"KDC" (space) message & send to 7575

چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی اور تحریک عدم اعتماد

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے عالیہ شاہ کی کتاب ''عمران خان اور نیا پاکستان‘‘ کی تقریبِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان غریب عوام کی آواز بنے اور مڈل کلاس کی طاقت سے نواز اور زرداری خاندان کو کاری ضرب لگائی۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ اب ان کی سیاست قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پانامہ لیکس میں شامل افراد کو بے نقاب کرنا بھی وقت کے ایک اہم تقاضے کی تکمیل کے مترادف ہے کیونکہ اب تک پانامہ لیکس کے حوالے سے عملاً صرف نواز خاندان کے خلاف کارروائی ہوئی ہے جبکہ وزیر اعظم آفس کے ریکارڈ کے مطابق پانامہ لیکس میں شامل 250 سے زائد افراد‘ بشمول علیمہ خان ٹیکس ایمنسٹی لے چکے ہیں اور پانامہ لیکس کی بیشتر کمپنیاں بھی چین منتقل کی جا چکی ہیں۔ 175 افراد کو تلاش نہیں کیا جا سکا جبکہ 78 افراد کی معلومات نامکمل ہیں۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ محدود اور یک طرفہ احتسابی عمل ملک کو کرپشن کے روگ سے نجات دلانے کا باعث نہیں بن سکتا‘ لہٰذا پانامہ لیکس میں شامل تمام افراد کو یکساں طور پر قانون کی گرفت میں لانا عمران خان کی حکومت کے لیے بہت ضروری ہے‘ خواہ ان کا تعلق حکومتی میڈیا اور کاروباری طبقات سمیت کسی بھی شعبۂ زندگی سے ہو۔ وزیر اعظم عمران خان نے وضاحت کر دی ہے کہ این آر او کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں؛ تاہم حقائق اس کے برعکس ہیں اور کچھ اور بتا رہے ہیں کیونکہ شہباز شریف کو قومی اسمبلی کے رولز کی آڑ میں پروڈکشن آرڈر کے ذریعے پارلیمنٹ میں پیش کرنا‘ ان کو عمران خان کی خواہش کے خلاف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنایا جانا‘ نواز شریف کو ان کی خواہش کے مطابق لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں منتقل کیا جانا‘ سلمان شہباز اور حمزہ شہباز کو لندن جانے کا موقع فراہم کرنا‘ شاہد خاقان عباسی کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دیتے وقت چشم پوشی کرنا‘ یہ سب کیا ہے؟ میرے خیال میں یہ سب وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کی مرضی کے بغیر تو نہیں ہو رہا‘ مگر اس پر پردہ ڈالنے کے لئے شیخ رشید اور فواد چودھری کے ذریعے یہ تاثرات دیا جا رہا ہے کہ شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے سے برطرف کرانے کے لیے ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی جائے گی۔
چونکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں 15 ارکان حکومت کی جانب سے ہیں اور 14 ارکان کا تعلق اپوزیشن سے ہے‘ لہٰذا اکثریت کے بل پر شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جا سکتی ہے؛ تاہم میری ناقص رائے میں شہباز شریف کو عمران خان کی رضا مندی کے ساتھ اور سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے تحت بطور لیڈر آف دی اپوزیشن‘ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی مقرر کیا گیا۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی اپنی رولنگ کا دفاع کریں گے اور شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے عہدے سے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے تبدیل کیا گیا تو اپوزیشن فوری طور پر وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر کے حکومت کو آئینی و قانونی بحران کی دلدل میں دھکیل دے گی۔ اس طرح وزیر اعظم عمران خان کی حکومت پر گرفت کمزور پڑ جائے گی‘ ڈالر کی قیمت اچانک اور غیر معمولی انداز میں تیزی سے بڑھے گی‘ بیرونی ممالک سے اس حکومت نے جو معاملات طے کیے ہیںوہ بھی ان سے اور پاکستان کو امداد دینے سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے سے لطف اندوز ہونے دیں‘ انہیں چند ہفتوں میں سزا ہونے کے امکانات ہیں؛ اگرچہ فی الحال لاہور ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے‘ انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ بہرحال اگر انہیں سزا ہوئی تو وہ خود بخود قومی اسمبلی کی نشست سے محروم ہو جائیں گے‘ مگر وزیر اعظم عمران خان کو یہ آئینی اور قانونی نکات سمجھانے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ یوں لگتا ہے کہ وزیر اعظم صاحب چند مشیروں کے ہاتھوں میں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم اپنے وعدے کے مطابق بریگیڈیئر اعجاز شاہ کو سکیورٹی امور کا وفاقی مشیر مقرر کرنا چاہیے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے سابق شاندار ماضی اور تجربے کی بنیاد پر وزیر اعظم عمران خان کو بحران سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے این آر او کے بارے میں مؤقف اختیار کرتے ہوئے اپنے وزرا کو آگے بڑھایا ہے۔ اس کی وجہ سے ملک میں پارلیمانی بحران پیدا ہونے کے خدشات پائے جاتے ہیں‘ کیونکہ جو پس پردہ کارروائی کے تحت نواز شریف کے خاندان کو مراعات دے رہے ہیں ان کو اب نواز شریف سے سیاسی طور پر کوئی خاص خطرہ محسوس نہیں ہو رہا۔ دوسری جانب لوگ حکومت اور اس کے طریقہ کار سے غیر معمولی طور پر مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ شیخ رشید کو اس صورتحال کا ادراک ہے اور وہ جس انداز سے حملہ آور ہو رہے ہیں اس سے تحریک انصاف کے فاختہ گروپ کو شدید دکھ پہنچتا ہے‘ اور بے چینی کی لہر پیدا ہوتی ہے‘ جس سے تحریک انصاف کا پارلیمانی گروپ کئی حصوں میں مختلف رائے رکھتے ہوئے منقسم ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اب اگر حکمران جماعت 1986 ء کی روایات کو دہراتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی کو تبدیل کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے تو یہ اپوزیشن اتحاد کی بہت بڑی کامیابی ہو گی کیونکہ وہ اپنی بھاری اکثریت سے حکمران جماعت کی کوششوں کو ناکام بنا دے گی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کو سبکدوش کرنے کے لئے مقررہ طریقہ کار کی غیر موجودگی میں ارکان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا سکیں‘ کیونکہ قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس میں کسی بھی کمیٹی کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کے لئے کوئی طریقہ کار مقرر نہیں۔ پارلیمنٹ کے رولز آف بزنس کے تحت ایک مرتبہ کوئی جماعت اپنے رکن کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا رکن نامزد کر دے تو اسے وہ جماعت حتیٰ کہ سپیکر قومی اسمبلی بھی نہیں نکال سکتا۔ رکن اپنی مرضی سے کمیٹی سے علیحدہ ہو سکتا ہے جیسا کہ 2011ء میں چوہدری نثار علی خان نے از خود اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ ان کے احکامات پر عمل کرانے کی راہ میں رکاوٹ صدر آصف علی زرداری تھے؛ چنانچہ ان کے مستعفی ہونے پر ندیم افضل چن کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی مقرر کیا گیا تھا۔ اسی طرح پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سمیت کسی بھی کمیٹی کے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لئے کوئی بھی طریقہ کار دستیاب نہیں جبکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بھی ان قوانین کی پابند ہے‘ جو قوانین دیگر کمیٹیوں پر عائد ہیں۔ چونکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی پوری پارلیمنٹ کی نمائندگی کرتی ہے اس لئے پہلے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اس درونِ خانہ تبدیلی کے خلاف مزاحمت شروع ہو جائے گی۔ میاں شہباز شریف وزیر اعظم کی رضا مندی سے چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی مقرر کیے گئے تھے اور اب اگر وہ قواعد و ضوابط کے خلاف احکامات جاری کرتے ہیں تو اس کی روک تھام کا بندوبست بھی قانون میں موجود ہے‘ جس کے ذریعے انہیں ایسے اقدامات سے روکا جا سکتا ہے۔ مگر اس قانونی طریقے کو اختیار کئے بغیر شہباز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا عندیہ دیا جا رہا ہے‘ جس سے پوری پارلیمنٹ ابہام میں مبتلا ہو گئی ہے‘ اس طرح مستقبل کے حوالے سے بھی بے یقینی بڑھ رہی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں