"KDC" (space) message & send to 7575

اختلافات کی سیاست …(2)

آج پیپلز پارٹی سندھ میں اقتدار میں ہونے کے باوجود احتساب کے عمل کی زد میں ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی قیادت احتساب کے عمل میں قید و بند کی کا سامنا کر رہی ہے‘ اور اب نواز شریف سے بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات دونوں پارٹیوں کے باہمی اختلافات ختم کرنے اور میثاق جمہوریت پر نیا عمرانی معاہدہ کر نے کے لئے ہوئی ہے۔ میرے خیال میں یہ سب اپنے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ دینے اور اپنے اور ایک دوسرے کے بچاؤ کے لیے ہو رہا ہے۔ نواز شریف کو اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ ان کا ووٹ بینک اب بھی مضبوط اور مستحکم ہے۔ وہ اپنی سوچ میں درست ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ہے کہ آج اگر انتخابات ہوں تو وہ پہلے سے زیادہ ووٹ حاصل کر لیں گے‘ لیکن وہ اپنے ووٹرز سے اس بات کی توقع بالکل نہ رکھیں کہ وہ احتجاج کے لئے باہر نکلیں گے اور وہ ان کے لئے سڑکوں پر آئیں گے۔ اسی طرح بلاول زرداری کی پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین میں بھی وہ دم خم نہیں کہ جیالے کرپٹ لیڈران کے لئے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا لیں اور احتجاج کے لیے باہر نکلیں۔ میں نے بلاول زرداری کے حامیوں کی فوٹیج دیکھی ہے لیکن میرے خیال میں وہ سب کرائے کے نوجوان تھے‘ جن کو روزانہ کی اجرت پر گھیر کر لایا گیا تھا۔ ہاں اگر اس طرح کے مزید احتجاج ہوتے ہیں‘ پورے ملک میں ہوتے ہیں اور تسلسل کے ساتھ جاری رہتے ہیں تو پھر اور بات ہو گی۔ پھر پیپلز پارٹی کا شو آف پاور ہو سکتا ہے۔ لیکن فی الحال نہیں۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی اندازہ ہے کہ نواز شریف اور بلاول زرداری خوشامدیوں کے بغیر نہیں رہ سکتے اور وہ اپنے خوشامدیوں کی ذہنی مفلسی کا شاہکار ہیں۔ اس حوالے سے سب اپنا اپنا تجزیہ خود کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر صرف ایک بات کی جا سکتی ہے کہ خوشامدی بہرحال حقیقی وفادار نہیں ہوتے۔ مشکل وقت آن پڑے تو سب سے پہلے یہی بھاگتے ہیں۔ ان پر تکیہ کرنا اور ان کی باتوں کو مان کر آگے بڑھنا مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ بھی ایک عالمگیر سچائی ہے کہ قوم کا رہبر مزاحمت سے نہیں بلکہ حکمت عملی سے بنتا ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی تقریباً مفلوج ہو چکی ہے‘ جس کا ایک اظہار ہم گزشتہ سال ہونے والے الیکشن میں واضح طور پر دیکھ چکے ہیں‘ لیکن میاں نواز شریف کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کو تقسیم نہیں ہونے دیا۔ کچھ لوگوں نے انتخابات سے پہلے پارٹی تبدیل کی‘ لیکن اس سے مسلم لیگ نون کو کوئی واضح فرق نہیں پڑا۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ میاں نواز شریف کو سنگین بیماری کا سامنا نہیں ہے اور وہ حکمت عملی کے تحت حکومت کو جھٹکا دیتے رہے ہیں۔ حکومت نے اپنے ترجمان کو نواز شریف کی منت سماجت اور اعلیٰ درجے کے میڈیکل علاج کی پیش کش کے لئے بھیجا تھا‘ اس سے نواز شریف کے حوصلے مزید بلند ہو گئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان اگر نعیم الحق یا عون چوہدری کو اس مقصد کے لئے ان کے پاس بھیجتے تو نتائج ممکنہ طور پر مختلف ہو سکتے تھے۔ 
پارلیمانی ایوانوں کی کارروائی کے دوران سامنے آنے والی دو متضاد کیفیات عام لوگوں‘ خصوصاً غریب اور متوسط طبقے کے افراد کے لئے تشویش کا باعث بنی ہیں۔ پہلی وہ بات جس میں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر بتا رہے ہیں کہ جب 600 ارب روپے کا خسارہ ہو گا تو مہنگائی بڑھتی جائے گی۔ دوسری طرف ملک کے سب سے بڑے صوبے‘ پنجاب کی اسمبلی کا فیصلہ‘ جس کے تحت وزیر اعلیٰ‘ وزراء اور ارکان اسمبلی کے مشاہروں میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا۔ مذکورہ اسمبلی میں سرکاری رکن کا پیش کردہ پرائیویٹ بل جس طرح پہلے سٹینڈنگ کمیٹی اور بعد ازاں سرکاری بزنس ڈے کے قواعد معطل کر کے پانچ منٹ میں سرکاری اور اپوزیشن بنچوں نے اتفاق رائے سے منظور کیا‘ اس نے ایک طرف وزیر اعلیٰ‘ سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر اور وزرا کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر کے قومی اسمبلی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں کو پیچھے چھوڑ دیا تو دوسری جانب دیگر ایوانوں میں اسی طرح کی تحریک کے امکانات بھی اجاگر کر دئیے۔ پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ بل کے تحت فراہم کی جانے والی رقم کا حساب لگایا جائے تو معیشت کی صورت حال اس تصویر سے مختلف نظر آتی ہے جو وفاقی وزیر اسد عمر عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ 25 جولائی 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں وفاق اور صوبوں میں حکومت بنانے والی حکمران جماعت سے عام آدمی جس تبدیلی کی امید وابستہ کیے ہوئے تھا‘ پنجاب اسمبلی میں مفاد پرستانہ عجلت میں کیا گیا فیصلہ نہ صرف اس کے برعکس ہے بلکہ عمران خان صاحب کی غربت مٹائو والی پالیسی کے منافی بھی ہے۔ یہ سوال شدت سے ابھرا ہے کہ مفلوک الحال طبقات کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بجائے مراعات خواص کے لئے مختص کی جا رہی ہیں۔ بہر حال اب یہ معاملہ نمٹایا جا چکا ہے۔ بل روک دیا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی عوام کے دلوں میں تو یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ان کے منتخب نمائندے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کس طرح اکٹھے ہو جاتے ہیں‘ لیکن جہاں عوام کے فائدے کی بات ہو‘ وہاں حکمرانوں اور اپوزیشن کے اختلافات ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ ریاست مدینہ کا نظام لانے کا دعویٰ کرنے والوں نے ایک طرح سے عمران خان صاحب کو ناکام ہی بنا دیا ہے۔ عمران خان نے پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ بل پر تحفظات کا اظہار کیا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی اپنی پارٹی کے کارکنوں نے یہ پرائیویٹ بل پیش کیا تھا اور اس معاملے میں عمران خان صاحب کو اعتماد میں لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ ان کے خلاف کارروائی کرنے اور وزیر اعلیٰ بزدار‘ جن کی مشاورت سے مجوزہ بل پیش کیا گیا اور جنہوں نے اپنے لئے مراعات منظور کرائیں‘ کے خلاف کوئی ایکشن لینے کا اشارہ نہیں دیا گیا۔ اگرچہ عمران خان صاحب کی نیک نیتی پر شک نہیں کیا جا سکتا‘ مگر اس اچھی نیت سے آگے عمل کی بھی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کو یہ سوچنا چاہیے کہ حکومت میں شامل وزرا باتیں تو کرتے ہیں‘ لیکن ان کے (وزیر اعظم کے) وژن پر عمل نہیں کرتے۔ میرے اندازے کے مطابق وزیر اعظم کے ایجنڈے پر اس لیے عمل نہیں ہو رہا کہ پنجاب میں کوئی اس معاملے پر پوری توجہ ہی نہیں دے پا رہا۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے ارد گرد ایسے غیر ملکی کرائے کے منشی رکھے ہوئے ہیں‘ جن کو خود سرکاری امور کے رموز کا علم نہیں۔ کفایت شعاری پالیسی کا جنازہ ان کی اسمبلی کے سرکاری بل نے نکال دیا‘ جس میں اپنے لیے انہوں نے ہمالیہ سے بلند مراعات حاصل کر کے اپنی دنیاوی سیاست محفوظ کرنے کی کوشش کی۔
اب یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری مقتدر سیاسی جماعتیں بنیادی معاملات پر توجہ دینے کے بجائے پیچیدہ مسائل میں پھنستی اور دھنستی جا رہی ہیں۔ حکومت میں کچھ ایسے افراد غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں‘ جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر نا اہلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ قانونی معاملات اور سفارت کاری میں نئی روح پھونکنے کے لیے غیر ملکی شہریت کے حامل بیوروکریٹس‘ مشیران کرام سے لا تعلقی اختیار کرنا بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال نے قومی معیشت، ملکی وحدت اور مفاہمت کے لیے سنگین خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی اپنے فیصلے میں لا محالہ سنگین خطرات کا اشارہ دے چکے ہیں۔ یہی بہترین وقت ہے کہ حکومتی امور پر بھرپور توجہ دی جائے تاکہ حالات کو مزید خراب اور قابو سے باہر ہونے سے بچایا جا سکے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں