"KDC" (space) message & send to 7575

سول ملٹری تنائو سے گریز کیا جائے

سول ملٹری تعلقات میں بہتری نہ ہونے کے حوالے سے جو تاثر دنیا میں پایا جاتا تھا وہ اب مزید گہرا ہو رہا ہے۔ سفارتی اور کاروباری حلقوں میں جو باتیں ہوتی ہیں‘ ان میں ایک نئی حقیقت بھی آشکار ہوئی ہے کہ پاکستان کے ساتھ مختلف معاہدے کرنے والے غیر ملکی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے پاکستان کے سویلین اداروں کو ضامن کے طور پر تسلیم کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ایک اور تلخ حقیقت جو اَب لوگ محسوس کرنے لگے ہیں یہ ہے کہ بہت سی امیدوں اوربڑی توقعات کے ساتھ قائم ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی اپنی کارکردگی کے بارے میں اچھا تاثر نہیں بنا سکی اور پاکستان سویلین سسٹم کی ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ اسی تناظر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چند روز پہلے کراچی میں کاروباری برادری کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کہا کہ تاجر برادری امن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشی استحکام کے لیے تعاون اور سکیورٹی کی بہتر صورتحال سے استفادہ کرے‘ حالانکہ یہ یقین دہانی وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور کو کروانی چاہیے تھی۔
کراچی جسے پاکستان کی پہچان کہاجاتا ہے‘ ملکی اقتصادیات میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ اس شہر میں کاروباری لین دین یومیہ 60 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ حیران کن بات ہے کہ تاجر برادری کو یقین دہانی چیف آف آرمی سٹاف نے کرائی اور وہی ان کے ضمانتی بنے ہیں۔ ان حقائق کو ایک اور تلخ حقیقت سے منسلک کیا جائے تو مستقبل کا منظر نامہ ایسا نہیں بنتا جسے خوش آئند کہا جائے۔ پاکستان گلوبل فالٹ لائنز کا انٹرسیکشن بنا دیا گیا ہے۔ 1979 ء میں سوویت یونین اور امریکہ و دیگر اتحادیوں کے درمیان پراکسی جنگوں سے ایک گلوبل فالٹ لائن بنی تھی۔ پاکستان درمیانی سرزمین پر تھا اور تباہی کا شکار ہوا اور جنرل ضیاالحق کو اقتدار میں لانے کے لیے یہی سبب تھا۔ 2001 ء میں نائن الیون کے حادثہ کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے انتہا پسندوں کے خلاف عالمی جنگ شروع کی ‘اس سے ایک اور گلوبل فالٹ لائن وجود میں آئی۔ یہ بھی پراکسی جنگیں تھیں جن سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا اور جنرل پرویز مشرف محض اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے امریکی عزائم کے لیے آلہ کار بن گئے اور امریکی یلغار میں تعاون کے عوض پاکستان کے قرضے بھی معاف نہیں کراسکے‘ جس طرح مصر کی حکومت نے 80 ارب ڈالر کی خطیر رقم امداد کے نام پر وصول کی۔ تیسری اور خوفناک گلوبل فالٹ لائن بھی یہیں سے گزرتی ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں اور پہلے سے زیادہ پراکسی جنگوں کے خطرات منڈلا رہے ہیں ۔پاکستان ان تمام گلوبل فالٹ لائنز کا انٹر سیکشن ہے اور سویلین حکومت اس تیسری جنگ سے نبردآزما ہونے کے لیے سفارتی محاذ پر کمزور وکٹ پر کھڑی ہے۔
سویلین اور عسکری قیادت کے بارے میں مثبت سوچ کی بجائے ان کے بارے میں منفی تاثرات کو بعض حلقے بہت زیادہ ہوا دیتے ہیں۔ دونوں طرف سے کچھ انتہا پسند حلقے ایک دوسرے کے ساتھ کوئی رعایت نہ کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ان باتوں کا فوری تدارک کریں‘ کیونکہ ان کی کابینہ میں بعض وزرا بھی افواج پاکستان کے بارے میں وہی باتیں کرتے ہیں جو پرویز رشید‘ عطا الحق قاسمی اور احسن اقبال وقتافوقتا کرتے آئے تھے۔
سیاسی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں جو تاثر پایا جاتا ہے وہ حقیقت سے زیادہ مضبوط ہے اور عوام مایوس ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اچھی سیاسی قیادت میسر نہیں ہے۔ سویلین اور عسکری قیادت کے بارے میں مثبت سوچ کی بجائے ان کے بارے میں منفی تاثرات کو بعض حلقے بہت زیادہ ہوا دیتے ہیں اور ان میں وہی نادان دانشور بھی شامل ہیں جو عمران خان کے قریبی حلقے میں نمایاں نظر آتے تھے۔ سول ملٹری تعلقات میں خرابی کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے‘ خاص طور پر علاقائی اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور ابھرتے ہوئے تضادات کے مرکز میں واقع پاکستان کے تمام شعبوں کے لوگوں کو تدبر سے کام لینا ہو گا ۔ سول ملٹری تعلقات میں تناؤ اس وقت سامنے آیا جب عمران خان نے غیرملکی پریس نمائندگان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ماضی میں کرائے کے سپاہی کا کردار ادا کرتا رہا‘ اس طرح عمران خان نے 1979 ء سے اب تک تمام قربانیوں کی نفی کر دی‘ حالانکہ پاکستان نے ملک کے وسیع تر مفاد میں روس کو گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے نہ دی اور افغان وار میں اہم کردار ادا کیا‘ لہٰذا سول ملٹری تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے دونوں طرف سے رابطوں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانا ہو گا۔ پاکستان کی آبادی متنوع خصوصیات کی حامل ہے‘ اگر اب عمران حکومت میں سول ملٹری تعلقات میں تناؤ اور بدمزگی پیدا ہوئی تو یہ آبادی تقسیم در تقسیم کا شکار ہو سکتی ہے‘ حکومت کو اس معاملے پر توجہ دینا ہو گی۔
کرپشن سے صرف پاکستان متاثر نہیں ہے‘ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی کرپشن موجود ہے ‘تاہم کرپشن کے مفہوم‘ اس کے غیرقانونی ہونے اور اس کے خلاف کارروائی کی ضرورت پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ کرپشن کا دور میرے تجزیے کے مطابق 2008ء سے 2013ء تک کا تھا‘ جس میں آصف علی زرداری بر سر اقتدار تھے ۔ اس عرصے میں ایک اندازے کے مطابق کرپشن 94 ارب ڈالر سے بڑھ گئی تھی۔ جعلی اکاؤنٹس کیس میں سپریم کورٹ کے احکام کے مطابق جے آئی ٹی اس کی تفصیلات سامنے لے آئی ہے۔ حکمران اشرافیہ ذاتی مفادات کے لئے پاکستان کی زمین‘ جنگلات‘ پانی اور دیگر قدرتی وسائل کا استحصال کرتی چلی آئی ہے۔ ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے‘ غربت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر عمران خان کا کرپشن سے جنگ کا فیصلہ برمحل ہے‘ مگر یہ ایک مشکل کام ہے جس کا سبب یہ ہے کہ قانون حرکت میں نہیں آیا اور کرپشن ریاستی معاشی نظام کے رگ رگ میں سما چکی ہے۔ پارلیمنٹیرین اور سیاستدان زیادہ تر جاگیردار‘ صنعتکار‘ سرمایہ کار ہیں اور ان کے نزدیک فلاح عامہ سے مراد اِن کے ذاتی مفادات ہیں‘ وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جو ملک و قوم کے بجائے صرف ان کے ذاتی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ عمران خان نے کرپشن کے خلاف جو طبلِ جنگ بجا دیا ہے‘ اس کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ سندھ میں مخلوط حکومت کی تشکیل دینی چاہیے ۔ اگر زرداری خاندان اور ان کے ساتھی مصالحت کے تحت چھوڑ دیے گئے تو اس سے ملنے والا پیغام تباہ کن ہوگا۔ یہ ان کی سرگرمیوں کی توسیع اور دوسروں کو انہی کی پیروی کی دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ صدر پرویز مشرف کے خلاف 15 جولائی 2008ء کو تحریک عدم اعتماد لانے کا پس منظر یہ تھا کہ وہ یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری کی کرپشن کے آگے بندباندھنا چاہتے تھے‘ کیونکہ اپریل سے جون تک کراچی کے سرمایہ کاروں‘ صنعتکاروں‘ اور ملک کی ممتاز اشرافیہ نے وفود کی صورت میں آکر صدر پرویز مشرف کو تشویشناک صورتحال سے آگاہ کرنا شروع کردیا تھا۔ صدرالدین ہاشوانی دیوان یوسف اور کئی ممتاز کاروباری شخصیات نے اپنے تحفظات سے صدر پرویز مشرف کو مطلع کیا اور انہوں نے کراچی کی بزنس کمیونٹی کا اجلاس کراچی میں طلب کر کے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ بزنس کمیونٹی حکومت کی کرپشن زدہ پالیسیوں سے نالاں ہو کر ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہی ہے۔ اسی دوران آصف علی زرداری نے نواز شریف کو ججوں کی بحالی کی آڑ میں اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ وہ تو ججز کی بحالی چاہتے ہیں‘ لیکن ان کی راہ میں صدر پرویز مشرف حائل ہیں لہٰذا صدر پرویز مشرف کو سبکدوش کرایا جائے ‘یوں پارلیمنٹ میں ان کے خلاف مواخذہ کی تحریک کا آغاز کردیا گیا‘ حالانکہ بین الاقوامی این آر او کے معاہدے کے تحت صدر پرویز مشرف کا اقتدار 2013ء تک برقرار رکھنا تھا‘ لیکن جب ان پر میڈیا ٹرائل شروع ہوا تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بھی چشم پوشی اختیار کی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی اور بادل ناخواستہ پرویز مشرف 18اگست 2008ء کو مستعفی ہوگئے۔ عمران خان اور ان کی حکومت کے پاس کوئی دیومالائی طاقت نہیں ہے‘ مگر وہ نیک نیت ہیں‘ ایماندار ہیں اور پاکستان کی عوام کی حمایت ان کے لئے کافی ہے‘ مگر شرط یہ ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے بعض مشیران اور وزرا کی کارکردگی پر نظر رکھیں ‘جن کے روابط دونوں کرپٹ خاندانوں سے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں