"KDC" (space) message & send to 7575

غیر حلف یافتہ مشیران اور پارلیمنٹ

وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کی تنظیم نو کرتے ہوئے غیر منتخب ٹیکنوکریٹس کو اہم ذمہ داریاں تفویض کی ہیں۔ ایک لحاظ سے یہ منتخب سیاستدانوں کی صلاحیتوں پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ آئین کے آرٹیکل 91 کے مطابق؛ وزیراعظم پانچ مشیروں کا تقرر کرنے کے مجاز ہیں‘ جو صدر مملکت کے سامنے حلف لینے کے بعد کابینہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح یہ مشیران پارلیمنٹ کے اجلاس میں منتخب ارکانِ اسمبلی کے مساوی حقوق حاصل کرتے ہوئے اجلاس کی کارروائی میں حصہ لینے کے بھی آئینی طور مجاز ہوتے ہیں؛ اگرچہ حلف یافتہ مشیران کو اسمبلی کی کارروائی میں ووٹ کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس غیر حلف یافتہ مشیران پارلیمنٹ کی کارروائی کا حصہ نہیں ہوسکتے۔
وزیراعظم عمران خان نے ابھی حال ہی میں جن پانچ ٹیکنوکریٹس کو مشیران اور معاون خصوصی مقرر کیا ہے ‘ان کی حیثیت حلف یافتہ مشیران کے مساوی نہیں ہے۔ حلف کی عدم موجودگی میں مذکورہ مشیر یا معاون خصوصی کی حیثیت حکومت کے معاملات کے بارے میں ذمہ دار تصور نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی مملکت کی پالیسی کا حصہ بننے کا انہیں مجاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ سراسر ایک آئینی معاملہ ہے اور حکومت کو اس سلسلے میں وہی کرنا چاہیے‘ آئین جس کی اجازت دیتا ہے۔دسمبر 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران صدر مملکت جنرل محمد یحییٰ خان نے مسٹر ذوالفقارعلی بھٹو کو وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم مقرر کرکے اقوام متحدہ کے ہنگامی اجلاس میں نمائندگی کے لیے بھجوایا تھا اور مسٹر بھٹو انتہائی جلدی میں حلف اٹھانے سے پہلے ہی کابل کے راستے نیویارک روانہ ہوگئے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جب چیف جسٹس حمود الرحمان کمیشن نے جناب بھٹو سے اقوام متحدہ کی متنازعہ تقریر اور حکومتی ذمہ داریاں مملکت کے مطابق نہ چلانے پر باز پرس کی تو اس وقت صدر ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخی بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ وہ حلف یافتہ وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم نہیں تھے اور ان کا حکومتی امور سے سرکاری طور پر کوئی سروکار نہیں تھا۔ اب جبکہ وزارت خزانہ‘ پٹرولیم اوروزارت اطلاعات و نشریات میں مشیران و معاون خصوصی مقرر کیے گئے ہیں ‘تو وہ آئینی طور پر سرکاری امور کے معاملات کے ذمہ دار نہیں ہیں‘ ان کے فرائض صرف مشاورت تک محدود ہیںاور یہی آئین کا آرٹیکل 91 نشاندہی کرتا ہے۔مسٹر بھٹو کے مذکورہ بالا بیان کو سامنے رکھتے ہوئے غور کرنا چاہیے کہ حکومت کی جانب سے مشیران کو خزانہ ‘ پٹرولیم اور اطلاعات و نشریات کے محکمے سونپ تو دئیے ہیں ‘مگر ذمہ داریوں کی بات آئی تو یہ صاحبان آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ حلف یافتہ مشیر نہیں تھے اور حکومتی امور سے سرکاری طور پر ان کا کوئی سروکار نہ تھا۔ 
وزیر خزانہ کی حیثیت سے اسد عمرصاحب کی مایوس کن کارکردگی کے بعدوزیراعظم عمران خان کو بین الاقوامی معاشی ماہر ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ کو وزارت خزانہ کا مشیر مقرر کرنا پڑا ۔ نظام حکومت پارلیمانی ہو یا صدارتی ‘ کابینہ اس کا اہم ترین حصہ ہوتی ہے‘ کیونکہ کابینہ میں موجود وزراہی درحقیقت پورے ملک کا نظام چلاتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہی حکومت کامیابی سے ملکی امور چلا کر ملک کو مسائل سے نکال سکتی اور ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے‘ جس کی کابینہ باصلاحیت افراد پر مشتمل ہو اور اسے اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کا بھی مناسب وقت ملے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی حکومت انتہائی غور و خوض کے بعد ہی اپنے بہترین نمائندوں کو وزارتوں کے قلمدان دیا کرتی ہے ‘تاکہ وہ حکومتی امور کو بہ احسن و خوبی سرانجام دے سکیں۔ لازمی امر ہے کہ اس میں وقت بھی درکار ہوتا ہے ۔اس وقت پاکستان بلاشبہ بدترین اقتصادی بحران کا شکار ہے‘ جس کے بارے میں حکومتی موقف بارہا سامنے آچکا ہے کہ اس کی وجہ سابق حکومتوں کے لئے گئے قرضے ہیں‘ جن کی ادائیگی کے لیے حکومت کو مزید قرض لینا پڑ رہا ہے‘ تاہم دوست ممالک سے مالی معاونت کے باوجود حالات قابو میں آنے کی بجائے دگرگوں ہوتے چلے گئے ۔ ڈالر کی قدر ہی نہیں پٹرولیم مصنوعات اور غذائی اشیا تک کی قیمتیں بڑھ گئیں ۔اس حوالے سے نا صرف حکومت تنقید کی زد میں آئی بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ معیشت کو مستحکم کرنا اسد عمر کے بس کی بات ہی نہ تھی۔ دوسری جانب یہ موقف بھی غلط نہیں کہ محض آٹھ ‘نو ماہ کا عرصہ کسی حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لیے کافی نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی ملک کو معاشی بحران سے نجات دلانے کے لیے‘ جبکہ اسی مختصر عرصہ میں اسد عمر سے استعفیٰ لے لیا گیا اور چھ وفاقی وزرا کے قلمدان تبدیل کردیئے گئے۔ ان تبدیلیوں کے ملک و قوم پر‘ بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملکی معاملات پر اثرات مرتب ہونا بعید از قیاس نہیں۔
حکومت کے اس اقدام کو نا پختگی پر محمول کیا جا سکتا ہے ۔ایک رائے یہ ہے کہ کابینہ کو مزید وقت ملنا چاہیے تھا‘ خاص طور پر اسد عمر کا اس وقت استعفیٰ دینا خود حکومت کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی لیڈرشپ پر سوال اٹھائے گئے کہ اسد عمر کی یہ بات سچ ثابت ہورہی ہے کہ آئندہ بجٹ آئی ایم ایف کا ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو مہنگائی سے عوام پر بجٹ کسی بلائے بے درماں سے کم نہ ہوگا۔ حکومت کے لیے مشکلات کسی سیل رواں کی مانند ہو جائیں گی‘ جن کے آگے بند باندھنا دشوار ہوگا۔ مہنگائی کی بے لگامی شاید ساری حدیں پھلانگ جائے اور پھر اپوزیشن‘ جو یہ باور کراتی رہتی ہے کہ معیشت سمیت حکومت کی دیگر پالیسیاں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکیں‘ میدان میں کود پڑے اور سیاسی بحران شروع ہو جائے؛ چنانچہ اس مشکل وقت میں غیر حلف یافتہ معاون خصوصی اور مشیران کرام ‘جو کہ حکومت اور عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں‘وہ ہنگامی صورت حال میں حکومت کا دفاع کرنے میں ناکام رہیں گے‘ تاہم کابینہ میں رد وبدل کرتے ہوئے یہ تمام امور بھی حکومت کے پیش نظر رہے ہوں گے۔ ایسا تو ممکن نہیں کہ متبادل حکمت عملی کے بغیر ہی اتنے بڑے اور اہم فیصلے کئے گئے ہوں‘ لیکن ابھی مختصر عرصے میں وزیراعظم آفس کی جو کارکردگی دیکھنے کو مل رہی ہے اس سے یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ وزیراعظم آفس میں وزیراعظم کے دوستوں نے پڑاؤ ڈال رکھا ہے؛ حالانکہ حکومتی امور کی سنجیدہ پالیسیوں پر غوروغوض سے ان دوستوں کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ دوسری جانب حکومت کے جو مشیران وہاں براجمان ہیں‘ ان کے فرائض صرف یہی نظر آ رہے ہیں کہ وہ ٹاک شومیں گفتگو کریں اور حکومت کے ناقدین کو ناک آؤٹ کریں۔کارکردگی سے نہیں محض باتوں سے۔ 
یہ بات بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ جن وزراکو کابینہ میں اہم وزارتیں دی گئی ہیں وہ دوسری سیاسی جماعتوں کی حکومتوں میں بھی اہم عہدوں پر رہ چکے ہیں ‘جن پر ملکی معیشت تباہ کرنے کے الزامات ہیں ‘تاہم یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ جسے مناسب سمجھیں کابینہ سے سبکدوش کر دیں اور جسے موزو ں سمجھیں شامل کرلیں۔ اگر حکومت میں ملک و قوم کے مفاد میں یہ تبدیلیاں لائی گئی ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اب حکومت کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں کہ وہ ان تبدیلیوں کو صحیح ثابت کرکے دکھائے ۔بظاہروزیراعظم کی نئی ٹیم بھی ملک کو مشکلات سے نکالنے میں کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی ‘ نتیجے میں اپوزیشن شدید ہنگامہ آرائی پر اتر آئے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں