"KDC" (space) message & send to 7575

کیا صدارتی نظام کی راہ ہموار ہوسکتی ہے ؟

آصف علی زرداری کے خلاف قومی اسمبلی کی طرف سے دائر کردہ ریفرنس قانونی حیثیت کا حامل ہوگا اور پارلیمنٹ سے ان کی نا اہلی کے امکانات موجود ہیں۔ آصف علی زرداری کے عروج و زوال میں طاقت ورحلقوں کا اہم کردار رہا ہے ‘ان کے والد حاکم علی زرداری ذوالفقار علی بھٹو کے انتہائی نا پسندیدہ تھے۔ حاکم علی زرداری عوامی لیگ مغربی پاکستان کے برائے نام راہنما تھے اور ان کی شیخ مجیب الرحمان سے بھی زیادہ شنا سائی نہ تھی۔ 1970ء کے انتخابات میں انہوں نے حیدر آباد سے چند سو ووٹ حاصل کئے تھے‘ جو ان کے قریبی دوستوں ‘ غریب ہاریوں اور ملازمین کے تھے ۔ 1978ء میں انہوں نے خفیہ طور پر جنرل ضیا الحق سے تعلقات استوار کئے اور ذو الفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے بعد ان کے قریبی دوستوں نے مبینہ طور پر جشن بھی منایا۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کے خاندان کو سیاسی سہارا حاکم علی زرداری نے ہی دیا اور آہستہ آہستہ یہ تعلقات رشتہ داری میںبدل گئے۔ مجھے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر راہنما رائو عبد الرشید نے حاکم علی زرداری کے بارے میں بتایا تھا کہ بھٹو خاندان کی بد قسمتی دیکھئے کہ حاکم علی زرداری بھٹو خاندان کے سر پرست بن گئے۔ 1988ء کے انتخابات میںبھٹو خاندان کو عوام نے اپنے ووٹوں سے عروج کی بلندیوں تک پہنچایااور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہو گئیں ۔محترمہ بے نظیر بھٹو حاکم علی زرداری کو وفاقی کابینہ میں شریک نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ حاکم علی زرداری نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بننے کی کوشش کی جبکہ بے نظیر بھٹو خان عبدالولی خان کو چیئرمین بنانا چاہتی تھیں۔ حاکم علی زرداری نے لندن میں چند دوستوں کی وساطت سے خان عبد الولی خان کو اپنے حق میں کروا لیا ۔ مارچ 1989ء کے اوائل میں وہ 68مارگلہ روڈ اسلام آباد میں تمباکو بورڈ کے گیسٹ ہائوس میں مقیم تھے‘ اسی گیسٹ ہائوس میں حاکم علی زرداری نے خان عبدالولی خان کو ناشتے پر مدعو کیا اور ان کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کی دوڑ سے دستبردار کروا لیا۔ ولی خان نے محترمہ سے استدعا کی کہ حاکم علی زرداری کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا جائے۔ بقول رائو عبد الرشید خان: اس طرح زرداری خاندان اقتدار میں داخل ہوتا چلا گیا ‘ حالانکہ صدر غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کو مشورہ دیا تھا کہ حاکم علی زرداری کو سرکاری عہدہ دینے سے گریز کیا جائے۔ ویسے بھی پارلیمانی روایات کے مطابق یہ عہدہ اپوزیشن کا حق تھا ۔
تحریک انصاف جب سے اقتدار میں آئی ہے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کشمکش اور تنائو ہے ۔ الیکشن کے حوالے سے بحث ہی ختم نہیں ہو رہی تھی کہ اچانک تہلکہ خیز خبریں سامنے آئیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان کی تقرریاں آئین کے آرٹیکل 207سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ نواز شریف کی گرفتاری کے بعد پاکستان کو آہستہ آہستہ صدارتی نظام کی طرف جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے ادارے تحلیل ہونے اور نئے بلدیاتی قوانین کے تحت میئر کے انتخابات براہ راست ہونے ہیں اور ضلع کا میئر اپنے ضلع کے 36سے زائد سرکاری و نیم سرکاری محکموں کا بے تاج حاکم ہوگا اور وہی تمام محکموں کی سالانہ رپورٹ لکھے گا ۔ اسی نظام کے تحت صوبائی حکومت بھی میئر کے سامنے جواب دہ ہو گی۔ ممکنہ طور پر اس طرح کی قانون سازی کروائی جائے گی کہ ملک کے صدر کا انتخاب بھی میئر کی طرز پر براہ راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کروایا جائے اور سینیٹ کے انتخابات بھی قومی اسمبلی کی طرز پر ہونا قرار پائیں گے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ افغانستان‘ ایران‘ ترکی اور مشرقِ وسطیٰ کا ایک عظیم تر بلاک بنانے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں سیاسی ‘ معاشی اور امن و امان کا مثالی استحکا م عروج پکڑے۔ جس طرح 1960ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان بین الاقوامی سطح پر ایک عظیم راہنما کی حیثیت سے ابھرے تھے ‘جس کے آگے فرانس‘ جرمنی‘ امریکہ ‘برطانیہ ‘ مشرق بعید اورمشرق وسطیٰ کے حکمران سر نگوں ہو گئے تھے اور اس کی پشت پر پاکستان کاداخلی استحکام تھا۔ اب پاک چین راہداری کو اس کی اصل روح کے مطابق آگے بڑھانے کے لئے ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ پاکستان کے موجودہ پارلیمانی نظام میں تبدیلیاں لائی جائیں‘ اور میری اطلاعات کے مطابق حکومت کئی اہم شخصیات سے اس نظام کے متبادل نظام لانے کے لئے اور آئین میں تبدیلی لانے کے لئے 1984ء اور2002ء کی طرز پر ریفرنڈم کرانے کے بارے میں گہری سوچ بچار کر رہی ہے۔ ان حساس موضوعات کا فی الحال ذکر کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا‘ بہر حال میں نے ملک میں انڈو نیشیا کی طرز پر پارلیمانی سسٹم پر جو پیپر جولائی 2009ء میں انڈونیشیا کے صدارتی انتخابات کا مشاہدہ کرنے کے بعد تیار کیا تھا ‘اس سے وہ ادارے مستفید ہو سکتے ہیں جو اس پر کام کر رہے ہیں۔ میں نے انڈونیشیا کے طرزِ حکومت کے بارے میں جو رپورٹ اُس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ‘ چیف جسٹس آف پاکستان‘ سپیکر قومی اسمبلی ‘ آرمی چیف اور صدر مملکت کو بھجوائی تھی اسی طرح کا ملتا جلتا سسٹم ترکی میں رائج ہے‘ لیکن بادی النظر میں انڈو نیشیا کا سسٹم بہتر ہے اور پاکستان کے بلدیاتی اداروں کے حوالے سے میں نے جو رپورٹ وزیر اعظم عمران خان کو پیش کی تھی اس میں بھی یہ واضح کیا تھا کہ بلدیاتی اداروں کے حوالے سے بہترین سسٹم انڈو نیشیا کا ہی ہے ۔
نواز شریف اور آصف علی زرداری کا جب سیاسی مستقبل ختم ہو جائے گا تو شہباز شریف ہی ایک ایسی لچکدار شخصیت کے طور رہ جائیں گے جو چوہدری نثار علی خان‘ سردار ایاز صادق ‘ شاہد خاقان عباسی ‘ خواجہ محمد آصف ‘ خواجہ سعد رفیق کی مفاہمتی پالیسی کو آگے بڑھانے کے لئے نظام کا حصہ بن جائے گی۔ میرے خیال میں سندھ میں گورنر راج کے بعد پیپلز پارٹی سے وہی سلوک کیا جائے گا جیسا وزیر اعظم بھٹو نے بلوچستان اور سرحد میں گورنر راج نافذ کر کے حسب منشا نتائج حاصل کر لئے تھے ۔ اب حالات مختلف ہیں۔ عمران خان صاحب کو ادراک ہونا چاہیے کہ دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔امریکی نیو ورلڈ آرڈر افغانستان ‘ شام ‘عراق اور لیبیا کے بعد غیر مؤثر ہو چکا ہے ۔ عوامی جمہوریہ چین ابھرتی ہوئی طاقت ہے ۔ سامراجی اور نو آبادیاتی طاقتیں لرز رہی ہیں۔ امریکہ واضح اعلان کر رہا ہے کہ اسے اور اس کے اتحادیوں کو صرف اور صرف چین سے خطرہ ہے ۔ یہ تمام طاقتیں چین کے خلاف متحد ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کا عالمی سیاست میں ایک بار پھر مرکزی کردار بن رہا ہے‘ کیونکہ پاک چین اقتصادی راہداری ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا اہم حصہ ہے۔ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی کی ضرورت سے اسی لئے دوچار ہے۔ موجودہ فارن آفس میں آغا شاہی‘ اکرم ذکی ‘عزیز احمد اور صاحبزادہ یعقوب علی خان جیسی قد آور شخصیات کا فقدان ہے ۔ ان حالات میں امریکی پالیسیوں کے خلاف ہوا کا رخ تبدیل کر کے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا جا سکے گا۔ ہمارا مخصوص حلقہ حنا ربانی کے قصیدے پڑھتا رہتا ہے اور ان کی واجبی تعلیم کا بھرم این جی او کے بعض ماہرین نے رکھا ہوا تھا‘ جو ان کے اتالیق بنے ہوئے تھے ۔ امریکہ اور چین کے درمیان محاذ آرائی بڑھ رہی ہے ‘ پاکستان کے سمندر اس کی آماجگاہ بننے والے ہیں جبکہ پاکستان سیاسی طور پر کمزور ہوتا جا رہا ہے ۔ اس تناظر میں پاکستان نہ تو کوئی فیصلہ کر سکے گا اور نہ ہی حالات کا سامنا کر سکے گا ‘کیونکہ پاکستان عالمی طاقتوں کے ٹکرائو کا ایک بار پھر میدان بن رہا ہے ۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں کرپشن کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں اور خود وزیر اعظم کی جماعت اپنی کار کردگی کی وجہ سے سیاسی ساکھ برقرار رکھتی دکھائی نہیں دیتی اور اگلے سال کے بجٹ میں سخت مشکلات درپیش ہوں گی ۔ عوام تیونس کا تجربہ پاکستان میں آزما سکتے ہیں اور موجودہ سسٹم ناکام ہو سکتا ہے۔ اس طرح ملک میں فرانس کی طرز پر نیا سیاسی نظام نافذ ہوتے ہوئے میں دیکھ رہا ہوں۔ قائد اعظم اپنی ذاتی ڈائری میں اس کا ذکر کر چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں