"KDC" (space) message & send to 7575

نریندر مودی دوبارہ وزیر اعظم نامزد نہیں ہوں گے! …(2)

الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق سترہویں لوک سبھا انتخابات میں ایک کروڑ سے زائد الیکشن اہل کار فرائض سر انجام دیں گے‘ جبکہ پاکستان میں عام طور پر انتخابات میں تقریباً دس لاکھ کے لگ بھگ پولنگ کا عملہ تعینات کیا جاتا ہے۔ بھارت میں 10 لاکھ پولنگ سٹیشن قائم کئے جائیں گے جبکہ پاکستان میں تقریباً پچاس ہزار کے لگ بھگ پولنگ سٹیشن بنائے جاتے ہیں۔ بھارت میں ساڑھے 86 کروڑ افراد ووٹ کاسٹ کریں گے‘ جبکہ پاکستان میں دس کروڑ ووٹر رجسٹرڈ ہیں اور ان میں سے بھی کم و بیش آدھے ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ پاکستان میں نئی رجسٹریشن ہو رہی ہے؛ چنانچہ امکان یہ ہے کہ اگلے انتخابات کے لیے ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔ بھارت میں ہونے والے الیکشن دنیا کے سب سے بڑے انتخابات ہی نہیں بلکہ یہ سب سے بڑا ہیومین مینجمنٹ پروجیکٹ بھی ہے۔ بھارت میں 2014 میں ہونے والے انتخابات‘ جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریتی سیٹیں لے کر سامنے آئی تھی اور نریندر مودی وزیر اعظم نامزد اور منتخب ہوئے تھے‘ انتخابی اخراجات 3870 کروڑ روپے ہوئے تھے‘ جبکہ پاکستان میں ایسے اخراجات کا تخمینہ تین ارب روپے کے لگ بھگ سامنے آیا ہے‘ جس میں دوسرے ممالک کی جانب سے فراہم کی گئی سہولت الگ سے شمار کی جاتی ہے۔ بھارت میں کسی بھی ڈونر ایجنسی سے امداد لینے کی ممانعت ہے۔ اپریل 2014 میں ہونے والے لوک سبھا کے سولہویں پارلیمانی انتخابات کے دوران 9 مرحلوں میں کل 543 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے تھے۔ ان انتخابات میں نریندر مودی کے اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس نے 336‘ کانگریس کے اتحاد یو بی اے نے 60‘ اور دیگر جماعتوں نے 113 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ اس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی 282 اور کانگریس کی 45 نشستیں تھیں۔ یوں نریندر مودی حکومت 26 مئی 2014 کو قائم ہوئی تھی‘ اور اس وقت وزیر اعظم (اب سابق) نواز شریف حساس اداروں کے تحفظات کے باوجود نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے سو سے زائد سنہری بنارسی ساڑھیاں اور پچاس من برفی لے کر دہلی پہنچ گئے تھے۔ 
بھارت میں اپریل‘ مئی 2014 میں رائے دہندگان کی تعداد 81 کروڑ 45 لاکھ سے بھی زیادہ تھی جبکہ 2002 کے عام انتخابات میں بھارتی ووٹروں کی تعداد 71 کروڑ 30 لاکھ تھی۔ ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق ان انتخابات میں 66.38 فیصد ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا‘ جو بھارتی انتخابات کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ تھا۔ اس سے پہلے انیس سو چوراسی کے انتخابات میں ریکارڈ ووٹنگ ہوتی تھی‘ یعنی لوگوں نے ریکارڈ تعداد میں ووٹ ڈالے تھے۔ حالیہ دنوں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی جو فضا قائم ہوئی اور کچھ دن سے برقرار ہے‘ سیاسی پنڈتوں کا اندازہ ہے کہ ان حالات میں بھارتیہ جنتا پارٹی 230 سے 242 نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے اور بی جے پی کا اتحاد 270 تا 282 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے‘ جبکہ کانگریس کی سربراہی میں قائم اتحاد یو بی اے کو 92 سے 102 نشستیں حاصل ہونے کے امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ بین الاقوامی سیاسی ماہرین کا اندازہ بھی ایسا ہی ہے۔ یہ صورتحال اس لیے پیدا ہوئی کہ نریندر مودی نے ووٹ حاصل کرنے کے لیے پاکستان مخالف پروپیگنڈا سے کام لیا اور اپنے ملک کے عوام کا جذباتی استحصال کیا ہے۔ سرحد کے اس پار اور اُس پار بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ تنائو بھارت میں ہندو ووٹروں کو بے وقوف بنانے کے لیے جان بوجھ کر پیدا کیا گیا ہے اور یہ ساری مودی حکومت کی کارستانی ہے۔ اگر تو بھارت کے آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات میں سیٹوں کی تعداد وہی یا اس کے قریب قریب رہتی ہے‘ جس کا سیاسی پنڈتوں کی جانب سے تخمینہ لگایا جا رہا ہے تو پھر نریندر مودی کو حکومت سازی کے لیے دیگر ہم خیال سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانا اور چلانا ہو گا اور اسی سارے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی آئندہ حکومت پاکستان کی موجودہ حکومت کی طرز پر معلق پارلیمنٹ کی بنیاد پر تشکیل پائے گی؛ تاہم یہ بالکل واضح ہے کہ کامیابی کے باوجود نریندر مودی اپنی پارٹی کی جانب سے دوسری مرتبہ وزیر اعظم کے لئے نامزد نہیں کئے جائیں گے‘ کیونکہ پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کی وجہ سے پارٹی کی جانب سے ان پر اعتماد بے حد مجروح ہوا ہے اور ان کی ساکھ بھی خاصی گر گئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پانچ سال کی حکومت میں مودی نہ تو بھارتی عوام کی توقعات پر پورا اتر سکے ہیں اور نہ انہوں نے ان مافیاز کی ضروریات ہی پوری کی ہیں‘ جنہوں نے مبینہ طور پر ان کی حکومت تشکیل دینے کے لیے 2014 کے انتخابات میں ان کی پارٹی کے لئے فنڈنگ کی تھی۔ بھارتی معیشت بھی پچھلے پانچ سالوں میں اتنی تیزی سے ترقی نہیں کر سکی‘ جتنی تیزی سے من موہن سنگھ کے دور میں کر رہی تھی۔ اسی وجہ سے بھارتی عوام مالی مشکلات بھی پہلے کی نسبت زیادہ محسوس کر رہے ہیں۔
اب وزیر اعظم جناب عمران خان کی مثالی حکومت کی طرف آتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان‘ ان کے گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کا پروٹوکول اسی روایت پر گامزن ہے‘ جو 1980 سے چلا آ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم عمران خان اپنی صوبائی حکومتوں کے اجلاس کی صدارت بھی باقاعدگی سے کر رہے ہیں‘ جب کہ آئین کے آرٹیکل 139 کے تحت صوبائی حکومت کو اپنا نظم و نسق چلانے کے لیے قواعد و ضوابط وضع کرنے ہوتے ہیں۔ پنجاب حکومت کے مذکورہ قواعد بھی موجود ہیں۔ ان کا احترام وزیر اعظم عمران خان پر لاگو ہوتا ہے۔ ان قواعد میں سے قاعدہ نمبر 28 کی شق 4 کے مطابق وزیر اعلیٰ پر صوبائی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرنا اختیاری نہیں لازم ہے؛ چنانچہ نواز لیگ کے عہدے داروں اور پیپلز پارٹی سے کچھ لوگ یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کس آئینی‘ قانونی اختیار کے تحت یہ کام کرتے ہیں۔ عمران خان صاحب کو اس کے جواب میں یہ کہنا پڑے گا کہ وہ این جی او کے فلاحی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے‘ جس طرح صدر آصف علی زرداری نے لاہور ہائی کورٹ کے رو برو بیان حلفی وسیم سجاد کی توسط سے داخل کرایا تھا کہ پیپلز پارٹی ایک این جی او ہے‘ اس کا سیاسی حکومتی امور کے معاملات سے سروکار نہیں ہے اور ان کے حلفیہ بیان کو ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے معاملہ ختم کر دیا گیا تھا۔
حکمران جماعت کے اہم اور فعال ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ بھی ہیں۔ ان کو پاکستان کی ہندو کمیونٹی کی حمایت حاصل ہے اور پلوامہ سانحہ کے بعد ان کی ملاقات بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے خیر سگالی کے جذبے کے تحت دہلی میں ہوئی تھی‘ اور ان کو بھارتی وزارتِ خارجہ کی جانب سے مکمل پروٹوکول دیتے ہوئے ان کی ملاقات بھارتی وزیر خارجہ اور بعد ازاں انڈین وزیر اعظم سے کروائی گئی تھی۔ ان کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔ اب چونکہ دونوں ممالک میں کشیدگی ختم ہو رہی ہے تو میرے خیال میں یہ مناسب ہو گا کہ ڈاکٹر رمیش کمار کو ایمبیسیڈر برائے ہم آہنگی مقرر کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان پل کا کردار سونپ دیا جائے۔ ڈاکٹر رمیشن کمار کا بھارتی با اثر حلقوں بالخصوص بھارتی پارلیمنٹ اور میڈیا میں گہرا اثر ہے‘ اور دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات کی بحالی کے لیے ان کی اس پوزیشن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ میں وزیر اعظم عمران خان کے خیر خواہوں میں شامل ہوں اور ان کی کامیابیوں کا خواہش مند بھی‘ لیکن یہ کہنا مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان کی تھرپارکر کی تقریر کو حساس حلقوں میں منفی سوچ کا پیغام تصور کیا گیا۔ جس طرح بر صغیر کے عظیم سپوت ٹیپو سلطان کی ناکامی میں ان کے مشیران اور وزرا کا بڑا عمل دخل تھا، اسی طرح وزیر اعظم عمران خان کے ارد گرد بھی غیر ملکی شہریت کے حامل بعض شخصیات نے گھیرا ڈال رکھا ہے اور میرا اندازہ یہ ہے کہ وہی ان کے وژن کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں