"KDC" (space) message & send to 7575

عدم استحکام کی جانب پیش قدمی

یہ حقیقت وزیر اعظم عمران خان سے بہتر کون جانتا ہے کہ عوام نے انہیں ملک کی باگ ڈور کیوں سونپی۔ یقینا ً انہیں ملکی دولت واپس لانے کے نعرے اور عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے انتخابی دعوے بھی یاد ہوں گے۔ عوام نے نئی حکومت کو اپنی کار کردگی دکھانے کا نہایت صبرو استقامت سے وقت دیا۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہئے کہ ابہام کی فضا سے بد گمانیوں اور مشکلات کے بگولے ہی بر آمد ہو تے ہیں‘ اور صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔ عوام کے نزدیک تبدیلی بنیادی اشیا ئے ضروریہ کی فراوانی اور ارزاں دستیابی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے مالیاتی بحران سے نکلنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ آئی ایم ایف کو بطور آخری آپشن رکھا اور دوست ممالک سے رجوع کرنے کا احسن فیصلہ کیا ۔پاکستان کے دوست ممالک سے تعاون حاصل کرنے کی کوششیں بھی رنگ لائیں اور سعودی عرب ‘ متحدہ عرب امارات اور ترکی پاکستان سے معاشی روابط میں منسلک ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ابہام جوں کا توں ہے۔ اس خبر نے عوام کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ حکومت نے پانچ ماہ میں 2240ارب روپے قرض لیا۔ منفی کے بجائے اگر مثبت سوچیں تو کیا یہ اچھی بات نہیں کہ اقتصادی بحران سے نکلنے کی راہ ہموار ہو رہی ہے اور اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے کیونکہ اگر آئی ایم ایف سے یکمشت بیل آئوٹ کا قرضہ لیتے تو اس سے مہنگائی‘ جو پہلے ہی عام آدمی کو نڈھال کیے ہوئے ہے‘ بے لگام ہو جاتی ۔ 
علیمہ خان صاحبہ کی جائیداد کے معاملے میں حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہیں۔ دونوں فریقوں نے اس حوالے سے ایک دوسرے پر بلا وجہ تنقید شروع کر دی ہے اور علیمہ خان اپنا نقطہ نظرپریس میں پیش کر چکی ہیں۔ اس معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا مطالبہ حقائق سے اس لیے بر عکس ہے کہ علیمہ خان صاحبہ کے کارو بار کا حکومت سے سروکار نہیں۔ علیمہ خان کو چاہیے کہ عمران خان کو اس بحران سے نکالنے کے لیے خود آگے بڑھیں‘ کیونکہ علیمہ خان2000ء سے ٹیکسٹائل گارمنٹس کی بر آمدات کا اپنا بزنس چلا رہی تھیں۔ وہ پاکستان میں اس بزنس کے حوالے سے اپنا نام پید اکر چکی تھیں۔ علیمہ خان کا ٹیکس ایشو ہے جس پر انہیں جرمانہ ہو چکاہے اور شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی میں شفافیت کے حوالے سے عوام کو مکمل اعتماد ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ علیمہ خان کے حوالے سے ان کی ذاتی زندگی بھی موضوع بن سکتی ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جو سلمان اکرم راجہ نواز شریف کے بچوں کے دفاعی وکیل تھے‘ آج علیمہ خان کی وکالت کیلئے بھی انہی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں‘ جس طرح وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے اپنی دوہری شہریت کے مقدمے میں اعتزاز احسن کی خدمات حاصل کیں۔ عوام کو آنکھیں کھول کر رکھنی چاہئیں کہ اشرافیہ کے مفادات کہاں ہیں‘ اور کہاں ان کے مفادات یکجا ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ ٹاک شوز میں ایک دوسرے پر حملے کرنے کے بعد رات کو ایک ہی چھت کے نیچے عوام کا مذاق اڑاتے ہیں ۔
ماضی نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ اقتدار میں آ کر حکمران اشرافیہ سب کچھ بھول جاتی ہے اور ان کی راہ میں جو حائل ہونے کی کوشش کرتا ہے‘ اسے عبرت کا نشان بنا دیتی ہے‘ جس طرح پاکستان کے مایہ ناز صنعت کار حئی سنز نے 1970ء کے الیکشن میں ذو الفقار علی بھٹو کی ایماپر پارٹی فنڈز میں نوے لاکھ روپے دینے سے انکار کر دیا تو صدر ذو الفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971ء کو اقتدار کی پہلی رات میں ان کی صنعت کو قومی تحویل میں لے لیا۔ اسی طرح صدر ذوا لفقار علی بھٹو نے اس رات‘ جب قوم مشرقی پاکستان کے غم میں ڈوبی ہوئی تھی‘مارشل لا کا پہلا فرمان جاری کرتے ہوئے سندھ بھر کی اوقاف کی زمینیںسندھیوں کو تفویض کرکے لاکھوں مہاجرین کو بے دخل کروا دیا تھا۔ اگر کوئی تنظیم اس بارے میں تحقیق کرنا چاہے تو 22دسمبر1971ء کے اخباروں سے استفادہ کر سکتی ہے ۔ پنجاب میں مشرقی پاکستان کے سقوط پر ماتمی جلوس نکل رہے تھے جبکہ اندرون سندھ اشرافیہ جشن منا رہی تھی‘ اسے سندھ دیش بنانے کی پیش رفت قرار دیا جا رہا تھا اور نواب اکبر بگٹی یونائیٹڈ سٹیٹس آف پاکستان کے نام سے نئے ملک کی تجویز پیش کرتے ہوئے پاکستان کے چاروں صوبوں پر مشتمل کنفیڈریشن بنانے کی تجویز دے رہے تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر مملکت بننے کے بعد جو عبوری آئین 17اپریل 1972 ء کو منظور کرایا‘ وہ صدارتی طرز حکومت پر مشتمل تھا‘ بعد ازاں آئین بننے کے بعد 14اگست1973ء کو ملک میں پارلیمانی نظام حکومت کی بنیاد ڈال دی گئی ۔
غربت ‘ بے روز گاری اور روز مرہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی چکی میں پستے ‘ علاج معالجے کی سہولتوں سے محروم کروڑوں عوام کے لیے حکومت کی جانب سے ملک بھر میں جان بچانے والی ادویات سمیت تمام دوائوں کی قیمت میں اضافے کا فیصلہ غریب عوام کی تلخیوں کو بڑھانے کا سبب بن رہا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں پندرہ فیصد اضافے کی پشت پر مافیا ہے ‘ جس نے حکومت کی نا تجربہ کاری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کثیر القومی کمپنیوں سے ساز باز کی ہے‘ جس طرح ماضی میں ہوتارہا ۔ وزیر اعظم عمران خان کو ادراک ہی نہیں کہ اِس کا اثر لوکل گورنمنٹ الیکشن میں دیکھنے میں آئے گا‘ اور پنجاب کی حکومت ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی ‘کیونکہ آئے دن ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کر کے ان کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ان سازشوں کا شکار بن کر عوام کی ہمدردیوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اب منی بجٹ پیش کیا جائے گا‘ اس کے اثرات سے ملک میں انتشار ‘ خلفشار اور تحریکِ عدم تعاون کی لہر دوڑ جائے گی۔ وفاقی وزیر صحت دعویٰ کر رہے ہیں کہ اب ہر پاکستانی ملک میں ہی علاج کو ترجیح دے گا‘ اور صحت کی سہولت کے حوالے سے ان کا فوکس غریب عوام ہیں‘ جو گزشتہ 70سال سے محرومی کا شکار ہیں۔ ہمارے سیاسی نام نہاد رہنمائوں کو ادراک ہی نہیں کہ 1970ء تک پاکستان کے تمام سرکاری ہسپتالو ں کا معیار قابل رشک تھا اور ادویات 2پیسے سے50پیسے میں وافر مقدار میں دستیاب تھیں۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو اہے کہ ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ اس سے قبل پاکستان میں کبھی بھی نو ٹیفکیشن کے ذریعے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں پانچ فیصد پیسے بڑھانے پر کروڑوں اربوں روپے پیش کرتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لینا چاہئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کو حکومت اور دوا ساز کمپنیوں کے بیچ گٹھ جوڑ قرار دیا۔ عمران خان صاحب کو جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی کے تھنک ٹینک سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ان کے میڈیا اور سول سو سائٹیوں سے گہرے تعلق ہیں۔بیورو کریسی میں ان کے حامی موجود ہیں ‘ صنعت کاروں ‘ سرمایہ کاروں ‘جاگیر داروں سے ان کے ذاتی تعلقات ہیں۔ دونوں وزیر اعظم آفس کا اصطبل صاف کروانا اچھی طرح جانتے ہیں۔ 
میں نے اپنے کالموں میں واضح طور پر اشارہ دے چکا ہوں کہ مستقبل قریب میں پاکستان مسلم لیگ حکومت کی نا پختہ پالیسی اور ان کے ترجمانوں کے رویے کی وجہ سے وفاق اور صوبے سے اپنے اتحاد پر نظر ثانی کرے گی۔ اب مونس الٰہی کے واضح پیغام سے عیاں ہے کہ ملک عدم استحکام کی طرف رواں دواں ہے ۔ معیشت زبوں حالی کا شکار ہے ‘ اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آسمان کوچھو رہی ہیں۔ اسمبلی میں حکومت کی اکثریت ریڈ زون کو کراس کر رہی ہے ۔ ان حالات میں انتہائی اقدام سے گریز کرنا چاہئے۔ ان کے عقابوں کی نگاہیں حکومت کو گرانے پر ہے‘ اور جن کے اشارے پر انہوں نے پارٹیاں تبدیل کی ہیں‘ انہی کے اشارے پر وہ اپوزیشن سے محاذ آرائی پر اتر آئے ہیں۔ یہ گریٹ گیم کا حصہ ہے اور اس کی پشت پر آصف علی زرداری اور نواز شریف ہیں۔ عمران خان کے لیے توازن برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو نے جب مفتی محمود اور عطا اللہ مینگل کی صوبائی حکومتیں گرائی تھیں تو ان کا اقتدار ہمیشہ گرہن میں رہا‘ اور نتیجہ 5 جولائی 1977ء کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں