"KDC" (space) message & send to 7575

بھارتی الیکشن میں ووٹنگ مشینوں کا استعمال

جنوبی ایشیا میں انتخابی نتائج کی پیش گوئی کرنا مشکل کام ہے‘ لیکن پڑوسی ملک میں جاری حالات و واقعات کا عمیق جائزہ لیں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتیوں کی بڑی تعداد بی جے پی کے مضبوط امیدوار نریندر مودی پر اعتماد کرنے کے لئے تیار ہے۔ مجھے 30 مئی 2010 کو دہلی، اجمیر شریف اور ہریانہ کے ضلع روہتک جانے کا اتفاق ہوا‘ جہاں دانشوروں، پروفیسروں اور سول سوسائٹی کے با اثر نمائندوں سے ملنے کا موقع ملا۔ دانشور طبقے کے علاوہ رکشہ‘ ٹیکسی ڈرائیوروں اور نچلے طبقے کے لوگوں نے بتایا کہ بھارت میں جب جب بی جے پی اقتدار میں تھی تو اس نے عوام کی فلاح و بہبود‘ بے روزگاری کے خاتمے اور ترقیاتی کاموں کے لیے مثالی کردار ادا کیا‘ جبکہ کانگریس ہمیشہ پاکستان سے محاذ آرائی اور دشمنی کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی رہی ہے اور یہ سلسلہ پنڈت جواہر لال نہرو سے سونیا گاندھی تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
میں نے اس وقت پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک کے تعاون سے بھارتی الیکشن کمیشن کے اہم عہدے داروں سے بھی ملاقات کی تھی۔ انڈین الیکشن کمیشن کے ارکان پروٹوکول کا بڑا خیال رکھتے ہیں؛ تاہم یہ رکاوٹیں پاکستانی ہائی کمیشن نے ختم کرا دیں۔ انڈین الیکشن کمیشن کے سینئر افسروں سے ملاقات کے دوران الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی سنسنی خیز اندرونی کہانی اور اس نظام کے بارے میں کئی راز افشا ہوئے۔ یاد رہے کہ یہ مشینیں وہاں 2004 سے استعمال کی جا رہی ہیں۔
2019 کے عام انتخابات بھارت کی تاریخ کے طویل ترین انتخابات ہیں۔ یہ نو مراحل میں مکمل ہو رہے ہیں۔ لوک سبھا کے انتخابات کے لیے بھارتی عوام 11 اپریل سے 19 مئی 2019 تک ووٹ ڈالیں گے۔ اس طرح اس وقت تک الیکشن کے کئی مراحل مکمل ہو چکے ہیں‘ اور ایک دو مراحل باقی ہیں جو اگلے دو ہفتوں میں مکمل ہو جائیں گے۔ بھارت کی تاریخ میں پہلے کبھی شاید ہی اتنا طویل الیکشن ہوا ہو۔ لوک سبھا کے لیے 543 پارلیمانی حلقوں میں الیکشن منعقد ہو گا۔ بھارت کے جنرل الیکشن کے نتائج کا اعلان 23 مئی 2019 کو کیا جائے گا۔ بھارت کی سولہویں لوک سبھا کی آئینی میعاد 31 مئی 2019 کو مکمل ہو جائے گی‘ جس کے بعد بھارت میں آئندہ حکومت جون میں حلف اٹھائے گی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 17ویں لوک سبھا کے لئے پچاسی کروڑ 45 لاکھ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل قرار دیئے گئے ہیں‘ جبکہ سولہویں لوک سبھا کے لئے ان کی تعداد 75 کروڑ 45 لاکھ تھی۔ بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق سترہویں لوک سبھا کے جنرل الیکشن بھارتی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات ہوں گے‘ جن پر پچاس ارب روپے لاگت آئے گی جو پاکستانی کرنسی میں تقریباً ایک کھرب روپے بنتے ہیں۔ ان اخراجات میں الیکشن کے دوران سکیورٹی پر اٹھنے والے مزید اربوں روپے کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ ان میں وہ اخراجات بھی شامل نہیں جو دس ہزار کے لگ بھگ امیدوار اور سیاسی جماعتیں کریں گی یا کر رہی ہیں۔
پاکستان کی سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی راہنمائی کے لئے انڈین الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں آگاہی مفید ہو گی مگر بد قسمتی سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں تحقیق کرانے اور ریسرچ کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما غیر ملکی این جی اوز کی تیار کردہ رپورٹوں پر انحصار کرتے ہیں اور انہی کے فراہم کردہ اعداد و شمار کو لے کر نتائج مرتب کرتے اور آگے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ غیر ملکی این جی اوز کے فراہم کردہ اعداد و شمار کتنے قابل بھروسہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں تحقیق کرانے اور ریسرچ کی سہولتوں پر توجہ دی جائے تو زیادہ قابل اعتماد ڈیٹا مرتب کیا جا سکتا ہے۔ انہیں ان معاملات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ بہرحال دہلی میں میڈیا اور دوسرے ماہرین نے ماضی کے اپنے تجربات اور تجزیوں کی روشنی میں بتایا کہ بھارت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین غیر محفوظ ثابت ہوئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے یہ باور کرایا کہ ان مشینوں پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ ماضی میں ہارنے والے امیدوار اور سیاسی جماعتوں کے رہنما ان ووٹنگ مشینوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مشینوں میں ڈیٹا فیڈ کر کے انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بھارتی اور بین الاقوامی ماہرین کی ایک مشترکہ ٹیم نے جو رپورٹ تیار کی اس میں کافی سنسنی خیز انکشافات ہوئے جن میں سے کچھ کا ذکر کرنا قارئین کی دلچسپی کا باعث ہو گا۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد کو من پسند انداز میں تبدیل کیا جا سکتا ہے‘ اور ان کے اندر موجود ووٹوں میں دھاندلی ہو سکتی ہے۔ ووٹنگ مشین کی سوجھ بوجھ رکھنے والے یہ جان چکے ہیں کہ ان کے ذریعے الیکشن نتائج کو کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن کے ووٹنگ مشین کے حوالے سے غیر جانب دارانہ‘ شفاف اور غلطیوں سے مبرا انتخابات کے دعوے بے سود ہو کر رہ گئے ہیں۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں عام انتخابات کے لیے جو الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم اختیار کیا جا رہا ہے ان میں جو نقائص پائے جاتے ہیں‘ بھارت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں نہیں ہیں۔ یہ دعویٰ چند سال پیشتر کیا گیا تھا لیکن اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ان مشینوں کے ذریعے جعل سازی کی جا سکتی ہے۔ بھارت کے حالیہ عام انتخابات میں تقریباً 14 لاکھ مشینیں استعمال ہو رہی ہیں‘ جو تمام کی تمام متنازعہ ہیں۔ یہ مشینیں انٹرنل میموری کے ذریعے ووٹ ریکارڈ کرتی ہیں لیکن بعد ازاں معائنے یا دوبارہ گنتی کے لئے کوئی پیپر ریکارڈ مہیا نہیں کرتیں۔ الیکشن کمیشن نے ووٹنگ مشین کے ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر پر بھروسہ کر رکھا ہے جبکہ دنیا بھر میں پیپر لیس الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں نقائص کو سامنے رکھتے ہوئے جرمنی، آئرلینڈ، ہالینڈ، برطانیہ، فن لینڈ، اٹلی اور کئی امریکی ریاستوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا جنرل الیکشن کے لیے استعمال ترک کر دیا ہے اور دوبارہ بیلٹ پیپر کا نظام اپنا لیا ہے‘ کیونکہ ان کے خیال میں یہ سسٹم زیادہ قابل بھروسہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک پاکستان، افغانستان، بھارت، سری لنکا، بھوٹان‘ نیپال کے مقابلے میں مذکورہ یورپی ممالک بہت ترقی یافتہ ہیں؛ چنانچہ یہ واضح ہے کہ اگر وہ ممالک ووٹنگ مشینوں کے نا قابل اعتماد ہونے اور ان کے ذریعے جعل سازی کے امکانات موجود ہونے کی بنا پر بیلٹ پیپر کی طرف واپس آ گئے ہیں تو بھارت کے عام انتخابات میں بھی ان کے استعمال سے جعل سازی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ میری یہ بات نوٹ کر لیں کہ بھارت کے حالیہ انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد مشینوں کے ذریعے ووٹنگ کا یہ نظام ایک بار ہدف تنقید بننے والا ہے۔ 
میں نے انڈیا میں الیکشن کمیشن کے سینئر افسروں سے ملاقات کے بعد انڈین الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے مضمرات کے حوالے سے ایک تحقیقی رپورٹ مرتب کر کے سابق صدر آصف علی زرداری اور دوسرے متعلقہ اعلیٰ حکام کو بھجوائی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ انڈیا میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے اجرا سے بھارت کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر انتخابی نتائج میں ایسے انداز میں تبدیلی کرائی کہ ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کی نظروں سے یہ اوجھل رہیں، لیکن وہاں کچھ قوتوں کی من پسند حکومت بنتی رہی۔ اس رپورٹ کے ساتھ جو اہم دستاویزات لف کی گئی تھیں‘ ان سے الیکشن کمیشن کے حکام انڈین الیکشن کمیشن سے بات چیت کے دوران استفادہ کرتے رہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ان حقائق کے ادراک کے لیے تحقیق کر کے ہی، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے منصوبے کو آگے بڑھانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں