"KDC" (space) message & send to 7575

تحریکِ عدمِ اعتماد : امکانات، اندیشے

سویلین حکومتیں گرانے اور بنانے کا سلسلہ 1951ء سے 1958ء تک اور 1985ء سے لے کر 1999ء تک جاری رہا اور حکومتوں کا خاتمہ ہوتا رہا ۔ سب پر الزام کرپشن کا تھا ‘مگر جائزہ لیا تو الگ حقیقت سامنے آتی رہی۔ محمد خان جونیجو کی حکومت اپنی حکمرانی کی بالا دستی کا شکار ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت پر جو الزام لگے وہ عدالتوں میں کمزور مقدمے کی وجہ سے ثابت نہ ہوسکے ۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کرپشن پر بر طرف کی گئی‘ لیکن اندرونی طور پر ان کی حکومت کی بر طرفی ان کے پینٹا گون سے گہرے تعلقات اور ایٹمی پراسیس کے بارے میں سٹیٹ کی پالیسی سے انحراف کا نتیجہ تھی۔ صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کی آڑ میں ان کی حکومت کو سبکدوش کر دیا ۔ حکومت بنانے اور تحلیل کرنے میں اصغر خان کیس کی اپنی اہمیت ہے کہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے روکنے اور نواز شریف کو اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کی گئی ‘ اور اس سارے عمل میں دولت کا بے دریغ استعمال ہوا ۔
ملک میں سیاسی کشمکش اور سیاسی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوریت کو نقصان ہمیشہ داخلی سیاسی کشمکش سے ہوا ہے۔ مفاد پرست عناصر اس سے فائدہ اٹھا کر انتشار کو ہوا دیتے ہیں‘ لہٰذا رسہ کشی اور عدم رواداری کے باوجود صورت حال قابو سے باہر نہیں ہونی چاہیے۔ ملک اس وقت احتساب کی آزمائش اور فیصلہ کن دورانیے میں ہے ۔ اپوزیشن راہنمائوں کے خلاف میگا کرپشن کیسز چل رہے ہیں۔ حالات کا پینڈورا بکس کھلنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ عمران خان صاحب کے اقربا کو کسی حوالے سے متنازعہ بنانے کی مہم شروع ہو چکی ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی خود نوشت کے حوالے سے ابہام زدہ مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ عمران خان صاحب کے احتساب کے بارے میں سخت مؤقف کی وجہ سے بھی ان کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا جا رہا ہے اور اب اگر تحریک ِانصاف سندھ میں عدم اعتماد کی تحریک لانا چاہتی ہے تو سیاسی رابطے اور عددی اکثریت کے جمہوری طریقوں پر عمل کرنے کا اسے حق حاصل ہے؛تاہم صورتحال کی سنگینی کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے ۔
جب سیاست شدید تنائو اور سیاسی درجۂ حرارت غیر معمولی کشیدگی کی غمازی کر رہا ہو تو حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی شو ڈائون کے ہولناک نتائج کا دور اندیشی سے ادراک کر لینا چاہیے۔ واضح رہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 99ہے ‘ تحریکِ انصاف کے ارکان کی تعداد 30‘ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد 20‘ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے پاس 14 ارکان اسمبلی ہیں‘ جبکہ تحریک لبیک کے پاس تین ا ور متحدہ مجلس عمل کے پاس ایک رکن اسمبلی ہے۔ اس طرح اپوزیشن جماعتوں کے ارکانِ اسمبلی کی تعداد 68بنتی ہے۔ تحریک لبیک اور متحدہ مجلس عمل کے رکن بھی ممکنہ طور پر مراد علی شاہ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد میں تحریک انصاف کا ساتھ نہیں دیں گے۔ ان کے ان سے نظریاتی اور سیاسی اختلافات واضح ہیں اور کراچی میں تحریکِ انصاف کے پاس ایسی متحرک شخصیات کا فقدان ہے جو پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے ساتھ سودا بازی کر سکیں۔ پھر ان کے ہاں سے کسی منحرف رکن نے تحریک عدم اعتماد میں تحریک انصاف کے ساتھ سودے بازی کی تو آئین کے آرٹیکل 63ون کے تحت سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کی جانب سے فارغ کردئیے جائیں گے اور ان کی سیاسی ساکھ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔علاوہ ازیں سیاسی یلغار کی تپش وفاق تک محسوس کی جائے گی اور اس کے شعلے بلوچستان تک دیکھے جا سکیں گے ۔
حکومت کی نیم دلانہ پالیسی کی وجہ سے بلوچستان میں با آسانی وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے‘ اور میری اطلاع کے مطابق وفاق میں سابق صدر آصف علی زر داری تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے خفیہ طور پر جوڑ توڑ کر رہے ہیں اور پارلیمنٹ کی غلام گردش میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ آصف علی زرداری سردار اختر مینگل کو قائل کر کے ان کو وزیر اعظم بنانے کی مہم چلارہے ہیں اور اگر آصف علی زرداری اس مہم میں کامیاب ہوگئے تو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک ِعدم اعتماد مارچ کے پہلے ہفتے میں آنے کی توقع کی جا رہی ہے ‘کیونکہ آئین کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد چھ ماہ کے بعد ہی قومی اسمبلی میں پیش کی جا سکتی ہے۔ اس عرصے میں آصف علی زرداری ‘ فریال تالپور اور دیگر کلیدی راہنما منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار ہو جاتے ہیں تو پھر اپوزیشن کے راہنما اپنی اس کوشش میں ناکام ہو جائیں گے۔ بہر حال زیر زمین یہی منصوبے بنائے جا رہے ہیں کہ وفاق میں وزیر اعظم کو زک پہنچانے کے لئے ان کے خلاف سازشوں کا جال بچھا دیا جائے‘ تاکہ ان کے خلا ف احتسابی کارروائی کو روکا جا سکے ۔ عمران خان کے دستِ راست چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف بھی جنگلات اراضی کیس میں عنقریب سماعت شروع ہو نے والی ہے‘ اور شنید ہے کہ 16 جنوری سے پہلے سپریم کورٹ ان کے خلاف فیصلہ کن سماعت کرے گی اور بادی النظر میں اس کیس سے چوہدری برادران کی سیاست کا فیصلہ کن موڑ آ جائے گا۔ بین السطور میں دیکھا جا رہا ہے کہ چوہدری برادران اور عمران خان میں گرم جوشی کا فقدان طاہر بشیر چیمہ اور راجہ بشارت کی وجہ سے پیدا ہو چکا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ان کے سیاسی ستارے اوجھل ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔
حکومتی وزیر فیصل واوڈا کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ چوہدری نثار علی خان مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک بنانے کی راہ پر ہیں ۔ چوہدری نثار علی خان کو فارورڈ بلاک بنانا ہوتاتو ان کے لئے سنہری موقع جولائی 2017ء میں آیا تھا جب نواز شریف نا اہلی کے بہت قریب آگئے تھے۔ انہوں نے اپنی خاندانی روایات کے پیش نظر پارٹی میں نقب زنی سے اجتناب کیا ۔ عمران خان اپنے مخلص سیاسی دوستوں سے رابطے میں رہیں اور ایسا فوکل پرسن مقرر کریں جو انہیں سیاسی نشیب و فراز سے براہ راست آگاہ کرتا رہے ۔ میری نظر میں جہانگیر ترین ان کے ہمدرد اور مخلص دوستوں میں سے ہیں‘ جو ان کو پاکستان میں سیاست کے نشیب و فراز اور تحریکِ عدم تعاون کی سازشوں سے با خبر رکھ سکیں گے ۔ میری اطلاع یہ بھی ہے کہ عمران خان کی کابینہ کے بعض ارکان جہانگیر ترین کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں اور انہوں نے میڈیا کے چند اینکرز کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ اقتدار کے ایام میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے کارکنوں سے طویل فاصلہ رکھا اور کارکن اپنی قیادتوں سے مایوس اور بے زار ہوئے‘ کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں ہوتی ہیں تو کارکنوں کو میلوں دور رکھتی ہیں ۔ 
وزیر اعظم عمران خان نے غریب عوام کے فائدے کے لئے قومی بچت کی تمام سکیموں کی شرح منافع میں اضافہ کر کے پچاس لاکھ افراد کو فائدہ پہنچا دیا ہے اور اب لاکھوں گھرانے ان کی پشت پر کھڑے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی وزارتِ اطلا عات و نشریات کو اس خوش کن اقدام سے فائدہ اٹھانا چاہیے‘ کیونکہ چھ سال بعد قومی بچت سکیموں پر منافع فوری طور پر بڑھا دیا گیا ہے۔ اپوزیشن سٹریٹ پاور سے محروم ہو گئی ہے‘ کیونکہ اب عوام کو یقین ہوتا جا رہاہے کہ وزیر اعظم عمران خان ان کی فلاح و بہبود کے لئے عملی اقدامات کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں