"KDC" (space) message & send to 7575

پنجاب کانیا بلدیاتی نظام کتنا کامیاب ہو گا؟

پنجاب اسمبلی میں حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2019ء اور پنجاب ویلج پنچایت اینڈ نیبرہڈ کاؤنسلز 2019 ء کی منظوری دے دی ہے اور گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی توثیق کے بعد صوبہ بھر میں ضلع اور یونین کونسلوں کا دیرینہ نظام بھی ختم ہو گیا ہے ۔اس طرح موجود بلدیاتی ادارے اپنی مقررہ مدت پوری کئے بغیر ہی تحلیل ہو گئے ہیں اور 1972 ء کی طرز پر سرکاری افسر ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دئیے گئے ہیں ‘یہ ایڈمنسٹریٹر نئے نظام کے تحت انتخابات تک کام کرتے رہیں گے۔ اسمبلی میں پیش کیے جانے والے بل پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ موجودہ منتخب اداروں کو اپنی میعاد پوری کرنے دی جائے۔ دراصل اپوزیشن کی یہ پرانی روایت رہی ہے کہ ہر بل کی مخالفت کی جائے ۔اسی طرز کی مخالفت 2016ء میں بھی پنجاب اسمبلی میں محدود سی اپوزیشن نے کی تھی اور 20 سے زائد ترامیم بھی پیش کی گئیں جو حسب ِروایت ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگئی تھیں ۔ اس وقت کے سپیکر صوبائی اسمبلی رانا محمد اقبال نے اپوزیشن کو ایوان سے باہر نکال دیا تھا ‘ اب بھی اسی طرز پر سپیکر صوبائی اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے رانا محمد اقبال کی پیروی کرتے ہوئے بل میں ترمیم پیش کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ یہ روایت ہمیشہ سے چلتی آرہی ہے کہ اپوزیشن سے حکمران جماعت اسی طرح کا سلوک کرتی آئی ہے؛ اگر 1956ء سے اسمبلیوں کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی جائے‘ تو اسی طرز کی جھلکیاں ہر دور میں نظر آئیں گی۔
نئے بلدیاتی نظام میں میٹرو پولیٹن اور میونسپل کارپوریشن معمولی تبدیلیوں کے ساتھ برقرار رہیں گی‘ تاہم ڈسٹرکٹ اور یونین کونسلوں کی جگہ تحصیل کی سطح پر تحصیل‘ شہروں میں محلہ اور دیہات میں ویلیج کونسلوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔تحصیل اور میونسپل کی سطح پر انتخاب جماعتی بنیادوں پر ہوں گے جبکہ محلہ اور ویلج کونسلوں کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والا خود بخود چیئرمین بن جائے گا ۔ نئے بلدیاتی اداروں کی میعاد چار سال ہوگی۔لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 ء کے مطابق حکومت چھ ماہ کے اندر تمام شہری اور دیہی علاقوں کی حد بندی نئے سرے سے کرے گی۔اسی حد بندی کو مدنظر رکھتے ہوئے شہری علاقوں کو 2017ء کی مردم شمارے کے مطابق آبادی کے لحاظ سے میٹروپولیٹن کارپوریشنز‘ میونسپل کارپوریشنز‘ میونسپل کمیٹیوںاور ٹاؤن کمیٹیوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ نوجوانوں کی مخصوص نشستیں ختم کر کے امیدوار کی کم سے کم عمر 25 سال مقرر کردی گئی ہے۔ ڈپٹی میئر اور چیئرمین کے خلاف پہلے اور آخری سال میں عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں کی جاسکے گی۔ کوئی بھی ترقیاتی کام کروانے کیلئے قرارداد لانا لازمی ہوگا۔ اقلیتوں کے علاقے میں اقلیتی نمائندہ ہی الیکشن لڑ سکے گا۔ آئندہ صوبائی بجٹ کا 33فیصد لوکل کونسلوں کے لیے مخصوص ہو گا۔ مالی معاملات کی نگرانی ‘ صوبے بھر میں ٹیکس‘ ٹول اور سرکاری فیسوں کے تعین اورمقامی حکومتوں کو ترقیاتی فنڈر کے اجراکے لیے ایکٹ کے نفاذ کے چھ ماہ کے اندر پنجاب حکومت13 افراد پر مشتمل ایک فنانس کمیشن بنائے گی جسے لوکل گورنمنٹ فنانس کمیشن کا نام دیا جائے گا۔ پنجاب کا وزیر خزانہ اس کمیشن کا چیئرمین ‘ وزیر بلدیات شریک چیئرمین جبکہ پنجاب کا سیکرٹری خزانہ اس کمیشن کا سیکرٹری ہوگا۔مقامی حکومتوں کے کام کی نگرانی اور رپورٹنگ کے لیے صوبائی سطح پر ایک'' انسپکٹروٹ آف لوکل گورنمنٹ ‘‘ بھی بنایا جائے گا۔یہ تجربہ کس حد تک کامیاب ثابت ہوتا ہے اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا‘ لیکن عمومی رائے یہ ہے کہ اس کیلئے موجودہ منتخب اداروں کی قانونی میعاد ختم ہونے کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ان کا انتخاب سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی ایکٹ 2013 ء کے تحت 2015ء میں ہونے والے انتخابات میں کیا گیا تھا اور ان انتخابات میں جو عوامی نمائندے منتخب ہوئے تھے انہیں ہر صورت اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دینا چاہیے تھا۔
لیکن انہیں وقت سے پہلے ہی رخصت اس لیے کرنا پڑا کہ موجودہ بلدیاتی اداروں پر بالخصوص پنجاب میں مسلم لیگ ن کو بالادستی حاصل ہے اور موجودہ لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تحت پنجاب میں حکمران جماعت انتظامی اور سیاسی طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ۔ویسے با دی النظر میں پنجاب میں لوکل گورنمنٹ الیکشن غیر متنازعہ رہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اچھے انداز میں الیکشن کا انعقاد کرایا تھا۔ادھربلوچستان کے بلدیاتی اداروں نے اپنی مدت پوری کر لی ہے ۔کنٹونمنٹ بورڈ اگلے مہینے اور خیبرپختونخوا کے بلدیاتی نمائندے اگست کے آخر میں اپنی مدت پوری کرلیں گے ‘صرف پنجاب میں بلدیاتی ارکان کی باقی ماندہ مدت کچھ زیادہ تھی۔ متعلقہ صوبائی حکومتوں نے مقررہ مدت میں بھی اداروں کو نہ تو ضروری اختیارات دیئے نہ ہی ترقیاتی فنڈز۔ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو ڈپٹی کمشنر کے ما تحت کرکے آئین کے آرٹیکل 140 (1)کی صریحاً خلاف ورزی بھی کی تھی۔ اس کی بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنے لیے زیادہ فنڈ مختص کرانے کی خواہش میں نچلی سطح کے بلدیاتی اداروں کو‘ جنہیں حکومتِ خوداختیاری بھی کہا جاتا ہے اور جمہوریت کی بنیادی اکائی بھی تصور کیاجاتا ہے ‘انہیںفنڈز جاری نہیں ہونے دیئے گئے؛حالانکہ گلی محلوں‘ شہروں اور تحصیلوں میں مقامی نوعیت کے ترقیاتی کام میونسپل کارپوریشن اور لوکل کونسلوں کی ذمہ داری ہے۔ارکان اسمبلی کا اصل کام قانون سازی ہے۔پنجاب میں جو بل منظور کیا گیا ہے اس کے خلاف اپوزیشن نے عدالتوں سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔بلدیاتی قوانین کے تحت میئر اور لارڈ میئر کے لئے اس نئے نظام میں گریجوایشن کی شرط ختم کردی گئی ہے اور اس طرح حکمران جماعت نے 1962 ء کے لاہور کے لارڈ میئر چودھری محمد حسین کی یاد تازہ کردی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے لوکل گورنمنٹ کا جو نظام پنجاب میں پیش کیا ہے اس کے لیے عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے جو تجاویز مختلف حلقوں کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو پیش کی گئی تھیں انہیں مد نظر رکھا گیا ہے۔ انڈونیشیا اور سنگاپور کے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو پاکستان کے لیے مثالی قرار دیا گیا تھا‘ حکومت کی جانب سے منظور کئے گئے قانون میں اس کا عکس نظر آتا ہے جبکہ پنچایت کا نظام جو اَب پاکستان میں بھی رائج کیا جا رہا ہے‘ 102 ممالک میں بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ چاروں صوبوں ‘ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں اور سیاسی قوتیں مذاکرات کر کے ایک ایسے بلدیاتی نظام پر اتفاق کریں جو اگرچہ مکمل طور پر ایک جیسا نہ ہو لیکن بہت زیادہ مختلف بھی نہ ہو ۔ ہم اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں داخل ہو رہے ہیں اور مقامی حکومتوں کو با اختیار بنانے میں بہت تاخیر کر چکے ہیں‘ اب مزید تا خیر سے ہمارا بلدیاتی نظام تباہ ہو جائے گا ۔ بڑے شہروں سے لے کردیہی کونسلوں تک سبھی کو مالی اور انتظامی طور پر با اختیار بنائے بغیر نہ ہم بنیادی مسائل سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں اور نہ ہی جدید جمہوری ریاست بن سکتے ہیں۔
پاکستان میں سب سے زیادہ تجربات بلدیاتی اداروں ہی پر کئے گئے ہیں ۔ طویل دورانیے کے لیے یہ ادارے معطل بھی رہے ہیں جبکہ ان کی بحالی کے زمانے میں سیاسی مداخلت نے انہیں کامیابی سے چلنے نہ دیا ۔اب پنجاب حکومت نے جو بلدیاتی نظام متعارف کرایا ہے‘ جس کی شروعات اسمبلی سے بل پاس ہونے اور گورنر پنجاب کے دستخط کے بعد صوبہ پنجاب سے کی گئی ہے ‘ ملک کی تاریخ میں کم وبیش یہ پانچواں موقع ہے جب بلدیاتی نظام میں تبدیلی لائی گئی ہے ‘تاہم یہ بات انتہائی قابل غور ہے کہ کتنے ہی نظام تبدیل کرلئے جائیں جب تک ان میں رشوت ‘بدعنوانی اور اقربا پروری کا عنصر موجود رہے گا‘ مطلوبہ نتائج کا حصول ایک خواب ہی رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں