"KDC" (space) message & send to 7575

پاک ایران تعلقات اور غلط فہمیوں کا ازالہ

یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ ایران کے بھارت کے ساتھ دوستانہ مراسم ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی تعاون کے معاہدوں میں بھی بندھے ہوئے ہیں ۔اسی تناظر میں ایران نے بھارت کو بھی گیس پائپ لائن کے منصوبے میں شامل کیا تھا‘ مگر بھارتی بدنیتی جلد ہی کھل کر سامنے آگئی اور بھارت گیس پائپ لائن کے اس منصوبے سے نکل گیا اس طرح ایران ‘ پاکستان ‘ انڈیا گیس پائپ لائن منصوبہ صرف ایران پاکستان منصوبہ رہ گیا۔ایران نے اس معاہدے کے لئے پاکستان کو ترجیح دی اور پھر بھارت کو نکال کر دونوں ممالک نے باہمی معاہدہ کیا‘ مگر بھارت نے ایران کو پاکستان سے برگشتہ کرنے کی سازشوں میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔اس مقصد کے تحت بھارت نے چاہ بہار پورٹ کی تعمیر میں معاونت کی پیشکش کی جو ایران نے قبول کرلی۔2013ء میں جب بھارت نے چاہ بہار بندر گاہ کے منصوبے میں شمولیت اختیار کی تو بھارت کے اس منصوبے کے پیچھے یہ سوچ کارفرما تھی کہ اس طرح بھارت گوادر پورٹ کو بے اثر کرنے کی کوشش کرے گا تاہم ایران نے یہ بھارتی سازش کامیاب نہیں ہونے دی اور چاہ بہار پورٹ کو گوادر پورٹ کے ساتھ لنک کرنے کی پیشکش قبول کرلی۔باوجود اس کے بھارت نے سازشی ذہن کے مطابق گوادر پورٹ کے خلاف سازشیں جاری رکھیں اور بلوچستان میں کلبھوشن کی نگرانی میں جاسوسی نیٹ ورک قائم کرکے اس کا رابطہ چاہ بہارتک استوار کر دیا‘جس کے باعث اسے ایران کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سہولت مل گئی۔
کلبھوشن اپنی گرفتاری کے وقت چاہ بہار پورٹ سے ہی بلوچستان میں داخل ہوا تھا جس کی گرفتاری کی بنیاد پر پاکستان اور ایران کے مابین بعض غلط فہمیاں اور کشیدگی پیدا ہوئی کیونکہ یہ گرفتاری ایرانی صدر کے دورۂ اسلام آباد کے موقع پر عمل میں آئی تھی ۔تاہم جنرل راحیل شریف نے اس وقت دونوں ممالک کی قیادت سے مل کر دانشمندی کے ساتھ دوطرفہ معاملات طے کرکے غلط فہمیاں دور کر لیں۔بعد ازاں پاکستان ایران سرحد پر دونوں جانب دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر بھارت کو پاکستان اور ایران کے مابین غلط فہمیاں پروان چڑھانے کا موقع مل گیا۔ اسی دوران ایرانی سرحدی دستوں کی جانب سے پاکستان کے اندر فائرنگ کے کئی واقعات بھی ہوئے جس سے غلط فہمیاں مزید بڑھ گئیں۔ تاہم دونوں ممالک کی قیادت نے اس معاملے میں فہم و بصیرت سے کام لے کر دوطرفہ کشیدگی کو پختہ نہیں ہونے دیا۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ مراسم ہیںاور حجاز مقدس کے ناتے پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ عقیدت کا رشتہ بھی ہے جبکہ ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے ساتھ مخاصمت ہے‘ جسے یمن جنگ میں مزید فروغ حاصل ہوا ہے ۔ جنرل راحیل شریف کو اسلامی اتحادی افواج کا سپریم کمانڈر مقرر کرنے پر بھی ایران کے تحفظات ہیں۔ بھارت نے ایران اور پاکستان کے مابین فاصلے پیدا کرنے کی سازش کی تاہم پاکستان کی بہتر خارجہ پالیسی کی بنیاد پر اس کے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات میںکوئی فرق نہیں آیا جبکہ پاکستان نے برادر سعودی عرب اور ایران میں یمن جنگ کے حوالے سے پیدا ہونے والی غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی بھی کوششیں کی ہیں ۔اس کے برعکس بھارت کی حتی الوسع یہی کوشش ہے کہ وہ پاکستان پر دہشت گردی کا سرپرست ہونے کا الزام لگانے میں کامیابی حاصل کرلے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ بھارت خود پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغانستان اور ایران کی سرزمین استعمال کرتا ہے۔
سابق وزیراعظم نوازشریف نے جب اپنے ایک انٹرویو میں ممبئی حملوں کے حوالے سے متنازعہ بیان دیا اور اس سے پہلے ڈان لیکس کا سکینڈل سامنے آیا تو ان کے اس عمل کو ملک سے دشمنی گردانا گیا اور تحریک انصاف کی قیادت نے ان پر تنقید کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور میڈیا نے بھی نوازشریف کے خلاف شدید مہم چلائی جس کے اثرات 25 جولائی کے انتخابات میں بھی دیکھنے میں آئے۔ اب جبکہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورۂ ایران کے موقع پر ایرانی صدر کے ساتھ ملاقات کے دوران خود ہی یہ بات کہہ دی ہے کہ ایران میں دہشت گردی کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال ہوتی رہی ہے تو اس طرح کے تاثرات ملکی اور قومی مفاد سے مطابقت نہیں رکھتے‘نیزاس سے بھارت کو پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام لگانے کی مزید سہولت مل سکتی ہے۔ ملک کے وزیراعظم کو اپنے بیرونی دوروں کے موقع پر ملکی پالیسی کی ہر صورت پاسداری کرنی چاہیے اور ایسی کوئی بات نہیں کہنی چاہیے جو بعد میں ہمارے ہی خلاف استعمال ہونے کا احتمال ہو یا اس سے کسی کو ہماری جانب انگلی اٹھانے کا موقع ملے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ ایران سے دونوں ممالک کے مابین روابط بلاشبہ مزید مستحکم ہوں گے اور وزیراعظم کے بیان سے یقینا ایران کے جذبات بھی ٹھنڈے پڑ جائیں گے اور ممکن ہے کہ وزیراعظم کے دورۂ ایران سے ایران کو بھارت کے اصل عزائم سے آگاہ کرنے میں مدد ملے‘ جس کی اس وقت بہت ضرورت ہے۔ اسی سے خطے میں بھارت کے اثرورسوخ کے خاتمے کی راہ ہموار ہوگی ۔ بھارت پاکستان کو معاشی طور پر دیوالیہ اور عالمی سطح پر تنہا کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے ‘ ہمیں ادراک ہونا چاہیے کہ ہمارا سیاسی عدم استحکام اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمارے کمزور تعلقات سے بھارت کو فائدہ پہنچتا ہے ۔ 
محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے پرانے دوستوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اور ایسے افراد کے نرغے میں آ چکے ہیں جن کی عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ وابستگی نہیں۔ تحریک انصاف کی صفوں میں انتشاراور مایوسی دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور آئندہ لوکل گورنمنٹ کے الیکشن پر اس جماعت کا ووٹ بینک بھی متاثر ہو سکتا ہے ۔ اس وقت حکومت عجیب دور سے گزر رہی ہے‘ حکومت کی ناقص کارکردگی پر وزیر اعظم عمران خان شدید پریشان ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے بھی وزیراعظم مخمصے کا شکارہیں ۔ترجمان خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ ہیں ۔ یہی وہ چند عناصر ہیں جو عثمان بزدار کو تحریک انصاف کے سینئر رہنماؤں اور حکومت سے بدگمان کرتے رہتے ہیں۔عثمان بزدار ابھی تک اپنی گرفت کو مضبوط نہیں بنا سکے اور نہ ہی ان کی انتظامی صلاحیتیں غیرمعمولی ثابت ہوئی ہیں ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا متبادل تلاش کر لیا گیا ہے اور بجٹ اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ کی تبدیلی ممکن ہوسکے گی ۔وزیراعظم عمران خان کو ادراک ہونا چاہئے کہ وزیراعلیٰ کے اردگرد جو ترجمان مقرر کیے گئے ہیں ان کے رابطے (ن) لیگ کی قیادت سے متواتر چلے آرہے ہیںاور وفاق میں بھی 90 فیصد سے زائد عہدے داروں کے نواز شریف کے ساتھ بالواسطہ اور بلاواسطہ رابطے موجود ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو وزیرداخلہ بریگیڈیئر(ر) اعجاز شاہ اور آئی بی سے اس کی تحقیقات کرانی چاہئیں۔
بادی النظر میں ڈاکٹرعشرت ٹاسک فورس کی سفارشات سے بیوروکریسی میں سی ایس ایس کا مطلب تبدیل کرکے کیڈراورنان کیڈر تفریق ختم کرنے کی تجویز خوش آئند نظر آتی ہے‘ لیکن ان کی سفارشات پر من وعن عملدرآمد سے پاکستان کی بیوروکریسی کی عمارت زمین بوس ہو جائے گی اور ٹیکنیکل مشیروں کی بھرتی سے تکنیکی معلومات رکھنے والی بیوروکریسی کے اختیارات سفارشی مشیروںکے رحم وکرم پر ہوں گے۔ بیوروکریسی آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت ریاست کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ وہ سیاسی اور غیر ملکی مشیروں کے ما تحت ہوکر اپنی صلاحیتوں سے محروم ہو جائے گی۔ ڈاکٹر عشرت حسین پاکستان کا گراں قدر سرمایہ ہیں لیکن میرا اندیشہ یہ ہے کہ ان کی سفارشات سے بیوروکریسی اور سرکاری نظم و ضبط کا شیرازہ بکھر جائے گا ۔ ان کی سفارشات پر سپریم کورٹ آف پاکستان کو ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس پر اپنی رائے دینی چاہیے کیونکہ ان سفارشات کے جائزے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سفارشات ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں