"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری کے حتمی نتائج؟

مارچ 2017 ء میں کی گئی چھٹی مردم شماری کے حتمی نتائج ابھی تک جاری نہیں کیے گئے۔ اس مردم شماری کے عبوری نتائج محکمہ شماریات میں 2017 ء میں جاری کیے گئے جبکہ اگست 2017 ء میں مکمل نتائج جاری کرنا ضروری تھا۔چونکہ بلدیاتی الیکشن کا انعقاد اسی سال کے آخر میں ہونے کا امکان ہے اس لیے بعض سیاسی جماعتوں نے مردم شماری کے حتمی نتائج میں تاخیر پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔ آئین کے تحت بلدیاتی الیکشن کے انعقاد سے پہلے ملک میں شفاف بلدیاتی نظام نافذ ہونا ضروری ہے ۔مقامی حکومتوں کا قیام جمہوری سسٹم کے استحکام ‘ گراس روٹ لیول پر سیاسی ارتقا اور قابل ذکر انتظامی صلاحیتوں کے حامل افراد کی سیاسی نشوونما اور سیاسی نظام کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ اس تناظر میں مردم شماری کے حتمی نتائج کے اجرا میں تاخیرجمہوری اداروں کے لیے نقصان دہ ہے۔ حکومتی وزرا کے مطابق10 بلاکس کی تفصیلی مردم شماری اور پانچ فیصد سیمپل سروے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ متعلقہ اداروں کا کہنا یہ ہے کہ ان کی طرف سے تو کام مکمل ہے تاہم حکومتی جماعتوں کی کشمکش اور جوڑ توڑ کی وجہ سے مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری وفاقی حکومت کے لیے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ شنید ہے کہ مردم شماری کے نتائج پر ایم کیو ایم کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ ایم کیو ایم نے اکتوبر 2017ء کی مردم شماری کو مسترد کر دیا تھا۔حکومت نے اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو متحدہ قومی موومنٹ حکومتی حلیف نہیں رہے گی اور اس طرح وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو خدشات لاحق ہوجائیں گے ۔بادی النظر میں یہی نظر آرہا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اور اختر مینگل کی جماعت ‘دونوںحکومت سے اپنی راہیں جدا کرنے کا سوچ رہی ہیں کیونکہ حکومت میں شمولیت سے کراچی‘ حیدرآباد‘ میرپورخاص اور سکھر میں ایم کیو ایم کی مقبولیت کا گراف گرتا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے پانچ فیصد دوبارہ سیمپل‘ مردم شماری کی قرار دادوں کی منظوری اور ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے مابین شراکتِ اقتدار کے فارمولے اور مفاہمتی معاہدوں میں حکومت کی طرف سے تائید کے بعد اس ابہام کو دور کرنا پڑے گا اور اگر پانچ فیصد دوبارہ مردم شماری کی شرط پوری کیے بغیر حتمی نتائج جاری ہوئے تو حکومتی اتحاد خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔ میری رائے میں دو سال بعد دوبارہ مردم شماری کی گئی تو عمومی نتائج میں فرق پڑسکتا ہے جس سے نئی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں جبکہ محکمہ شماریات کے کہنے کے مطابق اس کا کام تو مکمل ہو چکا ‘ اب صرف گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے ؛چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایم کیو ایم کو مطمئن کر نے کا صائب فیصلہ کرے۔
ملک کی اقتصادی صورتحال کے بارے میں قومی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی تجزیاتی رپورٹ خوش کن نہیں۔ مہنگائی کا طوفان‘ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی ناقدری اور گرتی ہوئی فی کس آمدنی جیسے عوامل ان رپورٹوں کی تصدیق کر رہے ہیں‘ لیکن وفاقی حکومت کایہ کہنا قابل اعتماد نہیں کہ ملکی معیشت انتہائی نگہداشت یونٹ سے نکل کر استحکام وارڈ میں منتقل ہوگئی ہے ۔سابق وزیر خزانہ ا سد عمر صرف اپنی قوت گویائی سے عوام کو تسلی دیتے رہے اور بالآخر اسی بحرانی صورتحال میں اپنی وزارت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
میری تحقیق کے مطابق کچھ بین الاقوامی قوانین ‘ جو اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی معاونت سے بنائے گئے ہیں ‘کی رو سے اگر کسی ملک کی حکومت کرپشن میں ملوث ہے اور اس کے خلاف اداروں میں منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور اعلیٰ عدالتوں نے انہیں نااہل قرار دے کر سزا کے طور پر جیل بھجوا دیا ہو تو وہ ملک سابق حکومتوں کے حاصل کردہ قرضہ جات کی واپسی سے استثنیٰ حاصل کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رولنگ کے مطابق وزیراعظم عمران خان عالمی عدالت سے رجوع کر کے پاکستان کے سابق حکمرانوں کے حاصل کردہ قرضہ جات‘ جو منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ممالک بھجوا دیئے گئے ہیں اور جن سے سٹیٹ کو فوائد حاصل نہ ہوئے ‘سے استثنیٰ کی درخواست کریں تو پاکستان آسانی سے عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے نجات حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے اور جب تک عالمی عدالت اس پر فیصلہ نہیں کرتی اس وقت تک قرضوں کی واپسی معطل کروانے کی بھی استدعا کی جا سکتی ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ کرپشن اقتصادی اداروںکے ذریعے ہوتی ہے اور آئی ایم ایف نے پاکستان کی صلاحیتوں پر قدغن لگانے کے لیے اس کی معاشی شہ رگ پر شکنجہ کس دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عمل درآمد سے ملک میں مہنگائی کا سیلاب امڈ آئے گا اور عام آدمی کی قوت خرید خاصی گھٹ جائے گی‘روزگار کے مواقع ضرورت سے کہیں کم ہوں گے اورسٹاک ایکسچینج شدید مندی کا شکار ہو جائے گا ۔ اگست 2018ء میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کی مالیت دس ارب ڈالر تھی‘ دوست ممالک سے قرض لینے کے بعد وہ پندرہ ارب ڈالر ہونا چاہیے تھی لیکن اس کی مالیت اتنی نہیں۔ اسی طرح اگست 2018ء میں گردشی قرضہ ایک کھر ب تھا جو اب 1.4 کھرب ہو گیا ہے۔ یعنی موجودہ حکومت نے اس میں چارسو ارب کا اضافہ کیا ہے۔ اسی طرح جولائی تا جنوری 2018ء کے درمیانی عرصہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری 4.1 ارب ڈالر تھی جو جولائی تا جنوری 2019ء میں کم ہو کر ایک ارب ڈالر رہ گئی۔زرداری حکومت روزانہ پانچ ارب قرض بڑھا تی رہی تھی‘نواز حکومت اس میں روانہ 7.7 کے حساب سے اضافہ کر رہی تھیں لیکن عمران حکومت روزانہ 14 ارب روپے قرض لے رہی ہے۔ اس ہولناک صورت حال سے توجہ ہٹانے کے لیے عمران خان کی حکومت کے وزرا اپوزیشن پر یلغار کر رہے ہیں جبکہ زیر سماعت مقدمات بھی التوا کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ شہباز شریف اندرونی طور پر عمران خان کے سر کردہ رہنماؤں سے مفاہمت کی پالیسی پر کام کر رہے ہیں ۔ اگر اس صورتحال کو ملک و قوم کے مفاد کی خاطر بدلا نہ گیا تو عوام صبر کا دامن چھوڑ دیں گے۔
کسی بھی ریاست میں نظامِ جمہوریت اسی وقت عوام کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے جب وہاں کے بلدیاتی ادارے عام آدمی کے روزمرہ مسائل کے فوری حل کے لیے با اختیار ہوں اور اپنا کام احسن طریقے سے انجام دیں۔افسوسناک امر مگر یہ ہے کہ گزشتہ 12 سے 15 برس کے دوران جمہوری ادار وں کے تسلسل کے باوجود حکمران جماعتیں اختیارات اور ووٹ کی تقسیم کے لایعنی خوف کے سبب مضبوط بلدیاتی نظام وضع کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہاں تک کہ عدالت ِعظمیٰ کے احکامات کے بعد ہی 2016ء میں بلدیاتی الیکشن کروائے گئے ۔ وہی غیر جمہوری طرزعمل موجودہ دور میں بھی جاری رکھا گیا ہے۔ نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ ایک جانب بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے دو قراردادیں منظور کی گئی ہیں‘پہلی میں سندھ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اگر موجودہ اختیارات اور و سائل کے ساتھ ہی بلدیاتی انتخابات کرانا ہے تو آئندہ سال بلدیاتی انتخابات نہ کرائے جائیں ۔دوسری قرارداد میں آئین کے آرٹیکل 140-A کے نفاذ کے لیے میئر کراچی کی دائرکردہ درخواست پر عدلیہ سے جلد حکم کی استدعا کی گئی ہے۔دوسری جانب بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں بلدیاتی ادارے مکمل طور پر غیر فعال ہوگئے ہیں‘ جس سے اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے کیوں کہ پنجاب حکومت نے بر سر اقتدار آتے ہی صوبے کے تمام اضلاع اور تحصیلوں میں منتخب نمائندوں اور کمیٹیوں کو پنجاب لوکل گورنمنٹ بورڈ کی اجازت کے بغیر جاری کیے گئے ترقیاتی منصوبوں پر کام روک دیا ہے۔جاری منصوبوں پر کام کے تعطل سے جہاں اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے وہیں منصوبوں کی لاگت بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان بلدیاتی نظام کو مضبوط بنانے کے ہمیشہ حامی رہے ہیں اور اب ان کے مطابق پنجاب میں لوکل گورنمنٹ کے بل کی منظوری دے دی گئی ہے جو بلدیاتی نظام کی روح کے مطابق قرار دی جا رہی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں