہٰذاپرویز مشرف نے اپنے مفاد کی خاطر ججز کی مدت ملازمت کی توسیع کا فیصلہ منسوخ کر دیا ۔
اس صدارتی فیصلے کو آگے بڑھاتے ہوئے سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہشمند تھے؛ چنانچہ انہوں نے سپریم کورٹ کا لارجر بینچ بنا کر ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کی کوشش کی۔ بظاہر جسٹس افتخار محمد چوہدری اس بینچ کا حصہ بن گئے‘ لیکن اندرونی طور پر انہوں نے چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے اپنی لابی کو فعال کر دیا۔ میری اطلاع کے مطابق چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی کو مشورہ دیا گیا کہ جسٹس افتخار چوہدری ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف ہیں‘ لہٰذاوہ اس بینچ کی سر براہی کسی سینئر جج کے سپرد کر دیں۔ انہوں نے تصدق حسین جیلانی کی سر براہی میں ایک نیا لار جر بینچ تشکیل دیا اور سماعت کی تاریخ مقرر کر دی۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے جج صاحبان کی کشمکش ‘ بے چینی اور اضطراب کا اندازہ لگا لیا‘ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے تیور بھی بھانپ لئے اورمحسوس کر لیا کہ اگر ججز کی توسیع کا فیصلہ سامنے آیا تو ممکن ہے جسٹس افتخار محمد چوہدری مخالف فیصلہ لکھیں ‘ جس سے سپریم کورٹ کی حرمت اور غیر جانبداری پر حرف آئے گا‘چنانچہ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے معذرت کر کے بینچ تحلیل کر دیا۔
اسی دوران جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے قریبی دوستوں کی معاونت سے صدر پرویز مشرف تک رسائی حاصل کر کے حالات و و اقعات کو اپنے حق میں کروانے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ جسٹس ناظم صدیقی اور دیگر طاقتور حلقوں کی خواہش تھی کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کو شریعت کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر کے جسٹس ناظم حسین صدیقی کی مدت ملازمت میں دو سال توسیع کر دی جائے ۔ اسی دوران سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس ملک اللہ یار بھی میدانِ عمل میں کود پڑے اور انہوں نے اپنی سنیا رٹی کو ایوان صدر میں چیلنج کر دیا ۔ ان کا مؤقف تھا کہ وہ لاہو ر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے افتخار محمد چوہدری سے سینئر ہیں۔ ان کی اہم پٹیشن ایوانِ صدر میں زیر غور تھی اور جسٹس افتخار چوہدری بھی دبائو میں تھے۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی کا راستہ روکنے اور جسٹس ملک اللہ یار کو کنارے لگانے کے لئے صدر پرویز مشرف کی طاقتور لابی سے گہرے رابطے قائم کئے۔ میری اطلاع کے مطابق انہوں نے جنرل حامد جاوید‘ سیکر ٹری نیشنل سکیورٹی کونسل طارق عزیز ‘ جنرل احسان الحق اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اپنے رابطے میں رکھا ۔ اسی دوران خبریں گردش کر رہی تھیں کہ مدت ملازمت کے معاملے پر جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس ناظم صدیقی کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی تھی اور بد مزگی کا ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ افتخار محمد چوہدری اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئے اور صدر پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کی روایات کے برعکس جسٹس افتخار محمد چوہدری کو تین ماہ پہلے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کا چیف جسٹس نامزد کر دیا۔بعد ازاں جب الوداعی ملاقات پر جسٹس ناظم حسین صدیقی پرویز مشرف سے ملنے گئے تو انہوں نے شکوہ کیا کہ افتخار چوہدری کو تین ماہ پہلے ہی چیف جسٹس نامزد کر کے ان کی تضحیک کی گئی اور ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ انہوں نے جسٹس افتخار چوہدری کے حوالے سے انتہائی رازداری سے اہم مواد بھی پیش کیا اور ان کو خبردار کیا کہ ان کا اقتدار اب خطرے میں پڑ گیا ہے۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری ان کے صدارتی انتخاب میں آئینی رکاوٹ پیدا کر کے ان کو اقتدار سے محروم کریں گے۔ یہ بھی آگاہ کیا کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے پاس رہائش گاہ بھی نہیں ہے ۔ ان کے اعزاز میں وزیر اعظم شوکت عزیز نے جو الوداعی ڈنر دیا میں نے بطور سیکرٹری الیکشن کمیشن اس میں شرکت کی تھی۔ یہاں پر جسٹس ناظم صدیقی صاحب نے جو الوداعی خطاب کیا وہ ذو معنی محسوس ہوا۔ ان کی تقریر کا رخ افتخار چوہدری کی طرف آیا تو اچانک ان کا مائیک بند کرا دیا گیا اور وہ اپنا انتہائی اہم نقطۂ نظر پیش نہ کر سکے ‘اور جب ہم انہیں الوداع کرنے کے لئے پرائم منسٹر ہائوس کے پورچ میں پہنچے تو ان کی چیف جسٹس کی گاڑی بھی تبدیل ہو چکی تھی۔یہ سارا منظر عبد الحمید ڈوگر بھی دیکھ رہے تھے ۔ 
میں نے ملک کے وسیع تر مفاد میں تمام واقعات پیش کر دئیے ہیں ۔ملک کو صحیح معنوں میں‘ جمہوری انداز اور قائد اعظم محمد علی جناح کے 11اگست1947ء کے خطاب کی روشنی میں آگے بڑھانا ہے تو چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت میں توسیع اسی انداز میں کروائی جا سکتی ہے‘ جس طرح جسٹس نا ظم حسین صدیقی نے مدت ملازمت میں توسیع کے لئے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ججز کی مدت ملازمت میں توسیع سپریم کورٹ کے اپنے اختیارات میں ہے‘جس طرح سپریم کورٹ کو انتظامی ‘ فنانس ‘سروسز رولز کے بارے میں خود مختاری حاصل ہے‘ تو میری ناقص رائے کے مطابق سپریم کورٹ از خود نوٹس لیتے ہوئے مدت ملازمت میں توسیع کر سکتی ہے ۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق آصف علی زرداری اور فریال تالپور ایف آئی اے کی ٹیم کو اپنا اپنا جواب داخل کرا چکے ہیں اور شنید ہے کہ ایف آئی اے کی چالیس فیصد نفری جے آئی ٹی کی رپورٹ تیار کرنے میں لگی ہوئی ہے ‘سٹیٹ بینک ‘ سکیورٹیز ایکسچینج کمیشن اور ایف بی آر کے افسران بھی معاونت کر رہے ہیں۔ جے آئی ٹی کے سر براہ احسان صادق رپورٹ تیار کرنے میں مصروف ہیں‘ جو عدالت عظمیٰ کو بند لفافے میں پیش کی جائے گی۔ اگر نواز شریف کو احتساب عدالت نے سزا دی اور آصف علی زرداری کی گرفتاری ہوئی تو ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھ جانے کا اندیشہ ہے ۔ ان حالات میں آصف علی زرداری اور نواز شریف ایم آر ڈی کے فارمولے کے مطابق ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گے ۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کی سزائوں کی صورت میں ان کی جماعتوں کے اراکینِ اسمبلی وفاق اور پنجاب اسمبلی سے مستعفی ہو جائیںگے‘ لیکن عملی طور پر ایسا ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ اسمبلی کے دو تہائی ارکان کے مستعفی ہونے سے اسمبلی برخاست کی جا سکتی ہے ۔ آئین اس بارے میں خاموش ہے اور درمیانی راستہ یہی نکل آئے گا کہ آئین کے مطابق ضمنی انتخابات کا انعقاد کر دیا جائے ‘ویسے بھی ان کے ارکان اپنے اپنے مفادات کے تحت اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہوں گے‘ بلکہ اپنی بقا کی خاطر فارورڈ بلاک بن جائے گا اور مسلم لیگ نواز کے اراکین مسلم لیگ کی آغو ش میں چلے جائیں گے اور ان کے پلٹنے سے آرٹیکل 163ون کے تحت کارروائی ناممکن ہوگی۔انہی دنوں اگر ملک سیاسی‘ معاشی‘ خارجی اور اندرونی بحران کی لپیٹ میں آجائے تو پھر وزیر اعظم عمران خان از خود قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں