"KDC" (space) message & send to 7575

بلاول بھٹو متبادل بن سکیں گے؟…(2)

اس طویل آئینی سلسلے کے علاوہ بھی ایک نیا آئینی مسئلہ پیدا ہو جائے گا کہ نا اہل ارکان کے لیے 60 روز کے اندر ضمنی الیکشن کرانا ہوں گے‘ مگر اس معاملے میں دلچسپ صورت حال یوں سامنے آ سکتی ہے کہ اگرچہ نا اہلی کا مقدمہ الیکشن کمیشن میں زیر سماعت رہے گا ‘اور تحریک انصاف مخلوط طرز حکومت کے تحت صوبہ سندھ میں حکمرانی کے مزے لوٹتی رہے گی‘ جبکہ پیپلز پارٹی کا باقی ماندہ حصہ اپوزیشن کا حصہ ہو گا۔ الیکشن کمیشن اگر 90 روز کے اندر ان باغی ارکان کو نا اہل قرار دے دیتا ہے‘ تو پھر سندھ اسمبلی میں ایک نیا آئینی بحران پیدا ہو جائے گا‘ اور ان کے ووٹوں اور تائید سے وزیر اعلیٰ بننے والا اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کر سکے گا‘ یوں اسے مستعفی ہونا پڑ ے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسی دوران تحریک انصاف کا نامزد کردہ وزیر اعلیٰ سندھ اسمبلی کو ہی تحلیل کر کے از سر نو انتخابات کا شیڈول جاری کروا دے۔ سندھ اسمبلی کا ایوان 168ارکان پر مشتمل ہے۔ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے85 ووٹ درکار ہیں ‘ اگر تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے اپنے مطلوبہ ارکان پورے کرنے کے لیے موجودہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو بر طرف کروا دیا‘ تو اس سے بلوچستان ‘ پنجاب اور وفاق میں بد ترین آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں جتناسمجھا جا رہا ہے ۔اس سے چاروں صوبوں میں ایک نیا سیاسی بحران پیدا ہو گا ‘ اور وہاں کے سیاسی رہنما اور عوام اس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد کریں گے۔ اس تناظر میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا وفاقی حکومت بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پاکستان تحریک انصاف پورے ملک کے عوام کے اس غصے کی تاب لا سکے گی ‘ جو اس عمل یعنی صوبائی حکومتی نظام میں عدم استحکام پید اکرنے کے نتیجے میں سامنے آئے گا؟ 
میں عوامی رہنمائی کے لیے ذاتی طور پر نشاندہی کرنا چاہتا ہوں کہ اس سارے عمل میں بلاول بھٹو کا کوئی پارلیمانی کردار نہیں‘ کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام ارکان نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ ا ہے اور جماعت اسی نام سے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سر براہ بلاول نہیں بلکہ آصف علی زرداری ہیں۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو بھی رکن پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے ہیں اورپاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں ہے۔اس طرح ساری گیم آصف علی زرداری کے ارد گرد گھومتی نظر آرہی ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پیپلز پارٹی اور پارلیمنٹیرین‘ دونوں نے اتحاد کیا‘ جو قانونی لحاظ سے ابہام زدہ ہے۔
اس حوالے سے ایک اور معاملہ بھی ہے‘ جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور اسی سلسلے میں اب ہم تحریک انصاف‘ اپوزیشن جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں کے ادراک کے لئے اٹھارہویں ترمیم کی طرف آتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس ترمیم کے بعد وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد یا اعتماد کی تحریک کے حوالے سے پاکستان کا آئین کیا کہتاہے ۔ آرٹیکل136(1) کہتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی قرار داد‘ جسے صوبائی اسمبلی کی کل رکنیت کے کم از کم بیس فیصد نے پیش کیا ہو ‘ صوبائی اسمبلی کی طرف سے منظورکی جاسکے گی۔شق (2)کے مطابق شق (1) میں محولہ کسی قرارداد پر اس دن سے تین دن کی مدت کے خاتمہ سے پہلے یا سات دن کی مدت کے بعد ووٹ نہیںلیے جائیں گے جس دن مذکورہ قرار داد اسمبلی میں پیش کی گئی ہو۔ شق (3)کی رُو سے اگر شق (1) میں محولہ قرار داد کو صوبائی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور کر لیا جائے تو وزیر اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں رہے گا۔ اسی طرح پارٹی سے انحراف کی بنیا دپر نا اہلیت کے حوالے سے آئین کا آرٹیکل 63الف ون کہتا ہے کہ اگر کسی ایوان میں کسی تنہا سیاسی جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہو جائے یا کسی دوسری پارٹی میں شامل ہو جائے یا (ب) اس پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جس سے اس کا تعلق ہو جاری کردہ حسب ذیل سے متعلق کسی ہدایت کے بر عکس ایوان میں ووٹ دے یا ووٹ دینے سے اجتناب کرے (اول: وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کا انتخاب ،دوئم: اعتماد یا عدم اعتماد کا ووٹ، سوئم: کوئی مالی بل یا دستوری (ترمیمی بل) تو پارٹی کا سربراہ اعلان کر سکے گا کہ وہ اس کی سیاسی جماعت سے منحرف ہوگیا ہے اور پارٹی کا سر براہ اعلان کی ایک نقل سپیکر کو فراہم کرے گا جو 30 دن کے اندر یہ اعلان چیف الیکشن کمشنر کو بھیج دے گا‘ جبکہ پارٹی سر براہ اس اعلان کی ایک نقل متعلقہ رکن کو بھی بھیجے گا‘ مگر شرط یہ ہے کہ اعلان کرنے سے پہلے پارٹی سر براہ مذکورہ رکن کو اس بارے میں اظہار وجوہ کا موقع فراہم کرے گا کہ کیوں نہ اس کے خلاف مذکورہ اعلان کر دیا جائے ۔سپیکر کی جانب سے اعلا ن وصولی کے 90روز کے اندر الیکشن کمیشن آف پاکستان اس اعلان کی توثیق کرے گا یا اس کے برخلاف فیصلہ سنائے گا ۔ جب الیکشن کمیشن اعلان کی توثیق کرے تو مذکورہ رکن ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی ۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے نا راض کوئی فریق 30 دن کے اندر عدالتِ عظمیٰ میں اپیل دائر کرسکے گا جو اپیل داخل کرنے کی تاریخ سے90دنوں کے اندر اس معاملہ کا فیصلہ کر سکے گی۔ 
ان تمام معروضات سے قطع نظر چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے حالیہ ریمارکس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنمائوں جن میں بلاول بھٹو زرداری‘ مراد علی شاہ اور فاروق نائیک شامل ہیں کو ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے کر تحریک انصاف کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے منصوبے کو تحلیل کر دیا ہے ۔ اس طرح بلاول بھٹو زرداری کو ایک فائدہ اور اعتماد حاصل ہوا ہے اور ان کی پارٹی کو بھی۔اس طرح پیپلز پارٹی کو پنجاب میں قدم جمانے کی سہولت حاصل ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں جب پنجاب میں مسلم لیگ ن کی قیادت جیل میں ہے اور پارٹی تحریک انصاف کی حکومت سے ناراض ہے‘ پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب کے میدان میں اترنا آسان ہو گیا ہے۔ فی الحال وہ سندھ پر توجہ دئیے ہوئے ہیں مگر خارج از امکان نہیں کہ اگلے کچھ عرصے میں پنجاب کا رخ بھی کریں۔بلاول بھٹو زرداری کا نام جے آئی ٹی سے نکالنے سے حکومت کو سیاسی طور پر نا قابل تلافی جھٹکا لگا ہے اور کابینہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے ہیں۔ بادی النظر میں بلاول بھٹو زرداری پر پاکستان کی سیاست میں دروازے کھل گئے ہیں اور میری نظر میںاب بلاول عمران خان کے متبادل کے طور پر سامنے آئیں گے کیونکہ وزیر اعظم پاکستان کے بیانات سے اس قوم کے مقد ر پر چھائے ہوئے اندھیرے غائب نہیں ہوئے اور نہ ہی کرپشن کے خاتمے کے لیے کوئی مثبت پالیسی اپنائی گئی بلکہ اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے ‘ گورنر راج کے نفاذ اور سندھ میں تحریک عدم اعتماد لانے جیسے غیر معقول مفروضے پیدا کر کے عوام میں بے چینی کی لہر دوڑا دی گئی ہے ۔ جب قدرت قوموں ‘ ملکوں اور دنیا کی تاریخ کی راہیں اور منزلیں متعین کرتی ہوتی ہے تو ہر نتیجہ سامنے لانے کے لئے نتیجہ آفریں شخصیت کا انتخاب بھی کرتی ہے۔ شریف خاندان کا سورج غروب ہو چکا ہے‘ لہٰذاغیر مرئی قوتیں بلاول بھٹو زرداری کو عمران خان کے متبادل کھڑا کرنے کی راہ ہموار کر رہی ہے ۔ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے‘ اس بارے میں فوری طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال وقت کے ساتھ ٖحالات اور معاملات خود بخود واضح ہوتے چکے جائیں گے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں