"KDC" (space) message & send to 7575

نیا ریفرنس اور سیاسی منظرنامہ

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف تحریکِ انصاف کا ریفرنس ابتدائی سماعت کے لئے منظور کر لیا ہے۔ تحریک انصاف نے آصف علی زرداری کی نا اہلی کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صوبائی الیکشن کمشنر (سندھ) کی وساطت سے ریفرنس بھجوایا اور استدعا کی تھی کہ آصف علی زرداری نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مرتب کردہ کاغذات نامزدگی کے گوشوارے میں امریکہ کا اپارٹمنٹ ظاہر نہیں کیا‘ اس طرح وہ صادق اور امین نہیں رہے‘ لہٰذا ان کے خلاف 62 اور63 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے ان کو تا حیات نا اہل قرار دیا جائے۔ میرے خیال میں تحریک انصاف کے وزرا نے آئین کے آرٹیکل 63(1) کی روح کے مطابق آصف علی زرداری کے خلاف ریفرنس دائر نہیں کیا تھا۔ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ریفرنس بھجوانے کا طریقہ موجود نہیں ہے اور ماضی میں تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف، میاں محمد نواز شریف‘ شاہد خاقان عباسی اور دیگر اہم شخصیات کے خلاف ریفرنس دائر کرائے تھے‘ جو ٹیکنیکل بنیادوں پر خارج کر دئیے گئے تھے۔ آئین کے مطابق آصف علی زرداری کے خلاف ریفرنس سپیکر قومی اسمبلی کو بھجوایا جانا چاہئے تھا۔ آئین کی ہی رو سے سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تیس دنوں کے اندر اندر ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوانے کی لازمی شرط ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان ریفرنس موصول ہونے کے بعد 90 روز میں فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے راہنمائوں نے قانونی، آئینی اور اصولی دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان ضابطے کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد ان کے دائر کردہ ریفرنس کو خارج کرنے کے مکمل اختیارات رکھتا ہے۔ بہرحال چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان نے تحریک انصاف کی درخواست پر کمیشن اراکین سے مشاورت کے بعد سابق صدر کے خلاف ریفرنس کو آئندہ چند روز میں سماعت کے لئے مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی نے سیاسی جماعتوں کے راہنمائوں اور ارکان اسمبلی کو محفوظ راستہ دینے کے لئے کاغذات نامزدگی کے فارم میں سے وہ تمام شقیں حذف کر دی تھیں جن کے تحت امیدواروں کے لئے اپنے اثاثے ظاہر کرنا لازمی تھا۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی اور پارلیمانی کمیٹی نے باہمی مشاورت سے متفقہ فیصلہ کر کے کاغذات نامزدگی کے پرانے فارم سے ایسا تمام مواد حذف کر دیا تھا اور سادہ فارم قومی اسمبلی کے ذریعے منظور کرا کے جاری کر دیا تھا۔ اسی دوران لاہور ہائی کورٹ میں قانونی پٹیشن دائر کر دی گئی اور لاہور ہائی کورٹ کی ایک معزز خاتون جج نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا سابقہ کاغذاتِ نامزدگی کا فارم بحال کر دیا تھا۔ انہی دنوں الیکشن شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی کے فارم جانچ پڑتال کے مرحلے سے گزر رہے تھے‘ تو نگران حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کر دی تھی۔ پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے شرط عائد کر دی تھی کہ تمام امیدواروں کو اثاثوں کی تفصیلات کاغذات نامزدگی فارم کے ساتھ منسلک کرنا ہوں گی‘ اور ان کی تصدیق اوتھ کمشنر سے لازمی قرار دیتے ہوئے فیصلے میں واضح طور پر حکم جاری کر دیا کہ الیکشن کے بعد بھی کسی امیدوار کے بارے میں یہ حقائق سامنے آئے کہ اس نے اپنے اثاثے پوشیدہ رکھے ہیں تو اس کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت کارروائی کرتے ہوئے اس کو تا حیات نا اہل قرار دیا جائے گا۔ حلف نامے کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا حصہ بناتے ہوئے یہ بھی لکھا گیا کہ اس کی خلاف ورزی پر توہینِ عدالت کے تحت مقدمہ درج کیا جا سکے گا۔ 
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ہاں آصف علی زرداری کے خلاف حقائق چھپانے کے بارے میں جو ریفرنس دائر کیا گیا ہے میرے خیال میں اسے قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس جمع کرایا جانا چاہئے تھا اور اس مقصد کے لئے تحریک انصاف کی قیادت کو اٹارنی جنرل پاکستان سے مشاورت کرنا چاہئے تھی اور وفاقی سیکرٹری قانون کی معاونت حاصل کرنا چاہئے تھی۔ 
بادی النظر میں تحریک انصاف نے یہ ریفرنس سیاسی مخالفین پر دبائو قائم رکھنے کے لئے بھجوایا۔ جو اطلاعات گردش کر رہی ہیں ان کے مطابق فی الحال آصف علی زرداری کو گرفتار نہیں کیا جائے گا اور ان کو مارچ تک مہلت دی جائے گی۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ آصف علی زرداری اپنی گرفتاری کے خلاف تحریک چلانے کے لئے سندھ کارڈ اور اٹھارہویں ترمیم کا کارڈ استعمال کریں گے‘ کیونکہ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی قیادت ہمیشہ جب مشکل میں ہوتی ہے تو سندھ کے عوام کے حالات کا رونا رونا شروع کر دیتی ہے۔ اندرونی طور پر جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں ان کے تحت سندھ میں ہونے والی کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ایک طرف گورنر سندھ کے ذریعے صوبائی انتظامیہ پر دبائو بڑھایا جا رہا ہے اور دوسری جانب وفاقی وزراء صوبائی انتظامیہ کی نا اہلی اور کرپشن کی بنیاد پر صوبائی حکومت پر دبائو بڑھا رہے ہیں۔ ان حالات میں جنوری اور مارچ کے درمیان آصف علی زرداری، آغا سراج درانی، فریال تالپور، مراد علی شاہ ممکنہ طور پر قومی احتساب بیورو اور ایف آئی اے کی زد میں آ جائیں گے تو پیپلز پارٹی عوام کو متحرک کرنے کی کوشش کرے گی‘ لیکن میرے خیال میں عوام ان کی حمایت میں گرم جوشی سے مظاہرے کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کریں گے‘ کیونکہ کھربوں روپے کی منی لانڈرنگ سے سندھ کی عوام کے ساتھ جو نا انصافی کی گئی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی عوامی حمایت سے محروم ہو جائے گی۔ 
پیپلز پارٹی کے پارلیمانی ارکان نے وزیر اعظم عمران خان اور فیصل واوڈا کے اثاثوں کی تفصیلات جاننے کے لئے الیکشن کمیشن سے رجوع کر کے آصف علی زرداری کے خلاف ریفرنس میں سیاسی توازن برابر کرنے کی کوشش کی ہے‘ حالانکہ عمران خان صاحب کے اثاثوں کی تفصیل الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس کاغذات نامزدگی کے فارم میں موجود ہے۔
احتساب کی جنگ کا طبل بج چکا ہے اور الیکشن کمیشن کے ہاں براہ راست ریفرنس دائر کرنا آصف علی زرداری کی آنکھیں کھولنے کے مترداف ہے۔ میرا خیال تھا کہ قانونی طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان ریفرنس کی سماعت کے بعد اس ریفرنس کو اس بنیاد پر مسترد کر دے گا کہ یہ مناسب فورم نہیں ہے۔ لیکن حالات کچھ اور شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ 
عمران خان پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے کوشاں ہیں اور متحدہ عرب امارات کی امداد سے پاکستان اب آئی ایم ایف کی سختیوں سے بھی باہر نکل آیا ہے اور اس طرح عوام کو حقیقی ریلیف ملنے کے آثار بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ شہباز شریف اپنے خاندان کی بقاء اور قومی احتساب بیورو میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں‘ اور ان کی اہلیہ تہمینہ درانی مفاہمت کی طرف بڑھ رہی ہیں اور میرا اندازہ یہ ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی سے شہباز شریف کے لئے ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ اب اگر شہباز شریف کو عدالتوں سے سزا مل جاتی ہے تو پھر پاکستان مسلم لیگ ن کے پارلیمانی ارکان چوہدری نثار علی خان کی قیادت میں متحد ہو جائیں گے اور اس طرح پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن در پردہ مفاہمت سے اپنی پارلیمانی مدت پوری کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں