"KDC" (space) message & send to 7575

اختلافات کی سیاست… (1)

دنیا بھر کے نظام ہائے حکومت کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں یقینا اختلافات پیدا ہوتے رہتے ہیں‘ لیکن بات چیت‘مذاکرات اور باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے یہ اختلافات دور بھی کر لئے جاتے ہیں اور یوں حکومتی نظام چلتا رہتا ہے۔ جماعتوں کے ارکان بھی آپس میں ملتے رہتے ہیں اور وہ مل کر قانون سازی بھی کرتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں صورتحال مختلف ہے۔ سیاسی نظام میں بد قسمتی سے سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کا رنگ دے کر سیاسی محاذ آرائی کو اس انتہا تک پہنچا دیا جاتا ہے کہ عوام میں جمہوری نظام کے لئے بد گمانی کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے انہیں اختلافات کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک میں گزشتہ تیس برسوں میں کوئی بھی جمہوری طور پر منتخب حکومت اپنی آئینی میعاد پوری نہیں کر سکی۔ یہ سیاست دانوں کی جانب سے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل ہی ہے‘ جس کی وجہ سے غیر جمہوری طاقتوں کو جمہوریت کی بساط الٹانے اور ماورائے آئین اقتدار پر براجمان ہونے کا موقع ملتا ہے۔ 1970ء کی دہائی سے 1990ء کی دہائی تک کے محاذ آرائی والے کلچر میں جمہوریت کا امیج خراب ہونے کے مناظر بھی اسی لئے سامنے آتے رہے۔ وطنِ عزیز میں اقتدار کی رسہ کشی کا کھیل تو بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒکے انتقال کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا تھا‘ جس کے باعث برسوں تک محلاتی سازشوں کا دور دورہ رہا اور مستحکم جمہوری نظام کی بنیاد نہ رکھی جا سکی۔ یہ کلچر دراصل مفاد پرستوں کے سیاست میں آنے سے پیدا ہوا تھا۔ قیام پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود اور اقتصادی استحکام سے متعلق مقاصد بھی اسی وجہ سے پس پشت چلے گئے تھے اور رواداری والی جمہوری اقدار بھی اسی باعث استحکام نہ پا سکی تھیں۔ اسی صورتحال نے سکندر مرزا کو ملک میں شخصی آمریت قائم کرنے‘ اور پھر اقتدار جنرل محمد ایوب خان کے سپرد کرنے کی راہ استوار کی تھی‘ حالانکہ سکندر مرزا کے ہاتھ کچھ نہیں آیا تھا۔ پھر جنرل ایوب خان نے 10 سال اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد اپنے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک کے دباؤ کے تحت ملک کو جلاؤ گھیراؤ سے بچانے کے لئے اقتدار جنرل یحییٰ خان کو منتقل کر دیا اور خود پس منظر میں چلے گئے تھے۔ ایوب خان نے 25 مارچ 1969ء کو جنرل یحییٰ خان‘ کمانڈر انچیف پاکستان‘ کو خط لکھا تھا‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ملک میں امن و امان کی بحالی کے لئے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں۔ اس خط میں اشارہ یہ تھا کہ اقتدار سپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کر دیں اور خود پیچھے ہٹ جائیں۔ لیکن جنرل یحییٰ خان نے اس خط کے الٹ کام کیا اور صدر ایوب خان کے خط کی آڑ میں انیس سو باسٹھ کا آئین کالعدم قرار دے کر اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا۔ جنرل یحییٰ خان نے صدارت پر فائز رہنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان محاذ آرائی کی حوصلہ افزائی کی‘ جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آیا۔ سیاستدانوں کے درمیان اقتدار کے لیے رسہ کشی بھی اس سانحہ کے پس پردہ محرکات میں شامل تھی۔ یہ اقتدار اسی رسہ کشی کا نتیجہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے دو قومی اسمبلیوں کا تصور پیش کیا‘ اور پھر ہوا بھی ایسے ہی‘ اس نعرے کے محرکین ذوالفقارعلی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کو سقوط ڈھاکہ کے بعد بالترتیب پاکستان اور نو تشکیل شدہ بنگلہ دیش کے اقتدار پر براجمان ہونے کا موقع مل گیا۔
سیاسی و جمہوری رواداری کی سیاست میں اور عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اگر سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کی جانب سے ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کرنے کا کلچر اپنایا جاتا تو شاید سقوط مشرقی پاکستان کی نوبت نہ آتی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کے باہمی دست و گریبان ہونے کی سیاست میں جہاں وطن عزیز کی سالمیت کا خون ہوا‘ وہیں شیخ مجیب الرحمن جلد ہی اپنے خاندان سمیت قتل ہو کر انجام کو پہنچا‘ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی ایک مضبوط لابی سرگرم عمل ہو گئی تھی۔ اس سرگرمی کے نتیجے میں نہ صرف بھٹو کے اقتدار کی بساط الٹانے کی راہ ہموار ہوئی بلکہ ملک پر تیسری بار مارشل لاء مسلط کرنے کا موقع بھی فراہم کر دیا گیا‘ اور اسی مارشل لاء کے ہاتھوں ذوالفقارعلی بھٹو بھی تختہ دار تک جا پہنچے۔ اس کے باوجود سیاست دانوں نے اپنی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا اور ان میں سے بہت سے مسٹر بھٹو کے مخالف جنرل ضیاء الحق کے حاشیہ بردار بن گئے۔ اس طرح اس دور میں محاذ آرائی کی سیاست فروغ پاتی رہی اور پنپتی رہی۔ محاذ آرائی کی اس سیاست میں انیس سو پچاسی میں غیر جماعتی اسمبلی تشکیل پائی‘ جس نے صدر جنرل ضیاء الحق کو آئین کے آرٹیکل اٹھاون ٹو بی کے تحت پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے صوابدیدی اختیارات تفویض کر دئیے؛ چنانچہ انہوں نے‘ یعنی جنرل ضیاالحق نے اپنی ہی تشکیل کردہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرنا بھی اپنا اعزاز بنایا۔ مگر ان کی زندگی نے انہیں اپنی پسندیدہ اگلی اسمبلی کے لیے انتخابات کرانے کی مہلت نہ دی اور وہ ایک فضائی حادثے میں شہید ہو گئے؛ تاہم ان کی پروان چڑھائی گئی سیاسی محاذ آرائی کی فضا میں انیس سو اٹھاسی کی اسمبلی کے انتخابات ہوئے جو بھٹو مخالف جماعتوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم پر لڑے‘ جس میں میاں نواز شریف کا بھٹو مخالف سیاست دان کا تشخص ابھر کر سامنے آیا۔ نواز شریف نے اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کی بے نظیر بھٹو کی حکومت کے ساتھ محاذ آرائی کی انتہا کر دی۔ اس کے نتیجے میں نفرتوں کی سیاست مزید مستحکم ہوئی‘ اور نوے کی دہائی تک اسی سیاست کا دور دورہ رہا۔ ایک دوسرے کو برداشت نہ کر کے جمہوریت کے مقاصد کو خراب کیا جاتا رہا۔ اگرچہ میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں صدر کے صوابدیدی اختیارات والی آئینی شق ختم کر دی تھی‘ مگر اس سے پہلے میاں نواز شریف نے انہی صوابدیدی اختیارات کے تحت صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کروانے کی راہ ہموار کی تھی جبکہ نواز شریف بھی اپنے اقتدار کو جنرل پرویز مشرف کے ماورائے آئین اقدام سے نہ بچا پائے۔ بعد ازاں میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان امریکی اور برطانوی لابی کے ذریعے میثاق جمہوریت طے پایا‘ جس کے ذریعے عہد کیا گیا کے آئندہ کسی جمہوری حکومت کو ختم کرنے کے لئے کسی فوجی سربراہ کی حمایت نہیں کی جائے گی‘ لیکن جلد ہی 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں آصف علی زرداری کی حکومت کے خلاف نواز شریف صف آرا ہو گئے اور اسی طرح 2013ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نواز اقتدار کے خلاف صف آرا رہی۔ ایسی فضا میں عوام سیاست سے متنفر ہوئے اور اسی محاذ آرائی کی فضا میں 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو اقتدار کا مینڈیٹ حاصل ہو گیا ‘اور اس کا موقع بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مفاد پرستی کی سیاست کے باعث پیدا ہوا‘ جنہوں نے باہم متحد نہ ہونے کے باعث تحریک انصاف کے ہاتھوں وفاق اور تین صوبوں میں شکست کھائی۔ (جاری)
سیاسی و جمہوری رواداری کی سیاست میں اور عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اگر سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کی جانب سے ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کرنے کا کلچر اپنایا جاتا تو شاید سقوط مشرقی پاکستان کی نوبت نہ آتی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں