"KDC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم اور آئی ایم ایف

ہمارے ملک کی معیشت پر آئی ایم ایف کا سایہ 1960 میں وزیر خزانہ محمد شعیب کے دور میں پڑا۔ موصوف عالمی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی تھے اور حکومت پاکستان کے مرکزی وزیر خزانہ و اقتصادی امور کے فرائض بھی سر انجام دے رہے تھے ۔ان کی وجہ سے حاصل کئے گئے قرضے پر سود بتدریج بڑھتا گیا جبکہ وقتاًفوقتاً ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے سے آئی ایم ایف کے قرضوں کا حجم بھی بڑھتا گیا۔ اسی طرح ہمارے حکمران قرض اتارنے کے لئے مزید قرض لینے پر مجبور ہوتے گئے۔ اُس وقت سے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے اور برآمدات کو فروغ دینے میں کوئی خاص مدد نہیں مل سکی۔ نواز حکومت میں آئی ایم ایف کا قرض گیارہ ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا تھا اور اسی تناظر میں عمران خان اور پی ٹی آئی کی دوسری قیادت آئی ایم ایف کے قرض کو لعنت سے تعبیر کرتے ہوئے اس قرض سے قوم کو مستقل خلاصی دلانے کا عوام سے وعدہ کرتی رہی ۔روٹی ‘مکان‘ روزگار اور دوسرے گو ناگوں مسائل میں گھرے ہوئے عوام کو عمران خان اور پی ٹی آئی کے انہی وعدوں اور دعووں کے باعث عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی اور انہوں نے اپنے مستقبل کے سہانے خواب دیکھتے ہوئے 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو حکمرانی کا مینڈیٹ دیا۔اپوزیشن کو اس انتخاب سے ویسے ہی تحفظات ہیں جس طرح انڈین کانگریس اور بی جے پی ایک دوسرے کے دور میں انتخابات پر شک و شبہات ظاہر کرتی ہیں۔انڈین کانگریس کے مطابق ایک خاص میکنزم کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں مخصوص چپ کے ذریعے رزلٹ تبدیل کرائے گئے ۔ کانگریس یہ شبہات حالیہ انتخابات سے پہلے بھی ظاہر کرتی ہے کہ مودی حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی مرہون منت ہے۔
حکومت سنبھالنے کے بعد تحریک انصاف کو اقتصادی بدحالی اور زرمبادلہ کے انتہائی نچلی سطح کو پہنچے ہوئے ذخائر کے پیش نظر قومی معیشت کے سدھارنے کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ۔ نگران حکومت نے بھی ڈالر کی پرواز میں پراسرار طریقے سے کردار ادا کیا ۔ان حالات میں حکومت کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا مجبوری بن گیااور وزیراعظم عمران خان ‘وزیر خزانہ اسد عمر اور پی ٹی آئی کے دیگر قائدین کو آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنے سے متعلق اپنے موقف پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ آئی ایم ایف کی ٹیم تحریک انصاف کے اقتدار کے آغاز ہی میں پاکستان میں ڈیرے ڈال چکی تھی‘ جس کے یہاں قیام کے دوران کرنسی کی شرح میں انتہائی درجے کی کمی ہوئی ۔ بظاہر اس کے ذمہ دار سٹیٹ بینک کے اعلیٰ حکام تھے ‘ جنہوں نے اس معاملے میں وزیراعظم کو بھی لاعلم رکھا۔ اسی تناظر میں دو دفعہ ضمنی بجٹ کے ذریعے‘ پہلے سے عائد بعض مدات کے ٹیکس بڑھائے گئے اور بعض مدات پر نئے ٹیکس لگائے گئے اور گیس اور بجلی کے نرخ بھی بڑھا دیے گئے‘جس کے باعث مہنگائی اور عام آدمی کی بے چینی میں اضافہ ہوا۔ اسی صورتحال سے تحریک انصاف کی مقبولیت بھی متاثر ہوئی۔
وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد عمران خان صاحب کے سعودی عرب ‘ چین اور متحدہ عرب امارات کے دوروں میںملنے والے اربوں ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج سے معیشت کو قدرے استحکام نصیب ہوا‘ آئی ایم ایف کی من مانی شرائط پر نئے معاہدے کی مجبوری بھی قدرے کم ہوئی اور عوام کو بھی اس صورتحال سے اطمینان حاصل ہوا کہ اب ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے نجات مل جائے گی۔ تاہم یہ خوشی اس وقت کافور ہوگئی جب عمران خان نے دبئی کانفرنس میں خود آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لاگارڈ سے ملاقات کی‘ جو کہ بعض ماہرین کے نزدیک پروٹوکول کے خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ اس ملاقات میں یقینا آئی ایم ایف سے قرض کی شرائط پر تبادلہ خیال ہوا ۔ آئی ایم ایف کی سربراہ نے پاکستان کی معاشی پالیسیوں کی تعریف کی تاہم ان کا مفہوم طنزیہ ریمارکس کی زد میں آتا ہے کیونکہ ان کا مفہوم آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو بیل آؤٹ پیکیج دینے پر آمادگی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ وزیر خزانہ بے شک شرائط کو ملک کی معاشی بہتری کیلئے اقدامات کا نام دیں مگر فی الحقیقت یہی وہ ناروا شرائط ہیں جن کے باعث ملک کی خود مختاری بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ 
کرپشن معیشت پر اثر انداز ہوتی ہے‘ جس سے شرح نمو کے علاوہ اعتماد کا بھی مسئلہ پیدا ہوتا ہے‘ مگر ہمارے ہاں پہلی بار ہوا ہے کہ احتساب کا عمل جاری ہے‘ کرپٹ سیاستدانوں کے جعلی اکاؤنٹ سامنے آرہے ہیں۔ اسی طرح اربوں ڈالرکی بیرون ملک غیر قانونی منتقلی کے انکشافات بھی میڈیا کے ریکارڈ پر ہیں جبکہ نواز شریف اور آصف علی زرداری سمیت کئی ہائی پروفائل کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔اس صورتحال میں سعودی عرب کی جانب سے سی پیک کا حصہ بننے پر آمادگی پاکستان کے معاشی منظر نامے کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان سے یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت نہ صرف سی پیک کو مضبوط کرے گی بلکہ پاکستان کے توسط سے چین اور سعودی عرب کے درمیان بھی شراکت داری کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا جو عالمی سطح پر بھی کئی بڑی تبدیلیوں کا باعث بنے گا۔ اس طرح چین پاکستان کے توسط سے مشرق وسطیٰ کے قریب آ جائے گا۔ سی پیک میں روس کی سرمایہ کاری بھی متوقع ہے‘ اس طرح پاکستان کا اثرورسوخ بین الاقوامی سطح پر بہت بڑھ جائے گا ۔ ان حالات میں پاکستان میں پارلیمانی سسٹم میں بہتری لانے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کے موجودہ پارلیمانی سسٹم میں ایسی کوئی قدآور شخصیت نظر نہیں آ رہی جو پاکستان کو آنے والے دور میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل بنا سکے۔ پاکستان اس وقت سیاسی قیادت کے بحران سے دوچار ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے کریڈٹ میں عالمی کپ اور چند ادارے ہیں‘اسی سحر میں مبتلا قوم نے ان کو وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچادیا ہے ۔اب عمران خان صاحب کو عالمی کپ کے سحر سے نکل کر بین الاقوامی سطح پر بطور مدبر سیاستدان سامنے آنا ہوگا جو عمران خان صاحب کے لیے نا ممکن نہیں‘مگر اس کے لیے انہیںان چند برطانوی شہریت کے حامل سرمایہ داروں کے نرغے سے باہر آنا ہو گا ۔وزیر اعظم عمران خان صاحب کو ادراک ہونا چاہئے کہ ذرائع پیداوار پر ارتکاز کے خاتمے کے لیے انیس سو تینتالیس میں قائداعظم محمد علی جناح نے انڈیا کے مایہ ناز ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جو مستقبل کے پاکستان کے لئے منصوبہ بندی کرنے کی ذمہ دار تھی۔ اس کمیٹی کی رپورٹ جناب خالد شمس الحسن نے اپنی کتاب Quaid-I- Azam's Unrealised Dreamمیں شامل کی ہے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ اگر غریبوں کی حالت درست کرانے کے منصوبے شروع نہ کئے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے ۔یہ کمیٹی ذرائع پیداوار کو زیادہ سے زیادہ ہاتھوں میں پھیلانے اورچھوٹے کاشتکاروں اور چھوٹے کارخانہ داروں کو معاشی سرگرمیوں کے مواقع دینے کے حق میں تھی تاکہ ذرائع پیداوار اور دولت کا ارتکاز نہ ہو اور متوسط طبقہ وسعت اختیار کرے۔ فنی تربیت اور نجی اور سرکاری شعبے میں بڑی صنعتوں کے قیام کی بھی تجویز دی گئی۔مگر اس کے برعکس عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے اپنے سو دن کے پروگرام میں ارتکازِ دولت کے خاتمے کیلئے زرعی اصلاحات اور چھوٹی صنعتوں کے فروغ کیلئے جامع حکمت عملی تیار نہیں کی ۔
وزیر اعظم عمران خان 1960ء کے عشرے کو یاد کرتے ہیں‘وزیر اعظم صاحب کو علم ہونا چاہیے کہ اس وقت کے صدر ایوب خان ہمیشہ وائٹ ہائوس میں قیام کرتے تھے اور گھنٹوں عالمی امور پر تبادلہ خیالات ہو تا تھا۔ اس طرح جرمنی کے چانسلر ان سے چند گھنٹے گفتگو کے لیے فرینکفرٹ ایئرپورٹ پر منتظر رہتے تھے اور شاہ ایران تہران ایئر پورٹ پر‘ ترکی کے صدر عصمت انونو اور انڈونیشیا کے صدر سیکارنو کو جکارتہ ایئرپورٹ پر منتظر رہتے تھے۔ صدر ایوب خان جو گالف کے عالمی کھلاڑی تھے وہ گالف کے رموز پر باتیں نہیں کرتے تھے۔ اور ہمارے اتحادی دوستوں نے ان کی معاشی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو بھاری شرائط پر قرضے دیے ہیں اس سے ملک مزید عالمی شکنجے کے دباؤ میں آ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں