"KDC" (space) message & send to 7575

عوامی توقعات کب پوری ہوں گی؟

پاکستان کا بنیادی مسئلہ اقتصادی بحران ہے۔ عصر ِحاضر میں اقتصادی استحکام ہی سرفرازی کا باعث ہے اور اس کے بغیر ناقابل تسخیر دفاع بھی ممکن نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے اس سلسلے میں چند اہم اقدامات کیے ہیں۔ دوست ممالک سے معاونت حاصل کی‘ سعودی عرب ‘ چین ‘متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا کے حکام نے پاکستان کے دورے کیے اور بہت سے معاہدے بھی ہوئے۔ اس سرمایہ کاری سے پاکستان کا زرمبادلہ کا دباؤ کم ہوا۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے بھی دونوں ممالک کے مابین ایک کھرب روپے کے معاہدوں پر دستخط کیے ۔ یہ معاہدے گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ کے بجائے بزنس ٹو بزنس کی بنیاد پر ہیں۔ حکومتوں کی کاوش اور عسکری قیادت کے ویژن سے پاکستان کے دوستوں کا حلقہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے‘ لیکن اس کے باوجود انتہائی مثبت نتائج کے آثار نمودار نہیں ہوئے۔ وزیراعظم نے قومی اخبارات کے ایڈیٹروں سے ملاقات میں یہ کہا کہ ہمارے بیوروکریٹ فیصلے نہیں کر پا رہے کیونکہ ان کو احتساب کا خوف لاحق ہے‘ جس سے حکومتی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ آئی ایم ایف پاکستان کو قرضہ دینے پر تیار ہو گیا ہے مگر پاکستان کو عالمی سطح پر بلیک لسٹ قرار دیے جانے کا خطرہ بھی موجود ہے‘ جس کے نتیجہ میں ملک کا بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ اسی تناظر میں وزیراعظم عمران خان عالمی اداروںکی شرائط و مطالبات پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؛ تاہم ان کی ٹیم ان طوفانوں کا رخ موڑنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ وزیرخزانہ لگتا ہے‘ عوام کو کرب میں مبتلا کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔مگر نواز شریف اور ان کی ٹیم، دونوں حکومت کی بدانتظامی اور ابتر معاشی منصوبہ بندی کے نتائج کو سامنے رکھ کر حکومت کے خلاف احتجاج کی راہ اپنانے سے اس لئے گریز کررہے ہیںکہ حکومت خود ہی جلد یا بدیر ناکام ہو جائے گی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس حکومت سے انتقام کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وزیراعظم کو حکومت کرنے دی جائے۔ عوام کی نظریں وزیراعظم عمران خان پر لگی ہوئی ہیں اور وزیر اعظم لگ رہا ہے کہ پریشان ہیں۔ شاید انہیںاپنی ٹیم کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں رہا۔ ان کی ٹیم ان کو خوشامدی سونامی کی طرف لے جا رہی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں خاطر خواہ نتائج نہیں دے پا رہیں اور یوں لگتا ہے کہ حکومت ٹویٹر کے سہارے چل رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے ذہنوں میں پاکستان کی معاشی اہمیت اور اس ملک کی سلامتی کی خاطر ان مشکلات کے سدباب کی ضرورت کا خیال پیدا نہیں ہو رہا۔ اس موقع پر میں پاکستان کے بارے میں عالمی بینک کی اس رپورٹ کا سرسری ذکر کرنا چاہتا ہوں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی معاشی راہیں درست نہیں ہیں۔
ارد گرد کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے کی کس قدر ضرورت ہے‘ اس کا اندازہ شہزادہ ولید بن طلال کے اس انکشاف سے کیا جا سکتا ہے کہ سعودی حکومت اقتصادی سقوط کے دہانے پر پہنچ گئی تھی‘ اور وہ شاہ عبداللہ کو اقتصادی حالات سے آگاہ کرنے کے لئے خط تحریر کیا کرتے تھے؛ تاہم کوئی شخص یہ خطوط شاہ تک نہیں پہنچنے دیتا تھا۔ مجبوراً اس وقت مملکت کے ولی عہد شہزادہ سلمان کو خط تحریر کیا گیا اور یہ خط ان تک پہنچانے میں شہزادہ محمد بن سلمان نے ولید بن طلال کی مدد کی۔ شہزادہ ولید بن طلال نے بتایا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سعودی اقتصادی سقوط کو روکنے والے آپریشن کے انجینئر ہیں۔ میرے خیال میں اسی طرح کی صورتحال کا وزیراعظم عمران خان کو بھی سامنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی وزیراعظم عمران خان تک اہم خطوط پہنچنے نہیں دے رہا ہے۔
اگر اس صورتحال کو دیکھا جائے تو وزیراعظم اندرونی خطرات میں گھرے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں تین بڑی شخصیات وزیراعلیٰ عثمان بزدار‘ گورنر چودھری محمد سرور اور سپیکر چودھری پرویز الٰہی کے درمیان اختیارات کی کشمکش پھر زور پکڑ چکی ہے۔ان شخصیات کے درمیان اقتدار کی کشمکش اسمبلی تک بھی پہنچ چکی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے ایک حالیہ اجلاس کے دوران تین قوانین منظور کیے گئے۔ ان میں پہلا قانون پنجاب صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ ایمپلائز بل تھا جو اسمبلی ملازمین کی بھرتی‘ترقی اور تبادلوں سے متعلق تھا۔ صوبائی اسمبلی رولز 1986ء کے مطابق اسمبلی سیکرٹریٹ ملازمین کے معاملات میں گورنر پنجاب کی منظوری ناگزیر تھی‘ جس سے سپیکر اور گورنر کے درمیان چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود تھا ۔اس بل کی منظوری سے گورنر چودھری محمد سرور کے اختیارات ختم کر کے سپیکر کو تمام اختیارات تفویض ہوگئے ہیں اور آئندہ 725 اسمبلی ملازمین کے معاملات میں سپیکر کو مکمل اتھارٹی حاصل ہوگی۔ اس قانون کے مطابق فردِ واحد سپیکر کو اعلیٰ عہدوں پر ملازمین کی تقرری اور تبادلوں کے اختیار حاصل ہو گئے ہیں۔ سپیکر ایڈہاک بھرتیوں سمیت کسی بھی صوبے اور وفاق میں کام کرنے والے افسران کی ڈیپوٹیشن پر خدمات بھی حاصل کر سکیں گے۔ ڈیپوٹیشن‘ تقرروتبادلے پہلے بھی ہوتے تھے لیکن آئندہ سپیکر،افسران کو اسمبلی سیکرٹریٹ سے باہر نکال کر صوبے میں کسی بھی جگہ بھیج سکیں گے۔ وہ چاہیں تو افسران کو دوسرے صوبوں اور وفاقی محکموں میں بھیج سکیں گے ۔گورنر پنجاب کے اختیارات سپیکر کو منتقل کرنے کا قانون نہایت عجلت میں منظور ہوگیا۔ اسمبلی روایت کے مطابق ایوان میں پیش ہونے والے قانون کو مجلس قائمہ کے سپرد کیا جاتا ہے جو اجلاس طلب کرکے ارکان سے مشاورت کرتی ہے۔ قائمہ کمیٹی برائے قانون و پارلیمانی امور جس دن قائم ہوئی اسی دن قانون کا مسودہ کمیٹی ارکان کے سپرد کر دیا گیا اور ایوان میں پیش کر کے چند منٹوں کے دوران اس کی منظوری بھی لے لی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس قانون کی منظوری میں اسمبلی کی ایک پراسرار شخصیت پیش پیش تھی اور جب وزیراعظم عمران خان کو خطرے سے آگاہ کیا گیاتو ان تک پنجاب اسمبلی کے ثالثی کردار کی روداد نہیں پہنچنے دی گئی ۔پنجاب اسمبلی کے باخبر حلقے کہتے ہیں کہ قانون کی منظوری کے بعد گورنر کے اختیارات بھی سپیکر کو تفویض ہو گئے ہیں ۔ 33 برس پرانے قواعد ختم کرکے نئی قانون سازی کی ضرورت سپیکر صاحب کو کیوں محسوس ہوئی؟ وزیراعظم عمران خان کو گورنر پنجاب سے اس بارے میں بریفنگ لینی چاہیے ۔ان حالات میں پنجاب حکومت کی کارکردگی سے وزیراعظم عمران خان سخت مایوس ہیں اور لگتا ہے کہ عنقریب اہم فیصلے کرنے والے ہیں۔ممکنہ طور پر عثمان بزدار صاحب کو تبدیل کیا جا رہا ہے‘ جو اپنے مشیروں کے ہاتھوں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ ان کی اپنے وزرا‘ 18 ترجمانوں اور 20 کے لگ بھگ مشیروں پر انتظامی اور قانونی گرفت ختم ہو چکی ہے۔ پنجاب حکومت کسی بھی وقت ان کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ میرے خیال میں ایسی صورتحال درپیش آنے سے پہلے ہی عثمان بزدار صاحب کو تبدیل کرنا وزیراعظم کے مفاد میں ہو گا۔
عوام کا مینڈیٹ آج حکمران جماعت سے اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ ایک جدید جمہوری اسلامی فلاحی ریاست کی تشکیل کے لئے اپنی ترجیحات اور معاشی پالیسیوں کا از سر نو تعین کرے، قومی معیشت کو مستحکم بنانے کی جانب توجہ دے اورزرعی معیشت کو مستحکم بنائے۔ زرعی معیشت کو ہر لحاظ سے فوقیت حاصل ہونی چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان اقتدار کے آٹھ ما ہ پورے کر چکے ہیں ‘ اپنے اقتدار کے پہلے سو دن کی ترجیحات کا تعین کر کے وزیر اعظم نے گورننس اور اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے عوام کی توقعات بڑھائیں ‘تاہم حکومت اب تک ان توقعات پر پورا نہیں اتر سکی۔ اس کے بر عکس نئی ٹیکس پالیسی ‘ دو ذیلی بجٹ اور بجلی‘ گیس ‘پانی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہر ماہ اضافہ ہونے کے باعث غربت ‘ مہنگائی بے روز گاری کے مسائل مزید بڑھے ہیں‘ جس کے باعث عوام میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہونا فطری امر ہے ۔ یومِ پاکستان کے موقع پر تحریک انصاف کی حکومت نے قومی ایوارڈ بغیر کسی جانچ پڑتال کے دیئے اور قومی احتساب بیورو کے بعض نامزد ملزموں کو ‘ جو قوم کے خائن ہیں‘ جن کا ماضی داغدار ہے‘اور جن کے خلاف پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہوئی ہے‘ بھی بغیر حساس ایجنسیوں کی کلیئرنس کے ایوارڈ پیش کردئیے گئے۔ قوم کو نہیں معلوم کہ ان کو کس کارکردگی کی بنیاد پر اس قومی دن پر تمغوں سے نوازا گیا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں