"KDC" (space) message & send to 7575

غریبوں کی حالت سدھارنے کا چیلنج

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی گرفتاری اور مقدمے کی کارروائی پر لاہور میں رد عمل برائے نام رہا‘ اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ کوٹ لکھپت جیل میں قید کے دوران مسلم لیگی کارکنوں نے ان سے اظہار یکجہتی کے لیے جیل کے باہر جو احتجاجی کیمپ لگایا اس میں شرکا کی تعداد نہ ہونے کے برابرتھی۔ لاہور میں قومی اسمبلی کی 14 نشستوںمیں سے11 اورصوبائی اسمبلی کی 30 میں سے 21 مسلم لیگ ن کے پاس ہیں اور 1985ء سے مسلم لیگ لاہور میں بلا شرکت غیرے ایک بڑی جمہوری قوت چلی آرہی ہے‘ مگر نواز شریف سے اظہار یکجہتی کے لیے دو درجن سے بھی کم لوگ جیل کے باہر بیٹھے ۔ مسلم لیگ ن کے سیاسی حلقے شہبازشریف کی ضمانت کے بعد سے مختلف تبصرے کرتے دکھائی دیتے ہیں‘ جن میں ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے کا بھی تذکرہ ہے ‘کیونکہ نواز شریف اپنی گیم پوری کرچکے ہیں ۔مگرشہباز شریف کو مستقبل قریب میں نواز شریف کے سحر سے نکلنا ہوگا اور چوہدری نثار علی خان کو پاکستان مسلم لیگ ن کا سیکرٹری جنرل بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔نواز شریف کا صحت کی بنیاد پر ضمانت کی خواہش رکھنا درست نہ تھا‘ وہ مقدمہ ہار چکے ہیں اور سعودی پرنس کی طرف سے ان کے حق میں کوئی اشارہ نہیں آیا‘ جس کی نواز شریف توقع کئے ہوئے تھے۔ نواز شریف کے بھارتی اشرافیہ سے گہرے تعلقات تھے اور ان کے بارے میں اہم دستاویزات مرتضیٰ پویا کے پاس موجود ہیں جو انہوں نے جنرل ضیا الحق کو پیش کی تھیں ‘ مگراس کے کچھ عرصے بعد ضیا الحق المناک حادثے کا شکار ہو گئے۔ بقول آغا مرتضیٰ : اگر جنرل ضیا الحق حیات ہوتے تو ان کا ارادہ ان کے خاندان کے بارے میں تحقیقات کروانے کا تھا۔
آغاسراج درانی کو جو سیاسی حلقے قریب سے جانتے ہیں وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ خاندانی طور پر وہ آصف علی زرداری سے زیادہ پختہ سیاسی پس منظر رکھتے ہیں ۔ شکارپور میں ان کا اچھا خاصا ذاتی اور خاندانی اثر ہے ‘ مگر آغا سراج درانی کی گرفتاری کے خلاف ان کا قبیلہ اور عزیز واقارب اور پارٹی مل کر بھی دو چار سو افراد سے زیادہ لوگوں کو احتجاج کے لیے جمع نہ کرپائے‘ ایسی صورتحال میں آصف علی زرداری کے لیے خوف کی فضا پیدا ہونا فطری بات ہے ۔آصف علی زرداری ‘فریال تالپور‘ بلاول اور خورشید شاہ کے حلقوں میں بھی خوف پر پھیلارہا ہے کہ سراج درانی گرفتار ہو گیا ہے اور آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ کے بھی قانون کے احتسابی عمل کی زد میں آنے والے ہیں تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم رہنا بے حد مشکل ہوجائے گا۔ زرداری اور سندھ اسمبلی کے ارکان کو ان کمزوریوں کا احساس ہے کہ فریال تالپور نے لاڑکانہ کی تعمیر و ترقی کے 90 ارب روپے خفیہ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے غائب کر وائے۔اس لیے ان کی گرفتاری پر پیپلزپارٹی کی سٹریٹ پاور غائب رہے گی ۔اب پیپلز پارٹی جیل کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی کیونکہ داخلی کمزوری اور کرپشن کے باعث اس پارٹی کے حقیقی ورکر لاتعلق ہو چکے ہیں۔ آغا سراج درانی کی گرفتاری پیپلز پارٹی کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ 
دوسری جانب سندھ میں گورنر ہاؤس میں مہنگی موٹر سائیکلوں کے شو منعقد کروائے جارہے ہیں‘ جس سے تحریک انصاف کے سنجیدہ حلقوں میں اچھا تاثر نہیں۔ ایسی شوخیاں وزیر اعظم بھٹو کے وزیر مملکت جی الانہ بھی کیا کرتے تھے اور وزیر اعظم بھٹو نے ان کو وزارت سے فارغ کر دیا تھا۔ مسٹر بھٹو کی قید کے دوران موصوف جنرل ضیا الحق کے ساتھی بن گئے ۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی اپنے شوقین مزاج دوستوں سے گریز کرنا ہوگا۔بھارتی جارحانہ بیان بازی کے خلاف سخت مؤقف اپنا کر عمران خان داخلی طور پر ایک مضبوط سربراہ حکومت بن چکے ہیں۔پاکستان میں یک جماعتی نظام کی بنیاد پر نیا سیاسی نظام سامنے آ رہا ہے‘ عالمی سطح پر باور کرایا جارہا ہے کہ پاکستان میں پہلی بار ایک ایسی قابل قبول حکومت تشکیل دی گئی ہے جو پاکستان اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لئے پوری طرح قابل قبول ہے اور اداروں کے مابین مکمل ہم آہنگی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔اس حمایت کو پاکستان کی معاشی حالت مضبوط بنانے کے لیے صرف کریں‘ کیوں کہ پاکستان اور چین دُہرے ٹیکسوں کے خاتمے کے معاہدے میں حالیہ ترامیم میں چینی کمپنیوں کوشپنگ سروسز پر سو فیصد ٹیکس کی چھوٹ دینے سے پاکستان اربوں ڈالر کی آمدن سے محروم ہو چکا ہے ۔ یہ درست ہے کہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے تحت حکومت نے چین کے سرکاری بینکوں کی جانب سے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے فراہم کردہ قرضوں سے آمدن پر پہلے ہی چھوٹ دے رکھی تھی اور چینی کمرشل بینکوں کے مطالبے پر نواز حکومت کے دور میں چین کے کمرشل بینکوں کی جانب سے پاکستان میں سی پیک کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے فراہم کردہ قرضوں پر ہونے والی انٹرسٹ آمدن پر بھی انکم ٹیکس کی چھوٹ دی گئی۔ اسی چھوٹ کو دیتے ہوئے پاکستان نے پاک چین شپنگ سروسز پر انکم ٹیکس کی چھوٹ بھی دے دی۔ ایف بی آر حکام کے مطابق چینی سرکاری اور نجی کمپنیوں اور بینکوں کو پہلے ہی دی گئی ٹیکسوں اور ڈیوٹیوںکی چھوٹ کے سبب پاکستان اربوں روپے مالیت کے ٹیکسوں کی آمدن سے محروم ہوگیا ہے‘ جبکہ اقتصادی امور کے ماہرین کامؤقف ہے کہ چینی شپنگ سروسز پر ٹیکسوں کی چھوٹ کا فائدہ یک طرفہ طور پر چینی کمپنیوں کو ہوگا ۔ اس کا سارا فائدہ چین کو ہوگا اور پاکستان جس کی بندرگاہ اور لینڈ چینی برآمدات کے لئے کئی دہائیوں تک استعمال ہونی ہے‘ سالانہ ہزاروں بحری جہاز پاکستان کی بندرگاہوں سے سامان لے کر روانہ ہوں گے‘ مگر ان کی آمدن پر پاکستان کو کوئی ٹیکس وصول نہیں ہو سکے گا۔
وزیراعظم عمران خان اپنے اگلے پروگرام میں اس طرف دھیان دیں‘ ان کے اردگرد جو معاشی ماہرین موجود ہیں وہ اس مؤقف کے حامی ہیں‘ جن کا ذکر اس کالم میں کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ریاست کے مفاد میں چین کے ساتھ شپنگ سروسز کا ایک الگ پروٹوکول سائین کریں اور اصل ٹیکس کی بجائے کم از کم اس کا 25 فیصد ٹیکس بھی وصول کیا جائے تو آئندہ سالوں میں پاکستان کو نہر سویز کی طرز پر اربوں ڈالر آمدن ہوگی۔ یہی تجویز ایف بی آر نے نگران حکومت کو پیش کی تھی جو انتخابی لہر کی نذر ہوگئی۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت گزشتہ کچھ ماہ سے اپوزیشن کی کرپشن کو بے نقاب کر رہی ہے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری پر جس طرح قومی مفاد کو نظر انداز کیا اس کو بھی بے نقاب کرنے کی گھڑی آ چکی ہے۔ اسی معاہدے کے مضمرات سے قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ نواز شریف نے پاک چائنا راہداری میں اپنے خاندان اور سیاسی اتحادیوں کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے عوام کا مفاد عزیز نہیں رکھا۔ اس معاہدے پر نظر ثانی کرنا چاہئے اور عمران خان شاہراہ گوادر پر بھی گہری نظر رکھیں ۔ بین الاقوامی معاشی دہشت گرد اس پر اپنی نگاہیں گاڑے ہوئے ہیں اور پاکستانی عوام کو ان معاہدات سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا ہے ۔پاک چین اقتصادی راہداری سے حالات جوں کے توں ہیں ‘ سٹاک مارکیٹ بدستور خسارے میں ہے‘ ہر نوح کے خسارے بڑھتے جا رہے ہیں ۔ اسد عمر کے ہاتھ خالی ہیں ۔ 30ہزار ماہانہ کمانے والے کو 20ہزار ماہانہ گیس کے بل آ رہے ہیں اور دس ہزار روپے بجلی کا بل بھی آ رہاہے ۔ خط غربت سے نیچے پچیس فیصدکے لگ بھگ لوگ ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے وزرا کی ٹیم کو اس غریب لوگوں کی معاشی حالت بہتر بنانے کا ٹاسک دیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں