"KDC" (space) message & send to 7575

نریندر مودی دوبارہ وزیر اعظم نامزد نہیں ہوں گے! …(1)

بھارتی چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا کے مطابق لوک سبھا کے عام انتخابات 11 اپریل سے شروع ہو کر 7 مراحل میں مکمل ہوں گے۔ بھارتی قوانین کے مطابق پارلیمنٹ 3 جون 2019 تک برقرار رہے گی‘ اس لئے کہ الیکشن کے دوران لوک سبھا کو تحلیل نہیں کیا جاتا‘ وہ اپنی مقررہ مدت پوری کرے گی اور نتائج کا اعلان 23 مئی کو ہو گا۔ اس طرح اگلے دو ماہ بھارت میں انتخابات کا ہنگامہ جاری رہے گا‘ جس میں برسر اقتدار پارٹی کی کوشش ہو گی کہ وہ اقتدار پر بدستور قابض رہے‘ جبکہ اپوزیشن اسے سنگھاسن سے اتارنے کی بھرپور تگ و دو کرے گی۔ 
بادی النظر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے، لیکن چونکہ بھارت میں نگران حکومت کا کوئی تصور نہیں، اس لئے نریندر مودی سرکار کی جانب سے اگر الیکشن کا شیڈول جاری ہونے کے بعد بھی محاذ آرائی کی گئی تو بھارتی الیکشن کمیشن اسے قبل از انتخابات دھاندلی کے زمرے میں ڈال سکتا ہے۔ اس صورت میں وہاں الیکشن کمیشن کے عوامی نمائندگی ایکٹ 51 کا ضابطہ اخلاق نافذ کر دیا جائے گا۔ بھارت میں ایک بار انتخابی عمل شروع ہو جائے تو کوئی بھی عدالت الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج کے اعلان تک اس سارے عمل میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کر سکتی۔ جیسا کہ سب کے علم میں ہے‘ بھارت میں انتخابی مہم پہلے سے جاری ہے‘ اور جب سے یہ مہم شروع ہوئی ہے‘ وہاں انتہا پسندی میں شدت آتی جا رہی ہے اور پُر تشدد واقعات بھی پیش آ رہے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت تنائو کے دوران بھارت میں ایسے واقعات کی تعداد اور شدت میں خاصا اضافہ ہو گیا تھا۔ 
حیران کن اور چشم کشا تجزیوں‘ جو بھارت کے غیر جانب دارانہ حلقوں کی طرف سے آ رہے ہیں‘ کے مطابق پاکستان میں بالا کوٹ پر بھارت کے مبینہ فضائی حملے کے بعد انتخابی فضا نریندر مودی کے حق میں ہو رہی ہے۔ بالا کوٹ حملے کے بعد بھارت میں قوم پرستی کے جذبات کو ہوا ملی ہے جس کا فائدہ مودی کو ہو رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کا اثر الیکشن کے نتائج پر پڑے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بالا کوٹ کے نا کام حملے کو متحدہ اپوزیشن نریندر مودی کے خلاف بھی استعمال کر رہی ہے۔ کانگریس کی جواں سال قیادت کی جانب سے کی جانے والی شدید تنقید سے نریندر مودی کو انتخابی و سیاسی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ 2014 کے انتخابات کی طرح 2019 کے الیکشن کے دوران بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی سربراہی میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس جبکہ کانگریس کی سربراہی میں یو بی اے کا اتحاد قائم ہے۔ بھارتی الیکشن کے حوالے سے جو سروے مختلف ادارے کر رہے ہیں‘ زمینی حقائق کے مطابق ان پر یقین کرنا خود فریبی ہے۔ اس طرح کے سروے اور تجزئیے امریکی صدارتی انتخاب کے حوالے سے نا کام ہو چکے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایسے سرویز کا مقصد ووٹروں کو تقسیم کرنا اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونا ہوتا ہے۔ ان میں سے بہت سے سرویز تو باقاعدہ فنڈز فراہم کر کے کرائے جاتے ہیں تاکہ اپنی پوزیشن بہتر بنا کر ووٹرز کو اپنے حق میں کیا جا سکے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے اینکرز اور میڈیا ہاؤسز میں بیٹھے ماہرین‘ حتیٰ کہ ہماری حکومت کو بھی ایسے سرویز سے پریشان نہیں ہونا چاہئے‘ کیونکہ عام طور پر انتخابی جنگ کے خاتمے پر ایسے سروے کے بر خلاف ہی نتائج سامنے آتے ہیں۔ 
بھارتی دستور کے مطابق لوک سبھا کے تحلیل ہونے یا اس کے مدت پوری کرنے کے بعد چھ ماہ میں انتخابات ہونے ضروری ہیں اور جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ بھارت میں انتخابات کسی نگران حکومت کے زیر انتظام نہیں بلکہ موجودہ حکومت کی زیر نگرانی ہی ہوتے ہیں؛ تاہم یہ بھی واضح رہے کہ الیکشن کے شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی بھارتی حکومت برائے نام رہ جاتی ہے۔ عملاً تمام تر اختیارات الیکشن کمیشن کے پاس ہوتے ہیں۔ یعنی اس عرصے میں بھارت میں حکومت تو موجود ہوتی ہے‘ لیکن وہ اس قابل نہیں ہوتی کہ بڑے فیصلے کر سکے۔ اس موقع پر الیکشن کمیشن ہی آئین کے آرٹیکل 324 کے تحت کام کرتا ہے اور عوامی نمائندگی ایکٹ 51 کو نافذ بھی کرتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن آف انڈیا کو بہت سے حقوق حاصل ہو جاتے ہیں اور بوقت ضرورت یہ سول کورٹ کی حیثیت سے بھی کام کر سکتا ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن امیدواروں کے لئے ضابطہ اخلاق یا طرز عمل کا ضابطہ اخلاق ماڈل جاری کرتا ہے تاکہ انتخابات صاف شفاف طریقے سے ہوں۔ اس سلسلے میں انیس سو اکہتر میں پانچویں لوک سبھا انتخابات میں پہلی بار ایسا ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا‘ جس کے بعد اس میں ترمیم تو ہوتی رہی‘ لیکن ان ساری کاوشوں کے باوجود سرکاری مشینری کے غلط اور نا جائز استعمال کی شکایات بھی موصول ہوتی رہیں۔ بنیادی طور پر الیکشن قوانین دراصل ضابطہ اخلاق کی پابندیاں ہیں۔ الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد ہی ماڈل کوڈ کا نفاذ عمل میں آ جاتا ہے۔ اس دوران مرکزی حکومت رسمی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ حکومتی ادارے انتخابی عمل کے دوران کسی بھی قسم کی تعیناتی نہیں کر سکتے۔ مختلف نوعیت کی تبدیلیاں بھی نہیں لائی جا سکتیں۔ 2013 کے انتخابات کے دوران بھارتی آرمی چیف کی تقرری کا مسئلہ سامنے آیا تھا تو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے بھارتی چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری کی منظوری الیکشن کمیشن آف انڈیا سے حاصل کی تھی۔ 
حکمران جماعت کے ارکان انتخابی مہم کے لیے اپنے عہدوں یا سرکاری مشینری کا استعمال نہیں کر سکتے۔ وزراء کسی بھی افسر کی ایسی ایڈہاک تعیناتی تک نہیں کر سکتے‘ جس کا اثر اس پارٹی کے ووٹروں کی سوچ اور رائے عامہ پر پڑے۔ اس ضابطے کے تحت حکومت یا حکمران جماعت کے راہنما کوئی رفاہی منصوبہ جیسا کہ سڑکوں کی تعمیر‘ پانی کی سہولیات کی فراہمی اور اس طرح کی کسی بھی قسم کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقاریب کا انعقاد نہیں کر سکتے۔ عوامی جگہیں جن میں میٹنگ گراؤنڈ، ہیلی پیڈ‘ حکومتی گیسٹ ہاؤسز‘ سرکاری رہائش گاہیں شامل ہیں‘ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار یکساں استعمال کر سکتے ہیں۔ یعنی صرف حکومتی ہی نہیں‘ اپوزیشن کے امیدوار بھی اور آزاد الیکشن لڑنے والے بھی۔ ضابطے کے مطابق انتخابی ریلیوں اور سٹریٹ پاور شو میں ٹریفک میں خلل نہیں پڑنے دیا جاتا اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر متعلقہ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن معطل کی جا سکتی ہے۔ امسال بھارت میں ہونے والے انتخابات کے تناظر میں اٹھائیس فروری 2019 کو سرکاری افسران کے تبادلے کی آخری تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ لوک سبھا یعنی بھارتی سینیٹ کے اراکین کی تعداد 243 ہے۔ صدر کی جانب سے مزید دو ارکان اینگلو انڈین کمیونٹی کی نمائندگی کے لیے نامزد کیے جاتے ہیں۔ اگر صدر محسوس کریں کہ ان کی نمائندگی نا کافی ہے تو یہ تعداد دو سو پینتالیس ہو جاتی ہے۔ 
بھارت میں کسی جماعت یا اتحاد کو حکومت سازی کے لئے 272 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پاکستان کے آئین کے مطابق حکومت بنانے کے لئے 172 ارکان کی حمایت حاصل کرنا لازمی ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن کی جانب سے اب تک 16 لوک سبھا اور 350 سے زائد ریاستی انتخابات کرائے جا چکے ہیں جبکہ پاکستان میں اگر انتخابات کی مدت کا تعین 1951 سے مرحلہ وار شمار کیا جائے تو 15 انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں انیس سو ستر کا پہلا بالغ رائے دہی کا انتخاب تصور کیا جاتا ہے‘ جس کے مطابق 1970، 1977، 1985، 1988، 1990، 1993، 1997، 2002، 2008، 2013 اور 2018 کے انتخابات کو شمار کیا جاتا ہے جو کہ حقائق کے برعکس ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں