"KDC" (space) message & send to 7575

نئے صوبائی یونٹ بنائے جا سکتے ہیں؟

وزیراعظم عمران خان نے حقائق کے مطابق صحیح نشاندہی کی ہے کہ بلوچستان کی نشستیں فیصل آباد ڈویژن سے بھی کم ہیں‘ مگر سیاست دان ان حالات پر اس لئے توجہ نہیں دیتے کہ بلوچستان میں الیکشن جیتنے کی سیاست ہوتی ہے اور انہوں نے وہاں کوئی ترقیاتی کام نہیں کرنے ہوتے یا وہاں کے عوام کی بہبود کا نہیں سوچنا ہوتا کہ نشستوں کی تعداد میں اضافے کے بارے میں سوچیں تاکہ بلوچ عوام کو زیادہ نمائندے میسر آئیں اور ان کے مسائل کے حل کی راہ ہموار ہو جائے۔ میرے خیال میں پاکستان میں پارلیمانی نظام میں عوام کی امنگوں اور آئین کے آرٹیکل 25 ، 3 اور 38کے مطابق پارلیمانی اصلاحات کے لئے قومی اسمبلی کے سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کو ایک کمیشن تشکیل دینا چاہئے‘ جس میں سول سوسائٹیز‘ آئین و قانون کے ماہرین اور پارلیمانی اراکین شامل ہوں اور یہ کمیشن ان امور پر غور کرے کہ آئین کا آرٹیکل 3 پاکستان کے ویلفیئر سٹیٹ ہونے کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ 1977ء سے 2018ء تک جتنے بھی انتخابات ہوئے‘ آیا وہ آئین کے آرٹیکل 3 کی روح کے مطابق کرائے گئے؟اسی طرح پارلیمانی کمیشن کو طے کرے کہ چاروں صوبوں میں ہم آہنگی پیدا کرکے قومی اسمبلی کی 272 نشستوں کو چاروں صوبوں میں مساوی حیثیت کیسے دی جا سکتی ہے تاکہ ایک صوبے کی اجارہ داری کا تصور ختم کیا جائے اور اس طرح صوبائی سطح پر ہم آہنگی میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس وقت پنجاب کی قومی اسمبلی کی نشستیں 148، سندھ 61، صوبہ بلوچستان 14‘اور خیبر پختونخواکی 35 نشستیں ہیں۔ جائزہ لینا ہو گا کہ آبادی اور جغرافیائی حدود کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صوبوں کو مساوی نمائندگی دے دی جائے تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ کیا اس کے نتیجے میں ایسا ہو سکتا ہے کہ پاکستان بھر کی سیاسی جماعتیں اپنے اقتدار کے لیے کسی ایک صوبے کی طرف ہی توجہ نہ دیں بلکہ چاروں صوبوں میں اپنی اپنی پارٹی کو مضبوط و مستحکم کریں۔ 272 نشستوں کو مساوی تقسیم کیا جائے تو ہر صوبے کو 68 نشستیں حاصل ہوں گی۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں اپنی حیثیت برقرار رکھیں مگر قومی اسمبلی کی نشستیں 272 کے بجائے 300 کر دی جائیں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہر صوبے کا 75 نشستوں کا کوٹہ مقرر کیا جا سکتا ہے ۔ سینیٹ کی طرز پر قومی اسمبلی کی نشستیں مقرر کرنے سے فیڈریشن مضبوط ہوگی اور صوبائی سطح پر ہم آہنگی بڑھے گی‘ قومی سطح کے فیصلے کرنے میں آسانی پیدا ہو گی ۔
پاکستان کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھا جائے تو ملک میں اب نئے صوبے بنانا محال نظر آتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 1 کے تحت حکمران پارلیمانی جماعت کے لئے دو تہائی اکثریت حاصل کرنا مشکل ترین ہے لہٰذاسینیٹ کی طرز پر قومی اسمبلی کی نشستیں مقرر کی جائیں تو اس صورتحال میں میں تبدیلی ممکن ہے۔ حالات یہ ہیں کہ پاکستان کی پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور کے مطابق قوم سے کئے گئے وعدوں کو نظر انداز کر رکھا ہے‘ لہٰذاالیکشن کمیشن آف پاکستان ان تمام سیاسی جماعتوں سے منشور کے حوالے سے کار کردگی کے بارے میں رپورٹ حاصل کر سکتا ہے۔بھارت کثیر لسانی اور علاقائی اکائیوں پر مشتمل ملک ہے۔ تقسیم ہند کے بعد پنڈت جواہرلا ل نہرو نے 1951ء کے دستورِ ہند کے مطابق ملک کے ریاستی یونٹوں کی تشکیل نو کے لیے مسٹر جسٹس فضل علی‘ شری دھردے لال اور شری کے ایم پانیکر جیسے بلند پایا اور معروف لوگوں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی کمیشن مقرر کیا تھا تاکہ اس کی سفارشات کی روشنی میں ملک کی ازسرِنو تنظیم کی جاسکے؛ چنانچہ کمیشن نے جملہ جغرافیائی‘ انتظامی‘ علاقائی‘ لسانی ‘ سیاسی اور عوامی رجحانات کا جائزہ لے کر اپنی تجاویز پیش کیں جن کی روشنی میں ریاستوں کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔ اس کے بعد بھی صورتحال جامد نہیں رکھی گئی بلکہ ناگزیر اور معقول وجوہ کے پیش نظر مزیدیونٹوں کو معرضِ وجود میں لایا گیا جس کے نتیجہ میں اس وقت بھارت پہلے سے زیادہ ریاستوں پر مشتمل ملک ہے۔ یہ واضح ہے کہ صرف اسی وجہ سے وہ ملک اپنی وحدت کوبچانے اور متحد رکھنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ دوسری طرف بھارت کے آئین میں مرکز اور ریاستوں کے مابین اختیارات‘ حقوق اور دائرہ کار کے بارے میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہے اور تمام یونٹوں کو وہ تمام اختیارات حاصل ہیں جن کا انہیں حق حاصل ہو سکتا ہے؛ چنانچہ یونٹوں کے اختیارات کی تقسیم کے آئینی تحفظ کی بنیاد پر وہاں کے عوام مطمئن ہیں۔ اگر چہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے کئی علاقوں میں علیحدگی کی تحریکیں بھی چل رہی ہیں مگر ان کے متنوع اسباب ہیں۔ کشمیری عوام بھارت سے اس لئے آزادی چاہتے ہیں کہ بھارت نے فارمولا تقسیم ہند کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں و کشمیر پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور اس کی سکیورٹی فورسز ستر برسوں سے کشمیریوں کے انسانی حقوق پامال کر رہی ہیں۔ 
پاکستان کے قیام کے وقت اس کے کل پانچ یونٹ تھے ۔ اس وقت ضرورت اس امر کی تھی کہ مستقبل میں پیدا ہو سکنے والے ممکنہ اختلافی امکانات کی پیش بندی کے لیے برطانوی حکومت کے وقت کی انتظامی مصلحتوں کے تحت قائم صوبائی حدود میں متناسب ردوبدل کرکے ایسے متناسب یونٹوں کی تشکیل عمل میں لائی جائے جن کے قیام سے علاقائی‘ لسانی اور انتظامی تقاضے بھی پورے ہوسکیں اور متناسب آباد ی‘ رقبہ اور وسائل کی بنیاد پر مزید یونٹ بھی ظہورمیں آ سکیں۔ لیکن افسوس کہ اس وقت اس بنیادی کام کو نظر انداز کیا گیا اور 1956 ء کے دستور میں اس اہم قومی مفاد کے مطابق پاکستان کے یونٹوں میں اضافہ کرنے کی راہ نہ نکالی گئی کیونکہ اس وقت آئین ساز اسمبلی میں جاگیرداروں کے نمائندوں کی اجارہ داری تھی۔ اس وقت یہ کام کر لیا جاتا تو آج میں ہم آہنگی کی صورتحال مختلف ہوتی۔
1962ء کے آئین میں مزید صوبوں کی گنجائش اس لئے نہ رکھی گئی کہ اسی وقت ون یونٹ کی طرز پر نظام حکومت چل رہا تھا اور 1956ء کے آئین کے مطابق ون یونٹ کے تحت‘ مغربی پاکستان کی تشکیل کر دی گئی تھی جس کے نتیجے میں 5 یونٹوں کی آبادی ‘رقبہ ‘وسائل اور حالات میں کسی قسم کا تناسب یا مساوات نہ تھی۔ وقت کے ساتھ حالات بدلتے گئے اور بھارت نے چھوٹے صوبوں کے عوام کو غلط طور پر یہ تاثر دے کر متنفر کرنا شروع کر دیا کہ پنجاب سب کے حقوق اور مفادات سلب کرا رہا ہے ۔ اسی قسم کے تصورات پیدا کرنے والی دشمن قوتیں اپنے مقاصد میں آسانی سے کامیاب نہ ہوتیں اگر اس ملک کے آئین میں یونٹوں کے اختیارات اور حقوق کی اطمینان بخش منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے دی جاتی‘ لیکن افسوس کہ مرکز کو ہی زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش پر زور دیا گیا اور صوبوں کو منصفانہ حقوق اور اختیارات سے دور رکھا گیا جس کے نتیجے میں بھارت نے غلط فہمیوں کو ہوا دے کر پاکستان کی وحدت کو کمزور کرنے کے لئے پاکستانیوں کو ایک قوم کی بجائے سندھی‘ پشتون‘ بلوچ‘ پنجابی اور بنگالی کے طور پر سوچنے اور عمل کرنے کی راہ پر لگا دیا اور اسی کے نتیجے میں پہلا المیہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے حق بات کی ہے کہ اس ترمیم کے بعد وفاق دیوالیہ ہوتا جا رہا ہے لہٰذا وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ موجودہ وفاقی یونٹوں کی از سرِ نو تشکیل اور نئے یونٹوں کی تخلیق کی خاطر جملہ عوامل کا جائزہ لے کر سفارشات مرتب کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن مقرر کریں۔ یہ کمیشن آئینی‘ قانونی‘ معاشی اور الیکشن کے ماہرین پر مشتمل ہو جسے مطلوبہ رپورٹ فراہم کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کی مہلت دی جائے تاکہ جملہ لسانی‘ علاقائی‘ جغرافیائی‘ سیاسی اور دیگر مضمرات کا جائزہ لے کر متناسب سائز کی نئی یونٹوں کی تشکیل کے سلسلے میں اپنی جامع سفارشات حکومت کو پیش کر سکے اور اس طرح ملک میں مزید صوبے بنانے کی حکمت عملی طے کی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں