"KDC" (space) message & send to 7575

بلاول بھٹو متبادل بن سکیں گے؟

سندھ میں ان ہائو س تبدیلی لانے کے لیے مطلوبہ نمبرز دستیاب نہ ہونے کے باو جود سندھ کی تحریک انصاف اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لے پسِ پردہ سر گرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں جو مختلف سیاسی پہلو زیر غور ہیں‘ ان میں ایک نیا طریقہ دریافت کرنے کا دعویٰ بھی کیاگیا ہے‘ تاہم میری نظر میں سندھ اسمبلی میں واضح اکثریت رکھنے والی پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ کو سبکدوش کرنے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا طریقہ آزمایا گیا تو اس سے آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئین کی رو سے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والا رکن ایک ہو یا تیس‘ سب نا اہلیت کے زمرے میں آجائیں گے۔ واضح رہے کہ ای سی ایل پر 172افراد کے نام ڈالنے اور سندھ میں گورنر راج سے متعلق پی ٹی آئی راہنمائوں کے بیانات کا چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار صاحب کی جانب سے نوٹس لیے جانے کے بعد قدرتی طور پر یہ تاثر پیدا ہوا کہ سندھ میں اقتدار کی تبدیلی کے حوالے سے جاری سر گرمیوں کو بریک لگ گئی ہے‘ تاہم ایسا نہیں ہوا کیونکہ کابینہ نے ای سی ایل میں شامل ان 172 افراد کے معاملے کی جانچ پڑتال کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔ بادی النظر میں نظر ثانی کا مرحلہ طویل تر ہو سکتاہے اور اس دوران آصف علی زرداری دبائو میں رہیں گے ۔ 
وفاقی دار الحکومت میں جو سر گرمیاں جاری ہیں‘ ان کی بنا پر اگرچہ گورنر راج کا آپشن فی الحال زیر غور نہیں‘ جناب چیف جسٹس بھی اس ضمن میں کہہ چکے ہیں کہ ایسے کسی اقدام کو کالعدم قرار دینے میں سپریم کورٹ ایک منٹ نہیں لگائے گی‘ لیکن وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے رابطوں کا سلسلہ پارٹی کے اندر سے جاری ہے ۔ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے ایک سینئر راہنما کے بقول وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے یہ آپشن اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے دوران پیپلز پارٹی کے وہ ارکان لا تعلق ہو جائیں گے جو تحریک انصاف کے بقول پارٹی قیادت سے انحراف کر کے اب ان کے ساتھ رابطے میں ہیں‘ تاکہ ان کو نا اہلی سے بچایا جا سکے۔ آئین کے آرٹیکل62اور 63(1) کے تحت ان ارکان کے خلاف بھی نا اہلی کا ریفرنس دائر کیا جاسکتا ہے کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کوئی رکن پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر نا اہلی کی زد میں آئے گا ؛تاہم اگر وہ رائے شماری میں حصہ ہی نہیں لیتے تو پھر اس نااہلی سے بچ جائیں گے۔ البتہ اس بارے میں کچھ دوسری آرا بھی موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ اسمبلی میں 99ارکان ہیںلہٰذا وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے اپوزیشن کو ان کے لگ بھگ25 ارکان توڑنے ہوں گے۔ تحریک انصاف چونکہ کمزور وکٹ پر کھڑی ہے‘ لہٰذا خدشات موجود ہیں کہ سندھ اسمبلی میںمطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکے گی اور تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی۔ آئین کی رو سے ایک بار تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے پر دوبارہ پیش کرنا نا ممکن ہو جائے گا‘ اور اس کے لیے دو سال تک انتظار کرنا پڑے گا ۔اس طرح تحریک انصاف کو سندھ میں حکومت گرانے کے خیال کو ترک کرنا پڑے گا ۔اب چونکہ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے مبینہ طور پر نکال دیا گیا ہے تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا خدشہ بھی دم توڑ گیا ہے ۔
آئین میں ایسا کوئی آرٹیکل نہیں کہ ا یوان میںا گر کسی پارٹی کے موجود ارکان میں سے نصف یا ایک تہائی ارکان توڑ لیے جائیں تو ایک گروپ کی شکل میں وہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔ اس کے بر عکس پاکستان کے آئین میں واضح لکھا ہواہے کہ کسی بھی پارٹی کا رکنِ اسمبلی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اگر اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو وہ نا اہلی کی زد میں آ جائے گا۔ یہ نہیں لکھاکہ اجتماعی صورت میں اسے یہ قدم اٹھانے کی اجازت ہے۔ اسی طرح اگر وزیر اعظم کے انتخابات کے موقع پر کوئی رکنِ اسمبلی رائے شماری میں حصہ نہیں لیتا تو وہ بھی نا اہلی کی زد میں آئے گا‘ اگر وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مطمئن نہ کر سکے۔ اسی لیے دونوں پارٹیوں کے بعض راہنما آئین کامطالعہ کیے بغیر مختلف دعوے کرنے میں مصروف ہیں ۔
میرے خیال میں وزیر اعظم عمران خان ان آئینی رکاوٹوں کے باوجود پیپلز پارٹی کے منحرف ارکان کی پشت پناہی سے وزیر اعلیٰ سندھ کو سبکدوش کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں‘ جس کے لیے بلوچستان کا ہی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا‘ جہاں مسلم لیگ نواز کے وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری کے خلاف ان کی اپنی ہی پارٹی کے ارکان کواستعمال کیا گیا؛ تاہم تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی سردار ثنا اللہ زہری نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی ایما پر استعفیٰ دے دیا تھا۔ آئین کے آرٹیکل 63 (1) کا اطلاق تب بھی ہونا تھا‘ لیکن اس سے بے پروا ہو کر نواز لیگ کے ارکان اپنے ہی وزیر اعلیٰ کے خلاف بغاوت کر کے ووٹ دینے کی تیاری کر رہے تھے ‘تاہم شدید دبائو کے نتیجے میں ثنا اللہ زہری کو مستعفی ہونا پڑا ‘ ورنہ یہ طے تھا کہ نواز لیگ کے منحرف ارکان بھی ان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دیتے ۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ اسی تناظر میں سندھ میں بھی یہی عمل دوہرانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ سندھ مستعفی نہ ہوئے تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی اور اس میں مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کے باغی ارکان بھی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیں گے اورکہا جا رہا ہے کہ ان میں مراد علی شاہ کی کابینہ کے اہم ارکان موجود ہیں جو مراد علی شاہ کی کچن کابینہ کے رویے سے نالاں ہیں۔ بعض ارکانِ صوبائی اسمبلی کو مرتضیٰ وہاب کے بارے میں بھی تحفظات ہیں جن کو اہم وزارتیں تفویض کی گئی ہیں ۔
اٹھارہویں ترمیم کے تحت کچھ آمرانہ اختیارات پارٹی سربراہ کے سپرد کر دئیے گئے ہیں‘ جن کے مطابق پارٹی پالیسی کے بر خلاف ووٹ دینے والے پارٹی کے رکن کو نا اہلی کا سامنا کرنا پڑے گا‘ لیکن یہ طریقہ کار خاص پیچیدہ اور طویل ہے اور تحریک انصاف اسی کا فائدہ اٹھانے کی تیاری کر رہی ہے ۔ آئین میں لکھا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے پارٹی پالیسی سے انحراف کر کے ووٹ دینے والا کوئی رکن نا اہل ہو جائے گا‘ لیکن یہ نہیں لکھا کہ اس کا ووٹ کار آمد نہیں ہو گا ۔ اگر وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرار داد لائی جاتی ہے تو اس کے حق میں پیپلز پارٹی کے ووٹ کار آمد ہوں گے‘یعنی وزیر اعلیٰ کی نا اہلی ان ووٹوں سے ہو سکتی ہے؛ تاہم اپنی ہی پارٹی کے وزیر اعلیٰ دوسرے الفاظ میں اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے ارکانِ اسمبلی کی نا اہلی کا پروسیجر شروع ہو جائے گا‘ مگر یہ پروسیجر خاصا طویل ہے‘ اس کے لیے پارٹی سر براہ کو مذکورہ باغی رکن یا ارکان کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس دینا ہو گا۔ پھر متعلقہ رکن اسی اظہار وجوہ کا جواب دے گا ‘ بعد ازاں رکن کی نا اہلی سے متعلق پارٹی سر براہ سپیکر کو سفارش بھیجے گا‘ سپیکر 30دن کے اندر یہ ریفرنس چیف الیکشن کمشنر کو بھیج دے گا ‘ چیف الیکشن کمشنر کو 90دن کے اندر فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ نا اہلی کی درخواست منظور کرے یا نہ کرے۔ اگر الیکشن کمیشن نا اہلی کی توثیق کردیتا ہے تو پھر متعلقہ رکن ایوان کا حصہ نہیں رہے گا ‘ تاہم متعلقہ رکن کو 30 دن کے اندر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل کا حق حاصل ہے اور عدالتِ عظمیٰ کی صوابدید ہے کہ فیصلہ کب سنائے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں