"KDC" (space) message & send to 7575

مسئلہ کشمیر کے حل تک عالمی جنگ کا خطرہ

اقلیتی ہندو برادری کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ اور سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان پر فیاض الحسن چوہان کی اپنے منصب سے محرومی اس حقیقت کا مظہر ہے کہ ہلالی پرچم پر اقلیتوں کی نشاندہی کرنے والی سفید پٹی اقلیتوں کی نشاندہی اور تحفظ کے لئے ہے۔ اسی لئے نوابزادہ لیاقت علی خان نے قائداعظم ؒکی ایما پر اسے قومی پرچم کا حصہ بنایا تھا۔ یہ سفید پٹی پاکستانی قوم کے لئے اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جتنا اکثریت کی نشاندہی کرنے والا سبز رنگ۔ وزیراعظم عمران خان نے بجا طور پر واضح کیا کہ اسلام میں اقلیتوں کے بارے میں ایسے ریمارکس کی گنجائش نہیں ‘جبکہ پاکستان کا آئین بھی اقلیتوں کو مساوی حقوق دیتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے یہ الفاظ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ان الفاظ کے عین مطابق ہیں جو11 اگست 1947ء کو پہلی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے قائد اعظم نے بولے تھے۔ ان کا واضح طور پر یہ کہنا تھا کہ آپ کا تعلق کسی مذہب یا مسلک سے ہو ‘اس کا مملکت کے کاروبار سے تعلق نہیں۔ قائداعظم جب قوم کو بتارہے تھے کہ ہم سب ایک ہی مملکت کے برابر کے شہری ہیں تو اس میں اس تلقین کا پہلو بھی کارفرما تھا کہ ہم سب کو ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال و احترام ہر دم ملحوظ رکھنا ہے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک فلاحی اسلامی ریاست کے تصور کو عملی شکل دینے کے لئے قیام پاکستان کی جو جدوجہد کی گئی اس میں بہت سے غیر مسلم بھی شامل تھے۔ ان میں سے بعض نے برٹش انڈیا کے دوسرے حصوں سے ہجرت کر کے پاکستان میں شامل ہونے والے حصوں میں آنے کو ترجیح دی۔ 
قرآن وسنت اسلامی ریاست میں حقوق کے تعین و تحفظ کے اعتبار سے مسلمانوں اور ذمیوں کو یکساں حیثیت بلکہ تحفظ کے لحاظ سے ذمیوں کو برتری دیتے ہیں۔ ابوداؤد کتاب الجہاد کی ایک حدیث میں تو یہاں تک ملتا ہے کہ جو شخص کسی ذمی پر ظلم کرے گا یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا تو اس کے خلاف روزقیامت رسول پاک ﷺ خود مستغیث ہوں گے۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی سمیت وطن عزیز کے کئی شہروں میں مختلف مذاہب اور مسالک میں باہمی رواداری و احترام کا کلچر پایا جاتا تھا؛ تاہم اب بھارت کے مسلم کش فسادات کا ردعمل اور بعض بیرونی سازشوں کے اثرات انتہا پسندی‘ شدت پسندی اور درآمد شدہ دہشت گردی کا روپ دھار کر ملک کو نقصان سے دوچار کرچکے ہیں۔ پھر بھی ترقی کی منزل کی جانب جو سفر بظاہر شروع ہو چکا ہے ‘اس کی کلید آئین پاکستان‘ قائداعظم کے افکار اور رواداری پر مبنی اصولوں پر عمل میں مضمر ہے‘ جن کی بنیاد پر کبھی غیر مسلم اقلیتیں فخر کرتی تھی کہ وہ پاکستان کی شہری ہیں۔ یہ سفر جاری رہا تو بھارت سمیت بہت سے ملکوں میں اس کے مثبت اثرات محسوس کئے جائیں گے۔ بھارت بھی 1951 میں لیاقت نہرو معاہدہ کی پاسداری کرے گا‘ جس میں بھارت کے مسلمانوں کو تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا تھا۔
برصغیر میں امن کے لیے پاکستان کی مثبت حکمت عملی اور دنیا بھر کے ملکوں خصوصاً امریکہ اور روس کی پس پردہ ڈپلومیسی اور دوسری بڑی طاقتوں کی مداخلت کے بھارت پر پڑنے والے نفسیاتی دباؤ کے نتیجے میں رائے عامہ کے عالمی ادارے اور بین الاقوامی امور کے ماہرین پاک بھارت کشیدگی میں کمی کے خوش آئند آثار دیکھ رہے ہیں۔ امن کو راستہ دینے کے پیچھے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی وہ دانشمندانہ سوچ کارفرما ہے جس سے عالمی برادری کو یقین ہو گیا کہ پاکستان بھارتی جارحیت کا موثر جواب دینے کی صلاحیت کے باوجود امن کا خواہاں ہے‘ جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آنے والے انتخابات میں اپنے سیاسی فائدے کے لیے برصغیر پر ایٹمی جنگ مسلط کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اسی پس منظر میں ایک بھارتی آبدوز نے پاکستانی سمندر کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی ‘جسے پاکستان نے تباہ کرنے کی بجائے صحیح سلامت واپس جانے دیا۔ اگر پاکستان کی بحریہ بھارتی آبدوز کوغرق کر دیتی تو نریندر مودی آئندہ انتخابات کے گرداب میں غرق ہو جاتے‘لیکن پاکستان نے عالمی امن کی خاطر سنجیدہ اقدامات سے دنیا کو امن پسندی پر قائل کر لیا ہے اور بھارت پر عالمی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بھارت کو احساس ہونا چاہیے کہ جب تک تنازعہ کشمیر حل نہیں ہوتا جنگ کا خطرہ موجود رہے گا اور اب جو حالات نریندر مودی نے پیدا کر دیے ہیں جموںو کشمیر اپنے حقوق حاصل کرنے کی منزل کے قریب پہنچ چکا ہے ۔ 
1947 میں فارمولہ تقسیم ہند اور جموں و کشمیر کے عوام کی جمہوری خواہشات کو نظرانداز کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کے ساتھ ملا دیا گیا تھا۔ یہ 71سال کی تاریخ ہے‘ جسے عالمی طاقتیں فراموش کیے ہوئے ہیں اور اس کی سنگینی پر توجہ مرکوز نہیں کر رہیں۔ برطانوی سیاستدان اور براڈکاسٹر جارج گیلوے نے بھی پاکستان اور بھارت میں کشیدگی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تنازعہ کشمیر پر برطانیہ کا جرم بہت سنگین حماقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس‘ چین امریکہ ‘برطانیہ اور پوری دنیا کشمیر کی سنگینی پر توجہ دے۔ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہونا ہے کیونکہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے نظریے کے مطابق پاکستان سے براہ راست جنگ کی بجائے اسے پراکسی وار میں مبتلا رکھا جائے گا کیونکہ پاکستان کے نیوکلیئر ایٹمی طاقت اور مسلم فوجیوں کے جذبہ شہادت‘ عقیدے کی پختگی ‘اسلام اور وطن کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کر دینے کے جذبے اور عزم کی وجہ سے بھارت کھل کر جنگ کرنے سے اجتناب کر رہا ہے۔ بھارت کی پالیسی یہی ہے کہ مسلسل حالت جنگ میں رکھ کر پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاروں سے محروم کرکے‘ معاشی طور پر مفلوج کردیا جائے ۔
داخلی معاملات کی بات کی جائے تو وزیراعظم عمران خان کو احساس ہوتا جا رہا ہے کہ پنجاب میں حکومت کے معاملات ٹھیک نہیں چل رہے۔ دورۂ لاہور کے دوران وہ پنجاب کابینہ سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے پنجاب کابینہ کی کارکردگی پر کھلم کھلا عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ انہوں نے پنجاب کابینہ کو کہا کہ وہ ٹھیک کام نہیں کر رہی ‘اس کی کارکردگی ناقص ہے‘ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عثمان بزدار اچھی چوائس ہیں لیکن ان کے اردگرد ترجمانوں کا بازار لگا دیا گیا ہے‘ جن کے جھرمٹ میں عثمان بزدار کی شخصیت کو گرہن لگ چکا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ان چھ مہینوں میں عثمان بزدار پر کرپشن کا کوئی الزام بھی نہیں لگا۔پنجاب میں عثمان بزدار کو سبکدوش کرنے کی کوشش اپوزیشن نہیں کر رہی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کوشش تحریک انصاف کے اندر سے ہوتی رہی ہے۔ میرے خیال میں وزیر اعلیٰ ایک ایسی غیر ملکی شخصیت کے سحر میں گھر چکے ہیں‘ جس کی وجہ سے ان کی اہلیت و صلاحیت اس شخص کی شخصیت میں چھپ گئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ہندوؤں کی دل آزاری پر فیاض الحسن چوہان کو تو سبکدوش کردیا لیکن ایک وفاقی کے متنازعہ بیان‘ جس کے خلاف قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں صدائے احتجاج بھی بلند کی گئی‘ کا نوٹس لینے کو تیار نظر نہیں آتے۔ حکومت کو اس پالیسی سے نقصان کا احتمال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ وزیر اپنے متنازع بیان کی رو سے آئین کے آرٹیکل 63 ون جی کی زد میں آ سکتے ہیں۔ اپوزیشن ان کے خلاف مشترکہ طور پر ریفرنس قومی اسمبلی کے سپیکر کو بھجوا سکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو دیکھنا چاہیے کہ تحریک انصاف کے بعض وزرا اور ارکانِ پارلیمنٹ اپنی ''خوش گفتاری‘‘ سے ان کو مشکل میں ڈال رہے ہیں۔ قدرت نے ان کو بین الاقوامی سطح پر صفِ اول کے مقام پر پہنچا دیا ہے جبکہ ان کے بعض وزرا ایوارڈ کے چکر میں جگ ہنسائی کے موجب بنے ہوئے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان کو بامِ عروج پر پہنچانے کی خواہش رکھتے ہیں اور ان کی نگاہیں 1969 کی طرف اٹھتی ہیں جب پاکستان معاشی‘ سیاسی اور سماجی حوالوں سے اور بین الاقوامی امور کے لحاظ سے مضبوط تھا۔ پاکستان ترقی پذیر ملکوں میں شمار ہوتا تھا۔ پاکستان دنیا کو ڈاکٹر‘ انجینئر اور پلاننگ کے منصوبے دیتا تھا۔ پی آئی اے بین الاقوامی سطح کی ایئر لائن تھی۔ یہی عمران خان کا منصوبہ ہے‘ کاش وہ ایسا کر سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں