"KDC" (space) message & send to 7575

محدود جنگ کی آڑ میں خود مختار کشمیر کا منصوبہ

وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پاکستانی عوام کے دل موہ لئے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اگر حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں تو ہم بہادر شاہ ظفر نہیں بلکہ ٹیپو سلطان بنیں گے۔پاکستان نے بھارت کو مذاکرات کی سنجیدہ پیشکش کرکے بین الاقوامی حمایت حاصل کی ہے اور پاکستان کے خلاف تمام بیرونی سازشوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ چین اور روس کی جانب سے پاکستان اور بھارت کو تلقین کی گئی کہ وہ مزید فوجی کارروائیوں سے گریز کریں۔وزیراعظم عمران خان نے بھارتی پائلٹ کو رہا کرکے بھارت کو دانشمندی کی راہ دکھا ئی ہے۔ 1965ء کی جنگ کے دوران ایک بھارتی پائلٹ، جو بھارتی فیلڈ مارشل کا بیٹا تھا‘ پاکستانی ایئر فورس کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔ اس کو صدر ایوب خان نے سر کاری مہمان قرار دے کر والیٔ سوات میاں گل زیب کے ہاں ٹھہرایا اور سیز فائر کے بعد اس کو خاموشی سے بھارت بھجوا دیا۔ وزیر اعظم عمران خان بھی اپنے طرزِ عمل‘ بیانات اور اقدامات سے باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بھارت خطرات سے کھیلنے سے باز آئے۔ بھارت کے داخلی مسائل گمبھیر قسم کے ہیں‘ پانچ ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں جبکہ خالصتان کا مسئلہ الگ ہے۔ آزادیٔ کشمیر کی تحریک تقریبا ًمکمل طور پر تیار ہو چکی ہے۔ کشمیر کی تیزی سے بگڑتی صورتحال نے بھارت کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ کشمیر کی تحریکِ آزادی ایک نئی راہ پر چل نکلی ہے‘ آزادی کا سورج طلوع ہوا چاہتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورۂ آگرہ کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان امن عمل کا آغاز ہوا تھا ۔باہمی تنازعات کے حل کے لئے مذاکراتی گروپ کے ذریعے واجپائی اور منموہن سنگھ سے گفتگو جاری رہی اور کشمیر کے باب میںوزیراعظم نہرو کے 1964ء کے فارمولے پر کام ہو رہا تھا ۔ آئے دن مذاکرات ہو رہے تھے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے اعتماد سازی کی تجاویز کے انبار لگ گئے‘ جن سے خطے میں پائیدار امن کی امید بندھی تھی۔ مگر ممبئی حملوں سے سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیا گیا۔ سارا کیا دھرا بھارت کا اپنا تھا مگر الزام پاکستان پر لگا دیا گیا اور باہمی رابطے کی سب راہیں بند کر دی گئیں۔
گزشتہ دس برس سے پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھارت کسی بھی بامقصد مذاکرات سے انکاری رہا۔پاکستان کی وزارت خارجہ میں ایک مشاورتی کونسل تشکیل دی گئی جو خوش آئند قدم تھا۔ مشاورتی کونسل میں وزارت خارجہ کے ریٹائرڈ بیوروکریٹس کو شامل کیا گیا ۔ اسی کو آگے بڑھانا چاہیے تاکہ دونوں ملکوں کے وقار اور عزتِ نفس پر حرف آئے بغیر ہم اس مشکل صورتحال سے نکل آئیں اور خطہ جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہے۔ وزارت خارجہ کو بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ اور بعد ازاں وزیر مملکت برائے خارجہ امور پی کے دھر‘ سردار سورن سنگھ‘ کلدیپ نائر اور پنڈت جواہر لال نہرو کی 1964 کی تجاویز پر بھی غو ر و خوض کرنا چاہئے اور بھارت کو آئینہ دکھانے کے لئے ان کی سفارشات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ پاکستان نے اپنی قوت کا برملا اظہار کر نے کے بعد نریندر مودی کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔پاکستان کی عسکری اور سول قیادت پاکستان کے اندرونی اور بیرونی مسائل کو دیکھتے ہوئے امن کی خواہش مند ہے کیونکہ سی پیک معاہدے پر عملدرآمد سے پاکستان اس خطے کا خوشحال ترین ملک بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت کو ملکی اور بین الاقوامی حکمتِ عملی کے رموز کو سمجھنے کی صلاحیت کا حامل ہونا ضروری ہے کیونکہ امریکہ پاکستان اور بھارت میں ایک محدود جنگ کروانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ اسی لائن پر کام کر رہے ہیں ۔ایک ایسی محدود جنگ جو کنٹرول لائن پر رہے اور بین الاقوامی سرحد کو متاثر نہ کرے۔ ایٹمی جنگ کا اس لئے اندیشہ نہیں رہے گا کیوں کہ لائن آف کنٹرول خطہ متارکہ کے مترادف ہے اور عبوری سرحد کا درجہ رکھتی ہے۔ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی سے مبرا ہے اور بھارت الیکشن سے پیشتر اورالیکشن کے بعد لائن آف کنٹرول پر دباؤ بڑھائے گا۔
امریکی حکمت عملی کے تحت کنٹرول لائن کی صورتحال آؤٹ آف کنٹرول ہونے پر امریکہ یورپی یونین اور اقوام متحدہ مداخلت کریں گے اور کشمیر کی خود مختاری کے نام پر اسے اپنے عارضی کنٹرول میں لے کر جنوبی سوڈان کی طرز پر عالمی فوج کے سپرد کردیا جائے گا۔ اس طرح یہ ریاست امریکہ کے تابع ہو گی‘ جس طرح انڈونیشیا سے علیحدہ مشرقی تیمور کی ریاست کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ خود مختار کشمیر میں گلگت بلتستان‘آزاد کشمیر اور جموں کے سوا پورا مقبوضہ کشمیر شامل ہوگا۔ جموں کو بھارت کے پاس رہنے دیا جائے گا اور یہی منصوبہ پنڈت جواہر لال نہرو نے 1964 ء میں شیخ عبداللہ کی وساطت سے فیلڈ مارشل ایوب خان کو بھجوایا تھا‘ جسے صدر ایوب خان نے مسترد کردیا تھا۔ اس طرح امریکی منصوبے کے مطابق پاکستان اور بھارت میں کشیدگی ختم ہو جائے گی‘خطے میں امن اور مستحکم ہوجائے گا اور چین کا محاصرہ بھی فو ل پروف ہو جائے گا۔ افغانستان سے اٹھنے والے خطرات پر بھی نظر رکھی جاسکے گی اور وسطی ایشیا میں پہلے سے موجود امریکی اثرات مزید موثر ہو جائیں گے۔ چین اور روس اس منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کریں گے‘ جبکہ پاکستان کی قیادت کو بھی امریکی اور بھارتی منصوبے کا مکمل طور پر ادراک ہے۔
امریکہ اور یورپی یونین کے منصوبے قوم کے سامنے پیش کردیئے ہیں ‘اب پاکستان کی حکومت اور عوامی قیادت کو احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان میں کشمیر کی آواز اٹھانے والی تنظیموں کو فنڈنگ یورپی یونین سے کس منصوبے کے تحت دی جا رہی ہے؟ ایسی این جی اوز کے دفاتر اور ان کے سربراہان کی رہائش گاہیں پوش علاقوں میں ہیں اور ان کی منی ٹریل کے بارے میں کسی ادارے نے ان سے سوالات نہیں پوچھے۔ ان این جی اوز کی خاطر برائے نام احتجاج کرنے کے لئے جو خواتین باہر نکلتی ہیں ان کا پس منظر بھی سامنے آنا چاہیے۔ کشمیر کے نام پر پاکستان میں جو این جی اوز کام کررہی ہیں‘ دراصل ان کی پشت پر مغربی اداروں کی فنڈنگ ہے‘ جبکہ ان کے عزائم‘ خودمختار کشمیر کی صورت میں پاکستان کو مفلوج کرنا ہے۔ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے عالمی منصوبہ بندی پر بہت زیادہ نظر نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارا ایک مضبوط ریاستی موقف ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھی اسی طرح سوچتی ہے جس طرح ہم سوچتے ہیں۔ مگر ایسا ہوتا نہیں۔بڑی طاقتیں اپنے مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے عالمی بساط بچھاتی ہیں‘ چاہے ہم اسے دیکھ یا سمجھ سکیں یا نہ سمجھ سکیں۔ اس لیے لازمی ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے چوکنا رہیں اور اپنی تیاری رکھیں کہ کشمیر یوں کی مرضی کے خلاف ہر طرح کے منصوبے کی راہ روک سکیں۔پچھلے پانچ برس سے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جس طرح انسانی حقوق پامال کئے گئے‘ اس کے نتیجے میں کشمیریوں میں غم و غصہ بلند ترین مقام پر ہے۔ اسی صورتحال نے عالمی سطح پر مظلوم کشمیریوں کی حالت ِ زار کو بحث کا موضوع بنایا ہے۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق نے پہلی بار کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر ایک جامع رپورٹ جاری کی تھی‘ جس میں بھارت پر ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔ اس رپورٹ سے بھی مظلوم کشمیریوں کی المناک صورتحال دنیا پر نمایاں ہوئی۔ مگر پاکستان کے خلاف بھارت کی پیدا کی گئی جارحانہ صورتحال نے مسئلہ کشمیر کو اور نمایاں کر دیا ہے۔ دنیا محسوس کرنے لگی ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر پاکستان اور بھارت میں پائیدار امن کا کوئی امکان نہیں؛چنانچہ یہ موقع ہے کہ ہم بحیثیت ملک اور قوم ہوشیار رہیں اور غور سے دیکھتے رہیں کہ مغربی ممالک مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کس قسم کے منصوبوں پر عملدرآمد کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں